اس وقت جو صورت حال ہے اس پر تو کچھ کہنا سننا بولنا چالنا یا لکھنا لکھانا فضول ہے اور یہ فضول کام بہت سارے "دانا" کر بھی رہے ہیں تو ہم جیسے جہلا کی کون سنے گا بلکہ آج کا میڈیا جس "آزادی" پر اپنا شملہ ٹیڑھا باندھ رہا ہے، اس آزادی کا فائدہ یہ ہے کہ کہتے سب ہیں سنتا کوئی نہیں ہے۔
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
ویسے بھی سب کچھ سامنے ہی تو ہے۔ "شنیدہ کے بود مانند دیدہ"۔ وقت کا "نائی" بال کاٹ کر جھولی میں گرا چکا ہے اور ہرکوئی اپنی سو چھیدوں والی جھولی میں اپنے "بال" ناپ اور ماپ سکتا ہے اور بزرگوں نے تو پہلے ہی کہا ہوا ہے کہ اگر "بے شرم" شرم دلانے پر بھی نہ شرمائے تو شرم "دلانے" والے کو خود شرما کر چپ ہو جانا چاہیے اور اگر چور نہ بھاگے تو گھر والا ہی بھاگ جائے، ایسی کوئی بات رہی ہی نہیں جس میں کوئی نئی بات ہو۔ جلسے جلوس ہو چکے۔ دھرنے ورنے گزر چکے، احتجاج اور امتزاج چل چکے، ہڑتال اور ان شن سب "ان سن" ہو چکے ہیں اور اس ان سنی میں ہر کوئی "سن" ہو چکا ہے،
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
یہ بھی کوئی بات نہیں کہ لوگوں پر بلکہ کس کس پر کیا کیا بیت رہی ہے کہ آپ بیتی ایک جگ بیتی اور ہر جگ بیتی میں آپ بیتی بلکہ بیتیاں ہیں، یہ کہنا بھی فضول ہے کہ کون کیسے مرا کیوں مرا کس نے مارا اب زندگی اور موت میں بھی کوئی خاص فرق نہیں رہا ہے، زندگی ہی موت ہے اور موت ہی زندگی ہے۔
نہ تو دشمنی نے مارا نہ ہی دوستی نے مارا
گلہ موت کا نہیں ہے مجھے زندگی نے مارا
کہنا اگر ہے تو صرف یہ ہے اور نہایت منت زاری سے کہنا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ یہ کان نمک میں بیٹھے ہوئے جلے پر اور نمک چھڑکیں یہ زخموں پر نمک نہیں تو اور کیا ہے، کہ بس تھوڑی دیر اور سہو۔ سہولتیں آنے والی ہیں تھوڑا سا صبر اور کہ قبر تیار ہونے والی ہے سب کچھ ٹھیک ہو جائے اور سارے درد دور ہو جائیں گے بس تھوڑا اور تھوڑا سا اور۔ چند روز مری جان فقط چند روز۔ خوان لغیما آنے والی ہے۔ حلوائی کی دکان کھلنے والی ہے پھر دادا پردادا لگڑ دادا کا فاتحہ پڑھتے رہنا۔ پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا روز گوشت پکے ہر شام پلاؤکھائیں گے اور ہر صبح جلوہ پوریاں ٹھونسیں گے، ہم نے "یہ یہ" کر دیا ہے اور بہت جلد "وہ وہ" ہو جائے گا۔
کیسے "حالات" کیسے "ٹھیک"۔ "ثمرات" کہاں سے آئیں گے کہ تم باغ تو نہیں جنگل بو رہے ہو۔ وہ بھی کیکروں اور لوہے سمینٹ کے۔ نہ کچھ بویا ہے نہ بو رہے ہو تو کاٹو گے کیا باباجی کا ٹلو ارے ہاں یاد آیا وہ باباجی؟ جس نے ہم کو تقریباً جنت الفردوس میں بیٹھا دیا تھا اور جادو کی چھڑی سے "ریاست مدینہ" لا کر ہمارے ارد گرد پھیلا دیا تھا اور چن چن کر صادق و امین ہمارا نصیبہ کر دیے تھے ہاں غالباً ہاں ہاں اس نے کہا تھاکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیموں کی چوکیداری کریں گے یقیناً کر رہے ہوں گے کہ ڈیم ہمارے پاس اتنے ہو گئے ہیں کہ کسی بھی پڑوسی کا جی للچا سکتا ہے اور دو چار ڈیم چوری کر سکتا ہے۔ خیر وہ تو چھوڑیے کہ ایسے بہت آئے اور دو دن بہار جانفرا دکھلا کر قوم کو مالا مال کر گئے۔
اب یہ جو سامنے "نقدا نقد" مالا مال کرنے والے ہیں اور چند روز، تھوڑی دیرِ بہت جلد الاپ رہے ہیں ان سے کون پوچھے کہ کہاں سے، کیسے؟ کس طرح؟ کیا تم کہیں جادو سیکھ رہے ہو؟ کوئی قارون کا خزانہ ہاتھ لگنے والا ہے کہیں آسمان کا چھپر پٹھنے والا۔ ایک مرتبہ پھر۔ کہاں سے کیسے؟ کس طرح؟۔ کہ زراعت کی ریڑھ تو بہت پہلے ماری جا چکی ہے صنعت کی کمر کچھ تو لوڈشیڈنگ نے توڑ دی تھی اور باقی جو بچی تھی وہ ٹیکسوں نے ریزہ ریزہ کر دی ہے دھڑا دھڑ کارخانے بند ہو رہے ہیں۔
سنا ہے نوشہرہ کی ایک بہت قدیم اور بڑی گھی مل بھی یہ کہہ کر بند کر لی گئی ہے کہ اگر ہم ہزار روپے کنستر بھی نرخ بڑھا دیں تب بھی ٹیکس پورے نہیں ہوں گے محکمے خسارے میں جا رہے ہیں منصوبے ختم کیے جا رہے ہیں نیپ کو نہ جانے کہاں سے ہدایت دی گئی کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ خبردار اگر کہیں کوئی کام ہوا تو۔ ۔؟ رہا ہمارا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بلکہ مردن وکشتن۔ قرضہ اور بھیک۔؟ تو وہ بھی شاید سارے دروازے بند ہو چکے ہیں بعض نے تو تنگ آ کر باہر سے تالے لگوا لیے کہ یہ کم بخت بھکاری کس طرح ٹلے۔
"بھیک" بے شک ایک نہایت ہی منافع بخش دھندہ ہے یہاں تک کہ "چندے کے دھندے" سے بھی زیادہ نفع آور کہ اس میں تو پھر بھی رسید بک وغیرہ کا خرچہ ہوتا ہے جب کہ اس میں نہ ہینگ لگتی ہے نہ پھکڑی، آمد ہی آمد۔ اور اکثر سنتے بھی ہیں کہ بھکاریوں میں بڑے بڑے سرمایہ دار بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن بھیک کا سلسلہ بھی اپنے ہاں کچھ الگ ہے۔
پشتو میں کہاوت ہے کہ "نیستی" کے مارے پن چکی چلانا اور مستی کے مارے "مزد" (اجرت نہ لینا) یعنی بھیک میں حاصل کرو اور سخاوت میں لٹا دو اربوں بھکاری سیکم کارڈ، سہولیات کروڑوں گھر کروڑوں نوکریاں۔ منتخب نمایندوں کی فوج ظفر موج۔ اور انھیں دنیا میں کرکٹ وغیرہ کے لیے بھیجنا، یہ وفد وہ وفد۔ بہت جلد ہاں بس بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا بنیادیں ڈال دی ہیں کل پرسوں نیا نویلا پاکستان ہو گا جو جنت نشان ہو گا۔ اس پرکوئی کچھ کہے بھی تو کیا؟۔