اکثرلوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم احمقانہ بلکہ حماقت سے بھرپور حماقت آب کالم کیسے لکھ لیتے ہیں یہ تو آپ لوگوں کا المیہ ہے کہ فلم گجنی کے عامرخان سے بھی زیادہ آپ کی یادداشت گئی گزری ہے ورنہ یہ بات بلکہ "راز"ہم کئی بار بتاچکے ہیں وہ بھی کسی بہت بڑے دانشور کے حوالے سے ہے جو شاید یونان کا قبیلہ(ط) کا دانشور تھا یا شاید چین کا کیگ فوتسے یا لاوتے وغیرہ۔ ہوسکتاہے ایران کا لقمان یا بزرگ مہر(بزرجمہر) تھا بلکہ عین ممکن ہے کہ ہندوستان کا کوٹلیہ یا وکرمہ دیتہ یا ٹنائی رام ہو بہرحال کوئی بڑا اور رجسٹرڈ دانشور تھا۔
جس نے کسی کے پوچھنے پر کہ آپ نے اتنی دانش کس سے سیکھی ہے تو اس کادولفظی جواب تھا احمقوں سے۔ اسی اصول کے تحت ہم نے بھی اپنی تمام ترحماقتیں جوہم کالموں میں"یوز"کرتے ہیں اڑوس پڑوس، اخباروں اور چینلوں کے دانشوروں سے سیکھی ہیں۔ سیکھنے کا یہ طریقہ "علم بالضد" کہلاتاہے یعنی کسی بھی فن یاپیشے کے اچھے اچھے اصول جمع کرکے ایک لسٹ بنانا۔ اور پھر اس سے مکمل طور پر پرہیز رکھنا۔
اس سلسلے میں ہم نے ایک بہت ہی مشہور کامیاب لیڈر کا حوالہ بھی دیاتھا جو اپنے کیریئر کا آغاز انڈے چوری مرغی چوری سے کرکے بھینس گائے چوری کرنے تک پہنچا اور اس سلسلے میں تمام درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہوکر اس نے یونیورسٹی یعنی جیل میں داخلہ لیا تھا وہاں اس نے ویسے تو بہت سارے ماہرین اور سبجیکٹ اسپیشلسٹوں سے استفادہ کیا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ اور بہت بڑا اصول ایک بوڑھے قیدی سے سیکھاتھا جس کی آدھی زندگی جیلوں میں اور آدھی زندگی جیلوں کے انتظار میں گزری تھی۔ اس بوڑھے قیدی کے سات سنہری اصول تھے۔
سچ، وفا، خلوص، دیانت، ایمانداری، بے غرضی اور خودداری۔ چنانچہ اس نے اس بوڑھے قیدی کے یہ سات اصول ازبر کرلیے تھے اور پھر اس سے عمربھر پرہیز کی پکی پکی قسم کھالی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ملک کا ٹاپ لیڈر بن گیا اور وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو وہ چاہتا تھا۔ کوئی بھی پیشہ اختیار کرنا ہو اس کے تمام اچھے اچھے اصولوں کی ایک فہرست بنائیں، اسے ازبر کر لیجیے اور پھر اس سے مکمل پرہیز اپنائیں، کامیابی آپ کے قدم نہ چومے تو جو سزا ایماندار کی وہ ہماری۔ ہم نے بھی یہی وطیرہ اپنا رکھاہے تمام دانشوروں کے کالمات انکرات اور فرمودات پڑھتے رہتے ہیں اور جو جو وہ کہتے ہیں۔
ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی مائی کا لال بلکہ اس لال کا باپ بھی ہمیں احمقانہ کالم لکھنے سے نہیں روک سکتا چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب ملک میں کوئی "واقعہ" ہوتا ہے کچھ واقعات عالمی سطح کے بھی ہوتے ہیں اور ان پربھی ہمارے دانشور اپنی دانش بھگارتے ہیں لیکن ابھی ہم اس کیٹگری تک نہیں پہنچے ہیں اس لیے صرف ملکی واقعات پراپنی حماقت مرکوز رکھتے ہیں۔ اس لیے پہلے ہم کچھ نہیں لکھتے خاموشی سے دانشوروں کی دانش پڑھتے رہتے ہیں اور پھر بڑے آرام سے اس دانش سے دامن بچاتے ہوئے اپنی حماقت جگاتے ہیں۔ مثلاً اب جو تازہ واقعہ ہوا ہے یعنی ہمارے وزیراعظم نے امریکی صدر کے منتوں ترلوں اور استدعاؤں پرامریکا کوقدوم منمت لزوم سے مشرف کیا تو اس پرہمارے ہاں کی "دانش"بگھارنے کا سلسلہ چل پڑاہے۔
کوئی اسے پیاز کا بگھار دے رہاہے کوئی لہسن ادرک کا کوئی زیرے کا اورکوئی کلونجی کا۔ چونکہ تقریباً ہرقسم کی دانش بگھاری جاچکی ہے۔ ان تمام اثرات مضمرات اور ثمرات وبرکات کی تفصیل بھی سامنے آچکی ہے جو تعلیمی سیاسی دفاعی تجارتی ہمہ اقسام کے تجزیہ نگار دریافت کرچکے ہیں توہم نے ان تمام دانشوروں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی حماقتوں کو جگانا شروع کردیا ہے، سب سے پہلی حماقت تو یہ کہ یہ نہ سیاسی دورہ تھا نہ تجارتی نہ دفاعی اور نہ کسی اور قسم کا بلکہ خالص محبت کا معاملہ تھا جب ہمارے وزیراعظم ایوان اقتدار میں تشریف فرماہوچکے ہیں تب سے یہ امریکا کے مسٹرٹرمپ ان کے حسن بے پایاں پر سوجان سے فدا ہوئے ہیں اور "نسیم"کے ذریعے پیغام پرپیغام بھیج رہے ہیں کہ
نسیما جانب بستاں گزر کن
بگوآں نازش شمشاد مارا
بہ تشریفے قدوم خود زمانے
مشرف کن خراب آباد مارا
اب آخر اس کی تمنا بر آئی اور ہمارے وزیراعظم نے استدعاقبول کرتے ہوئے قدم رنجہ فرمادیا۔ مطلب ہمارا اس سارے معاملے سے یہ ہے کہ ہماری دانشوروں سے سیکھی ہوئی "حماقت"بتاتی تھی کہ یہ ایک خالص بھر ہی والہانہ ملاقات تھی اور کچھ نہیں بلکہ اسے ایک طرح "تجدیدوفا" کا امکان بھی قرار دیاجاسکتاہے کیونکہ اس میں سترسالہ تاریخ میں پہلی بار امریکا نے کشمیر کا ذکرکیاہے، نہ صرف ذکر بلکہ اس مسئلے کے حل میں دامے درمے سخنے یہاں تک کہ "قدمے"کوشش کرنے کا اعلان بھی کیاہے اور یہی بات ہماری حماقت کے نقطہ نظر سے بڑی بات ہے یعنی
راہ پر ان کو لگالائے تو ہیں باتوںمیں
اور کھل جائیں گے دوچار ملاقاتوں میں
ہمیں یقین ہے کہ ٹرمپ کو اردو نہیں آتی ہے اور کسی اور کو کیا پڑی ہے کہ ہمارے کالم کی بات اسے بتادے۔ اس لیے یہ بات کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے یا ہمارے وزیراعظم کے ساتھ"دعاؤں"کی برکت ہے کہ امریکا کو ٹرمپ جیسا صدر ملاہے کہ جو حماقت امریکا سے سترسال میں سرزد نہیں ہوئی تھی وہ سرزد ہوگئی، بھلا کوئی اپنی دودھیل گائے بھی مارتاہے۔ بلکہ ڈاکٹر امردو مردود کا واقعہ تو ہم نے آپ کو سنایا تھا کہ جب وہ حج پر جانے لگا تو اپنی جگہ "دکان"پراپنے ایم بی بی ایس بیٹے کو بٹھا گیا۔
لوٹنے پر جب بیٹے نے اسے خوشخبری سنائی کہ میں نے آپ کے وہ تین مریض بالکل ٹھیک ٹھاک کردیے جو بیس سال سے آپ کے زیرعلاج تھے تو ڈاکٹر امرود مردود نے اپنے بیٹے کا اور اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا کہ یہ تم نے کیا حماقت کی یہی تین مریض ہی تو میرا کل اثاثہ تھے، تمہاری پڑھائی میرا حج اور یہ سارا تھام جام تو ان ہی تین مریضوں کی برکت سے تھا لگتاہے ٹرمپ بھی ڈاکٹر "امرود مردود" کا ایم بی بی ایس بیٹاہے جو گائے کو ذبح کرنے کا کہہ رہاہے۔ یہ حماقت نہیں تو اور کیاہے؟