عالم، علامہ اور دانا دانشور لوگوں کے علم کی بنیاد تو بڑی بڑی کتابیں ہوتی ہیں یا یونیورسٹیوں کی بڑی بڑی ڈگریاں لیکن ہماری تو ان مقامات عالیہ تک رسائی ہے نہیں، ساتویں جماعت میں اسکول چھوڑنے والے کا علم کیا اور دانش کیا۔ لیکن اس کی کمی ہم انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے بجائے قدرت کی لکھی ہوئی کتابوں، حکومت اور نظاموں اور مجبوریوں کی لکھی ہوئی کتابوں سے پوری کرتے ہیں۔
آج جس کتاب کا ذکر ہم کرنا چاہتے ہیں وہ ایک"ہرمل"کا دھواں دینے والا لٹاپٹا مدقوق اور نہایت ہی میلا کچیلا شخص ہے جو سندھ سے آکرپشاور میں تین ڈبے لیے پھرتاہے۔ ایک ڈبے میں انگارے، دوسرے میں ہرمل کے دانے اور تیسرے میں جوکچھ سکے اسے مل جاتے ہیں۔ وہ یہاں وہاں پھرکر دکانداروں خریداروں اور چلنے پھرنے والوں کے سامنے انگاروں پرہرمل کے دانے ڈال کر دھواں دیتاہے، کوئی کچھ دے دیتا اور کوئی کچھ بھی نہیں دیتا۔ دوسرے علاقوں کا تو پتہ نہیں لیکن پشتونوں اور پشتونخوا میں ہرمل کے دھوئیں کو صدیوں سے نظراتارنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔
گھروں میں بھی "ہرمل"کی سوکھی ہوئی ٹہنیاں ہمیشہ رکھی جاتی ہیں اور اسے آگ پر ڈال کر دھواں کمروں وغیرہ میں دیاجاتاہے، کسی کی نظر اتارنا ہو تو ہرمل کا دھواں اس کا تیربہدف علاج سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں اب تونہیں لیکن کچھ ہی عرصہ پہلے ایک حکایت مشہورتھی کہ دو بڑے سنیاسی جب ہمارے گاؤں میں اترے تو ایک نے غز یا کھگل کے درخت دیکھ کرکہا کہ اتنے زیادہ"غز"کے درخت ہونے کے باوجود یہ لوگ ابھی تک تباہ کیوں نہیں ہوئے ہیں۔
غز ایک اور درخت ہے جس سے مختلف علاقوں میں ٹوکریاں بنائی جاتی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اس کی لکڑی سے طرح طرح کے خوبصورت برتن شوپیس اور آرائشی چیزیں بنائی جاتی ہیں، بے ضرر درخت ہے لیکن ہمارے گاؤں کی اس حکایت میں اس سے بے پناہ گرمی پھوٹتی ہے۔ ایک سنیاسی کی اس بات پر دوسرے نے کہا، دیکھتے نہیں نیچے ہرمل کے پودے یا جھاڑیاں بھی ہیں۔
اسی لیے یہ گاؤں تباہی سے بچاہوا ہے۔ وہ ہرمل کا دھواں دینے والا آدمی ہمارے پاس آیاتو ہمیں اس میں قابل مطالعہ کتاب دکھائی دی۔ پوچھا کہاں کے ہو۔ بولا سہون شریف کا ہوں لیکن خدانے میرا رزق یہیں پرلکھاہواہے۔ اچھی قابل مطالعہ کتاب ملی تھی، اس لیے ہم نے اس کے "اوراق" پڑھنا شروع کیے۔ وہ خود بھی دمے کا مریض تھا اور کام دھوئیں کاکرتاتھا۔ بیوی بھی "دق"کی ماری ہوئی تھی، رہائش ایک پیوندزدہ خیمے میں تھی اور اس کاروبار میں اپنا گھر پالتاتھا۔ ایک صحفے پرلکھاتھا کہ بھیک مانگنا اور کسی کے آگے رونادھونا اسے اچھا نہیں لگتا ورنہ سہون شریف میں کہیں بیٹھ جاتا۔ احمدفراز نے سچ کہاتھا،
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملے
لیکن اس"ہرمل خرابے"میں وفا وغیرہ کے بجائے اور بھی بہت سارے موتی تھے۔ اس "ہرمل دانے"شخص سے ہمیں احساس ہوا کہ ہرمل کا دھواں نظر اتارنے کے لیے تیربہدف ہے اور یہ ہرمل کا دھواں دینے والا اور اس جیسے اور بہت سارے "دھواں " دینے والے بھی ہمارے اس معاشرے اس نظام کے "نظربٹو یا نظر اتارے" ہیں۔
ہمارے نظام میں یہ اتنے بڑے بڑے "خوبصورت"۔ اس لیے محفوط ومامون ہیں کہ اس معاشرے کو دھواں دینے والے ایسے "ہرمل کے دانے" ان کے اردگر سلگ سلگ کر دھواں دینے میں مصروف ہیں، ان کا دھواں ہی "ان" کا محافظ ہے۔ یہ پندرہ فیصد اشرافیہ کے انتہائی صفت دار اور چمک دار حسین وجمیل امیروکبیر اسی ہرمل کے "دانوں "کی برکت سے پیدا ہوتے ہیں، پنپتے ہیں اور ہمیں نہ جانے "کیا کیا"دیتے ہیں۔
اپنے لوگوں کی وہ حکایت پھر میرے ذہن میں گردش کرنے لگی ہے، آپ بھی ذرا غور سے سنیے۔ یہ اتنے بڑے بڑے"غز"یہاں ہیں اور پھر بھی یہ "بستی"تباہی سے بچی ہوئی ہے؟اس لیے کہ ان غز کے درختوں کی جڑوں میں یہ"ہرمل کی جھاڑیاں "بھی تو ہیں۔ جو نظرنہیں آتیں لیکن "غز"کے بڑے بڑے درختوں کو "نظربد"سے بچاتی ہیں۔ ہم ہرمل پر کچھ پشتو کے اشعار پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جو "ہرمل"اور"غز"کے تعلق کو اور واضح کرتے ہیں۔ ہمارا اپنا ایک شعر ہے۔
تانہ بہ ئے ولے دا خپل زان لوگے کولو نہ
برق خو پیداشوے پہ وطن دسپیلنو کے دے
ترجمہ۔ :تم پر اپنی جان نثارکیوں نہ کرے کہ برق کی تو پیدائش ہرمل کے وطن میں ہوئی ہے۔ لیجنڈشاعر خاطر آفریدی کا شعر ہے
خاطرہ یار دے پہ خیبر کے اوسی
ٹولہ درہ دسپیلنو ڈکہ شہ
یعنی اے خاطر تمہارا یار خیبر میں رہتاہے، اس لیے سارا درہ ہرمل سے بھرگیاہے۔
ہرمل اس معاشرے میں ضروری ہیں، اس لیے اگائے جارہے ہیں جہاں بہت سارے "خوبصورت" رہتے ہوں۔ اگر ہرمل کی یہ جھاڑیاں اور دانے نہ ہوں اور غربت کے انگاروں پر دھواں نہ دے رہے ہیں تو خوبصورتوں کو فوراً"نظر" نہ لگ جائے گی۔ فارسی میں ہرمل کو"سپند"کہتے ہیں۔ غالب نے کہاتھا،
نالہ دل میں شب انداز اثرنایاب تھا
تھا"سپند"بزم "وصل غیر"گو بتیاب تھا
"خوبصورتوں "کو نظربد سے بچانے کے لیے ہی حکومت نے"ہرملوں "کی اتنے وسیع پیمانے پر "کاشت" کے انتظامات کیے ہوئے ہیں۔