امید ہے کہ ہماری تحریروں کے ذریعے قارئین اس "نظام ازواج"سے بڑی حد تک واقف ہوچکے ہوں گے جو اس کائنات، موجودات، مخلوقات اور تخلیقات کی بنیاد ہے جسے قرآن نے پندرہ سو سال پہلے "خلق الازواج کلہا"کے الفاظ میں کہا تھاجو اس نظام کائنات کی ہرہرخلق اورحرکت کے پیچھے کارفر ما ہوتا ہے، سائنسی زبان میں اسے "منفی ومثبت" یاڈوالیزم کہا جاتاہے اور طبیعات میں اینٹی یا مرر نظام کہلاتاہے، چینی اصطلاح میں "ین" اور"ینگ"کانام دیاگیاہے لیکن جتنی یہ ہمہ گیر ہے اتنی ہی اکثر علوم و مباحث میں نظر انداز کر دیا جاتاہے جس کی وجہ سے علوم میں پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں اورلوگ یہاں وہاں بھٹک کررہ جاتے ہیں۔
اس نظام ازواج میں سب سے بڑا زوج "مادے اورتوانائی"کازوج ہے جسے ہم جسم اورروح یا میٹراینڈ انرجی کانظام بھی کہہ سکتے ہیں اورسیدھی سادی زبان میں جان اورجسم کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کی ہرہرچیز ذرے سے لے کر آفتاب بلکہ کائنات تک یہی مادے اورتوانائی کا زوج کارفرما ہے اورباقی تمام ازواج کا مدرزوج ہے، یہ دونوں مادہ اورتوانائی یااصطلاحاً جسم وجان ایک دوسرے کے متضاد بھی ہیں اور معاون بھی۔ ایک کے بغیر دوسرا بے معنی اورادھورا ہے اوردوسرے کے بغیر پہلا۔ اگر توانائی نہ ہوتو بے جان مادے میں کوئی عمل یا پیدائش بلکہ حرکت تک ممکن نہیں اور صرف توانائی موجود ہو تو مادے کے تعاون اورملاپ کے بغیر بیکار محض ہے۔
ان دونوں کی پہچان کے لیے ابتدائی سائنسی تعلیم میں واضح کیا جاتاہے کہ مادہ وہ ہے جو پانچ انسانی حواس سے معلوم ہوجاتاہے جب کہ توانائی کسی بھی انسانی حواس سے معلوم نہیں کی جاسکتی، صرف کارکردگی سے ہی اس کاپتہ لگتاہے اور جب تک دونوں کا ملاپ نہیں ہوتا، دونوں اکیلے اکیلے بیکار ہوتے ہیں مثلاً جسم کے بغیر جان اورجان کے بغیر جسم بیکار ہوتے ہیں۔
اس کی مثال ہم بجلی اورآگ سے لے سکتے ہیں، بجلی ہوتی توہے لیکن جب تک کسی مادی تار یا آلے یا بلب کا مادی تعاون میسر نہیں ہوتا اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کرسکتی۔ آگ بہت بڑی قوت ہے لیکن مادی چیزوں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہے اورمادی ایندھن سے زندہ رہتی ہے جہاں ایندھن ختم وہاں آگ ختم۔ انسان اور تمام جاندار تب تک زندہ اورمتحرک رہتے ہیں جب تک ان میں توانائی (جان) رہتی ہے جیسے ہی جان نکلی، بیکار ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ خود اپنے آپ کو گلنے سڑنے سے بھی نہیں روک سکتے۔ مطلب یہ کہ مادے اورتوانائی کاملن ہی کچھ حرکت یاتخلیق کرسکتا، جان یاروح یامادے کابھی یہی حال ہے جب جسم سے نکل جاتی ہے یا جسم یا مادہ نہیں رہتا تو اس کا وجود کم ازکم پانچ انسانی حواس کے دائرے سے نکل جاتاہے۔
یہ ساری تفصیل ہم نے محض بحث برائے بحث یامعلومات میں اضافے کی عرض سے شروع نہیں کی ہے بلکہ اب آگے ہم دیکھیں گے کہ کسی بھی "چیز" میں یہ دونوں ساتھ ساتھ نہیں رہتے یاالگ ہوجاتے ہیں، ایک کے بغیر دوسرا اوردوسرے کے بغیر پہلا بیکار اور بے عمل ہوکررہ جاتاہے۔
اب ہم اپنے ارد گرد کی دنیا سے ان چیزوں کو لیتے ہیں جو ان دونوں کے ملاپ کا نتیجہ ہیں لیکن بدقسمتی سے یا انسان کی ابلیسیت نے ان دونوں کو جدا کردیا ہوا ہے یا صرف جسم رہ گیا ہے، روح نکل چکی ہے، مغز نکل چکا ہے صرف قشر باقی ہے۔
سب سے پہلے سیاست کو لیتے ہیں جس کی روح انسانی جذبہ انسانیت یا جذبہ خدمت ہے، یہ بھی صرف جسم باقی ہے روح نکل چکی ہے، مذہب کو لے لیتے ہیں اس کے بھی ظواہر اورجسمانی حرکات رہ گئی ہیں روح نکل چکی ہے۔ خدا کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے بھی وہ نماز نہیں پڑھ رہاہوتاہے تمام ظواہر کے موجود ہونے کے باوجود مذہب کی روح موجود نہیں ہوتی۔ طبابت کا پیشہ کتنا مقدس پیشہ ہے لیکن اس کابھی مغز نکل چکاہے جو انسانیت یا انسانی جذبہ آدمیت ہے اورصرف جسمانی مقاصد یا ابلیسی یا مادی شکل رہ گئی ہے۔
تعلیم جسے "علم" کا قائم مقام کہاجاتاہے لیکن اس میں سے بھی علم یاروح باہرنکالی جاچکی ہے صرف پیشے اورکمائی یا مادی ضروریات تک محدود ہوکررہ گئی ہے جس نے انسان کو کمانے یامادی وسائل سمیٹنے کی مشین تو بنادیا ہے لیکن اندر سے انسانی روح نکال دی ہے، بڑے بڑے ڈگری ہولڈر جواپنی مادی شکل میں بے مثال ہوتے ہیں لیکن روح یا جان یا غیرمادی چیز کانام ونشان بھی اس میں باقی نہیں۔
اب اس کائنات کے سب سے اہم اوربڑے اور بنیادی روح کی طرف آتے ہیں، نر ومادہ یا مردو عورت یا نروناری۔ سب سے زیادہ بگاڑ اسی زوج میں آچکاہے کہ منفی کو مثبت اورمثبت کو منفی یا ناری کو نر اورنر کو ناری بنادیاگیاہے، سیدھی سی بات ہے اس زوج کا نر جسمانی ہے اور ناری روحانی یا مرد کی ذمے داراپنی تخلیق یعنی اولاد کی جسمانی اور مادی ضروریات پوری کرنا ہے جب کہ ناری یا ماں کی ذمے داراولاد کی روحانی ذہنی یااندرونی تعمیر کرناہے۔
لیکن ہمارے موجودہ مادی نظام، مادی تعلیم اور جسمانی ضروریات پر مبنی معاشرے نے یا یو ں کہیے کہ چالاک اورصدیوں سے دماغ کے کثرت استعمال والے مرد نے بچاری دماغ کی عدم استعمال والی ماں کو بھی اپنا کام چھڑوا کر اپنی مددگار بنا لیاہے، اسے آزادی کا جھانسہ دے کر اپنے اصل کام سے ہٹالیاہے اور عورت "برابری" کے جھوٹے زعم میں یہ سمجھ ہی نہیں پارہی کہ اس کااصل کام یعنی اولاد کی اندرونی اورروحانی تعمیر مرد کے کام سے بدرجہا اہم اوربڑا ہے۔ اوراس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہی انسان نہیں رہاہے دوسرے حیوانات کی طرح یہ بھی صرف جسم اورجسمانی ضروریات تک محددو ہوگیاہے۔
اب اگریہ اولادکی جسمانی ضروریات پوری کر رہا ہے تو اس میں حیوانوں سے الگ کیاہے؟ دونوں ہی ایک مرتبہ پھر پیٹ اورجسم تک محدود ہوگئے، گویا انسان کے اندر سے بھی روح نکل چکی ہے، صرف جسم رہ گیاہے، ایسے میں انسانیت انسانیت کا راگ الاپنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔