پورا حساب تو شاید احتساب کا کوئی محتسب ہی لگا پائے گا کہ دنیا میں اس وقت کتنی"لوجیاں"موجود ہیں لیکن ہمارے سرسری اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت کم ازکم نناوے لاکھ نناوے ہزار نناوے "لوجیاں"پائی جاتی ہیں وہی لوجیاں جو کسی بھی چیز کی دُم سے چھاج کی طرح باندھ کر اسے"علم"بنا دیتے ہیں۔
مثلاً ٹیکنالوجی، آئیڈیالوجی، کارڈ یالوجی، ناکیالوجی، کان یالوجی، آنکھ یالوجی، بیالوجی، تیالوجی، کا کیالوجی، بڑیالوجی چھوٹالوجی، پیازالوجی، ٹماٹریالوجی، آلویالوجی، نرخیالوجی، مہنگائی یالوجی۔ آپ گنتے گنتے بوریالوجی محسوس کرلیں گے لیکن "لوجیاں"ختم نہیں ہوں گی بلکہ ایک "لوجی"کو جتنے عرصے میں بولیں گے اتنے عرصے میں اس سے آٹھ دس لوجیاں اور نکل کر لوجی لوجی ہوجائیں گی۔
جن کو اگر کوئی مجموعی نام دینا چاہیں تو وہ "ٹرکالوجی"ہی ہوسکتاہے۔ ایسی ہی لوجیوں میں سے ایک"لوجی"کے ماہر ہمارے ایک دوست ہیں اور وہ لوجی "کرمنالوجی" ہے۔ کرمنالوجی میں کرائم یعنی جرائم کے خاندانوں، شاخوں قبیلوں کی درجہ بندیاں بلکہ درجہ یالوجی کی جاتی ہے۔ اور "اشرافیہ"کی طرف سے عوام کو ٹرکالوجی فراہم کرنے کے لیے ان لوجیوں کو باقاعدہ علوم مضامین سبجکٹ اور نہ جانے کیا کیا نام دیے جاتے ہیں۔
اس علم بے علمی کے ذریعے پتہ لگایا جاتا ہے کہ جرائم کیاہوتے اور کیوں ہوتے ہیں کس لیے ہوتے ہیں کون کرتاہے لیکن ہر مروجہ علم کی طرح اس میں بھی اصل بات چھپائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ جرائم کون کرواتا ہے یا ایک اچھے بھلے شریف اور پرسکون زندگی کا تمنائی جرائم پر کیوں اتر آتاہے، چنانچہ کرمنالوجی میں بھی وہ سب کچھ بتایاجاتاہے جو بالکل بھی ضروری نہیں ہوتا اور اس لیے بتایا جاتاہے کہ اس کی اصل "وجہ" کو چھپایا جائے جو ضروری ہے۔
چنانچہ کرمنالوجی میں اور بھی بہت سارے غیرضروری علم کو گڈمڈ کرکے ایک ملغوبہ تیارکیاجاتاہے جس کا واحد مقصد اور استعمال اس اصلی وجہ کو چھپانا ہوتاہے۔ یہ ایک بڑا ہی موثر طریقہ ہے چوری کو چھپانے کا۔ بلکہ بہت کچھ چھپانے کا۔ مثلاً ایک زمانے میں اکثر چوروں کے پیچھے جب لوگ پڑجاتے تھے اور چور چور پکار کر پکڑنے کی کوشش کرتے تھے تو چور بھی اپنے آگے اشارہ کرکے چلتا تھا۔ چور چور پکڑو۔ پکڑوجانے نہ پائے اور یوں چور آرام سے لوگوں کو یونہی بے مقصد دوڑ میں مبتلا کرکے آرام سے کھسک جاتے تھے۔
اب اگر جرائم کو ہرطرف سے ناپ تول کر اور جمع تفریق کرکے دو جملوں میں بیان کرنا چاہیں کہ "جرائم"معاشرے کی ناہمواری سے پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے کی ناہمواری کا ذمے دار استحصالی نظام ہوتا ہے۔ جو محرومی فرسٹریشن اور ایک طرح سے انتقام کے جذبے کو ابھارتاہے۔ اگرکوئی نظام یا معاشرہ یا حکومت اور اس کے ساجھے دار پندرہ فیصد اشرافیہ والے طرح طرح کے ہتھکنڈوں اور داؤ پیچ سے استحصال چھوڑ کرایک منصفانہ عادلانہ نظام چلائے توایک عام آدمی کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ جرم کرکے اپنے اور اپنے بال بچوں اور خاندان کی زندگی مصیبت میں ڈالے بلکہ عام آدمی تو اتنا شریف ہوتاہے کہ معمولی قسم کی بے انصافی اور حق تلفی بھی برداشت کرلیتاہے تاکہ اس کی زندگی مشکل نہ ہو۔
لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوجائے اس کی اپنی کمائی بھی اس سے چھینی جائے اور اس پرکچھ لوگ صرف باتوں کے بتنگڑ بنا کرعیش کرنے لگیں، تمام میٹھا میٹھا ہپ کریں اور کڑوا کڑوا اس بدنصیب عام آدمی کا مقدر بنادیں تو عام آدمی کے لیے اور کون سا راستہ بچ جاتاہے سوائے اس حرکت یا حرکات کے جسے اشرافیہ نے جرائم قرار دیا ہوا ہے جو ایک ایسی چھلنی ہے جس سے بڑے بڑے چور ڈاکو استحصالی ظالم اور حرام خور تو نکل جاتے ہیں لیکن ایک روٹی ایک مرغی اور ایک بکری چرانے والا "مجرم" ثابت ہوجاتاہے کیونکہ اس کے پاس وہ گرمی وہ حرارت نہیں ہوتی جو قانون کی مومی ناک کوکسی اور طرف موڑسکے۔
سیدھی سی بات ہے کہ اگرکسی مزدور کو اس کی پوری مزدوری ملے کسان کو اپنی محنت کا صلہ ملے خدمات والے کو اپنی خدمات کا اجر ملے۔ تو کیا وہ پاگل ہے دیوانہ ہے احمق ہے جو اپنے بال بچوں کے ساتھ گھر میں پرسکون اور شانت زندگی چھوڑ کرجرائم کا راستہ اختیار کرلے۔ جانور کوبھی اگر اپنے تان پراپنے حصے کی گھاس ملے تو وہ اسے چھوڑ کر دوسرے جانور سے سینگ کیوں لڑائے گا؟لیکن جب وہ اپنے سامنے کچھ بھی نہیں پاتا اور دوسرے کے سامنے ہری ہری گھاس کا ڈھیر دیکھتاہے تو کچھ نہ کچھ کرنے پراتر آئے گا۔
ہمارا نظریہ ہے اور اسے دنیا کی کوئی "لوجی"جھٹلا نہیں سکتی کہ عام آدمی شریفانہ پرسکون اور بغیر ہیجان کے ہموار زندگی جینا چاہتاہے وہ چاہتاہے کہ جو اس کا ہے وہ اسے ملے اور جو دوسرے کا ہے وہ دوسرے کو ملے وہ جینا اور جینے دینا چاہتاہے لیکن اگرکوئی اسے ایسا کرنے دے تب۔ لیکن جب نظام یامعاشرہ یا حکومت اس کی رگوں سے خون کا ایک ایک قطرہ بھی نچوڑ کراسے تہی دست تہی ہاتھ تہی شکم تہی لباس تہی پیٹ بنادیتا ہے تو لازماً آخر وہ کچھ نہ کچھ توکرے گا۔ اور وہ جب مایوسی فرسٹریشن محرومی اور مجبوری کے آخری مرحلے پر پہنچ کرکچھ کرتاہے تو اسے"جرم"قرار دیاجاتا ہے۔
اور یہ ہرگز نہیں دیکھاجاتا کہ اسے اس کگار یا مرحلے پرپہنچایا کس نے ہے دھکیلا کس نے ہے، ہانکا کس نے ہے۔ لیکن اسی بات کو چھپانے کے لیے "لوجیاں" حرکت میں آتی ہیں۔ مصنوعی اصطلاحات تکنیکی لفاظیاں اور طرح طرح کی چلتربازیاں کرکے صرف "مجرم"کو مجرم ثابت کرنے پر تل جاتی ہیں تاکہ اصل چور، غاصب استحصالی اور سفید پوش ڈاکو چھپارہے اور چور چور کے نعرے لگاکر چور کسی اور کو بنا دے۔ آپ آج ایک ایسا نظام نافذ کریں جس میں سب سے پہلے حکومت استحصال چھوڑ دے پھر دیکھیے عام آدمی سیدھا سادا آدم بنتا ہے یا مجرم؟