ہمارے ایک مہربان قدردان خنجر زبان، نشتر بیان، آتش دہان بمقام کراچی اقامت پذیر ہیں۔ جو ہے تو پشتون لیکن پشتون لیڈروں، رہبروں، رہنماوں اور ھماؤں شماوں سے اتنے ناراض ہیں کہ ان کا ہر پیام ایک مقراض صد اعتراض ہوتا ہے۔
ان کا جو پیام آتا ہے تو ہمیں کچھ پڑھے سنے بغیر صرف موبائل سیٹ کو دیکھنے اور چھونے سے اندازہ ہو جاتا ہے جو انتہائی گرم بلکہ شرم سے مزید سیاہ ہو کر "لو" دینے لگتا ہے۔ مجبوری ہے کہ پڑھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ شعلہ فشانی، آتش بیانی اور انگار زبانی کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ مرچ مصالحہ اور نرالا سا ذائقہ بھی ہوتا ہے، اب کے جو ان کا فرمودہ آیا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ
"لطیف آفریدی نے سو جماعتیں پاس کر لی ہیں اور شمس بونیری کس کلاس میں ہے؟ میرا دونوں کو یہ نیک مشورہ ہے کہ اکوڑہ خٹک کے مدرسے پہنچ جائیں، سمیع الحق کی وفات کے بعد مدرسے کے چیف ایگزیکٹیو کی پوسٹ خالی ہے۔ کہیں اس پر افراسیاب خٹک ان سے پہلے قبضہ نہ کر لے"۔ شمس بونیری کے بارے میں تو پتہ نہیں لیکن لطیف آفریدی کو تازہ تازہ پارٹی سے نکالا اور ہر قسم کے تعلق سے لا تعلق یعنی ہوا میں معلق کیا گیا ہے اور یہی سلوک اس سے پہلے افراسیاب خٹک اور ایک خاتون سے بھی کیا جا چکا ہے کیونکہ مرکزی صدر اور "اولس مشر" نے صوبائی قیادت کو یہی ہدایت کی تھی۔ ہمیں ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ ہم بہت عرصہ پہلے،
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب توخوش ہو یہ زہر بھی پی لیا میں نے
انگار جانے لوہار جانے، اسفندیار جانے اور میاں افتخار جانے۔ لیکن فکر یہ ہے کہ درون و بیرون اور اندر باہر کا سلسلہ جاری رہا تو باقی بچے گا کیا۔ کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ ئے بینا نہ ہوا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن کسی کو کہنا پڑے۔
اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
ویسے توپورے ملک میں وہی ملا نصیرالدین کے شوربے کے شوربے کے شوربے کا شوربہ چل رہا ہے جواب صرف پانی بلکہ پانی پانی ہو چکا ہے۔ چلیے جب دمُ ہلا رہی ہے تو اس پرانی دہرائی حکایت کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ کہتے ہیں ملا نصیرالدین کا ایک دیہاتی دوست یا عزیز ان کے پاس ایک مرغی بطور تحفہ لایا تھا۔ ملاجی نے اس کی مہان نوازی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بلکہ اپنی طرف سے کچھ شہری سوغات بھی دے کر رخصت کیا۔ لیکن اس کے بعد ایک تانتا سا بندھ گیا۔ مہمان آتا اور یہی حوالہ دیتا کہ میں اس شخص کا رشتہ دار ہوں جو تمہارے پاس مرغی لایا تھا۔
تنگ آ کرایک دن ملا جی نے آنے والے مہمان کے آگے تھالی میں صاف و شفاف پانی رکھ کرکہا، تناول فرمایے۔ کچھ ایسا ہی سلسلہ اکثر پارٹیوں میں چل رہا ہے، اس لیے کوئی شوربے کے شوربے کے شوربوں کے بارے میں کیاکہے گا اور کیاسنے گا، چلو بھر پانی تو صرف ڈوب مرنے کے کام آتاہے۔
ہاں کیاکیجیے اوضاع ابنائے زماں غالبؔ
بدی کی اس نے جس سے کی تھی ہم نے بارہا نیکی
ویسے بھی اگلے وقتوں کے کچھ لوگ ابھی ایسے بھی باقی ہیں جو پارٹیوں جماعتوں کلاسوں اور لیڈروں سے اب بھی توقعات پال رہے ہیں۔ بچاروں کو پتہ نہیں کہ "پلوں " کے نیچے کتنی "سیاست" گزر چکی ہے اور پلوں کے اوپر کتنے لوگ گزر کر بہت دور جا چکے ہیں، اتنے دور کہ اب ان کے پیروں کے نشان بھی مٹ چکے ہیں اور باقی جو کچھ بچا ہے وہ گینگ وار ہے، کاروبار ہے، صنعت ہے، حرفت ہے، تجارت ہے لین ہے دین ہے اور عین غین ہے۔ یہاں پر وہ پشتو لطیفہ یاد آتا ہے کہ کسی نے بچھو سے پوچھا کہ تم میں سردار کون ہے؟ بچھو نے کہا، جس کی بھی "دمُ" پر ہاتھ رکھ دو، وہی سردار ہے۔
یاں ہرکسی کو ہے یہ غم تشنگی مگر
مے ہے اسی کی، نام پہ جس کی ابل پڑے
ایسے ہی اگلے وقتوں کے لوگوں میں سے کچھ پشتون اہل درد بھی ہیں جو پشتون قیادت کا رونا رو رہے ہیں۔ انھوں نے بھی تائید کی کہ پشتون قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر لانا وقت کا تقاضا ہے۔ اس کے بعد پتہ نہیں چلا کیونکہ ہم تو تھک ہار کر ایک طرف ہو چکے ہیں۔
شد آں کہ اہل نظر درکنارہ می رفتند
ہزار گو نہ سخن دردہان و لب خاموش
لیکن اڑتی سی خبریں سنتے رہے کہ کچھ ہو رہا ہے لیکن ہوا یہ کہ لطیف آفریدی کو بھی درکنارہ کر دیا گیا ہے۔ تمام ستارے فیتے اور بلے نوچ کر۔ جو بادہ خوار پرانے تھے اٹھتے جاتے ہیں۔
یونہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
"بانگ چنگ" تو ہر کوئی نہیں دے سکتا، بانگ موبائل بانگ مسیج اور بانگ سوشل میڈیا دے سکتا ہے اور وہ دے رہے ہیں۔ دیکھیے کیا نتیجہ نکلتا ہے، عاشورہ ہوتا ہے یاعید۔ ہم تو اپنے سارے "سوار" کھو چکے ہیں۔ یہ ایک ٹوٹا پھوٹا قلم ہے، وہ بھی بے دم خم ہے۔
امورمصلحت خویش لیڈراں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش