یہ الفاظ کا عروج وزوال بھی ہو بہو انسانوں جیسا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اور کچھ الفاظ طوفان کی طرح آتے ہیں، آندھی کی طرح پھیلتے ہیں اور بارش کی طرح برستے ہیں لیکن صرف چند روز ہی بہار جاں فزا دکھلا کر ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ان کے بولنے والوں سے سرے سے سینگ اور سینگوں کے ساتھ مغز بھی اکھڑ کر غائب ہوجاتا ہے۔
ہمیں یاد ہے ذرا ذرا، ایوب خان کے زمانے میں "ولولہ انگیز"قیادت کا لفظ اتنا پاپولر ہوگیاتھا کہ گھروں میں شوہر اور بیویاں بھی ایک دوسرے کو ولولہ انگیز قیادت کہنے لگیں۔ قائد عوام فخر ایشیا کے دور میں روٹی کپڑا مکان اتنا زیادہ بیسٹ سیلر ہوگیا تھا کہ بیچ میں سے آدمی ہی غائب ہوگیا اور اس نے بھی اپنا نام جیالا رکھ دیا۔ ہمارے دیکھتے ہی لوگ بیت الخلاء بات روم وغیرہ کو تیاگ کر واش روم بلکہ ا ب "تقاضے"پر آگئے۔
تھیٹر فلم سینما پکچر بچارے مووی نے کھالیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اچانک نہ جانے کہاں سے لفظ"بیانیہ"ایسا آگیا کہ وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا یہاں تک گلی کوچوں میں "لوگ" اپنے بھونکنے کو بیانیہ کہنے لگے۔ بلکہ ایک مرتبہ جب ہم ایک مشہور دکان پر کباب کھارہے تھے تو ایک دوست بولاکہ اب اس دکان کے کباب کا وہ بیانیہ نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتاتھا۔ زیادہ تر لوگ ڈانس کو اعضا کا بیانیہ لکھنے لگے بلکہ پڑوسی ملک میں تو ملکہ شراوت، بپاشا اور راکھی ساونت کے جسموں کا بیانیہ بھی اچھا خاصا مقبول ہوگیا۔
کمیسٹری کی جگہ بھی بیانیہ نے لے لی مثلاً شاہ رخ اور کاجول کا بیانیہ، رنویر سنگھ اور دیپکا کا بیانیہ، کترینہ اور سلمان کا بیانیہ۔ خیر مطلب ہمارا یہ ہے کہ بیانیے بدلتے رہتے ہیں چنانچہ ایک زمانے میں ایک لفظ زراعت بھی اچھا خاصا بیسٹ سیلر تھا یہاں تک کہ ملک کو سیاست کو تجارت سب کو زراعت کہاجانے لگا بلکہ ہم نے ایک فلمی جمع زرعی ماہر کو یہ کہتے بھی سنا تھا کہ پنجابی فلمیں زراعت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں کیونکہ چار چار من کی ہیرونیں جب کھیتوں میں ناچتی ہیں تو اس کے آگے کچھ زراعتی باتیں تھیں جو ہمیں یاد نہیں رہیں۔ پھر اچانک زراعت کو صنعت نے ایسا دوبوچا کہ بچاری کا کچومر اس کی ناک کے راستے نکل گیا۔
ابھی کچھ روز پہلے کسی اخبار میں کسی دانشور نے زراعت پر کچھ لکھا تھا۔ بدلتے تقاضوں یا "کرونوں " میں زارعت کے تقاضے وغیرہ۔ لیکن ہم باوجود کوشش کے اس کا مطلب نہیں سمجھے کیونکہ ہمیں زراعت اور اس کے معنی تک بھول چکے تھے۔"زر"بھی یاد تھا "زن"یاد تھی لیکن زراعت؟ کچھ یاد نہیں آرہاتھا جب کہ کچھ ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے یہ نام یا لفظ کہیں سنا ہوا ہے۔
تمہیں شاید اس سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو
ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ہماری تحقیق کا چرخا اسٹارٹ ہونا چاہیے تھا اور وہ ہوگیا۔ ہمیں یاد آگیا کہ
میرا تجھ سے ہے ناتا کوئی
یونہی دل کو نہیں ہے لبھاتاکوئی
مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ اس ملک میں یہ متروک کام یعنی پیشہ زراعت کسی زمانے میں بڑا معزز اور مالدار ہوتا تھا لیکن پھر اس کی ماں ہی مرگئی۔ ہر طرف صنعت یعنی انڈسٹریلائزیشن کا غلغلہ ہوا تو زراعت کی ماں یعنی غائب ہونے لگی اس پر سیمنٹ سریے کے جنگل اگنے لگے۔
اسمال انڈسٹری آل انڈسٹری اور وال انڈسٹری نے زمین اور اس کی بیٹے زراعت کا بھٹا ہی بیٹھا دیا، وال انڈسٹری کے نمونے اب بھی سڑکوں کے کنارے احاطوں اور چار دیواروں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ہم نے ایک دن بس میں بیٹھے، ایک شخص سے پوچھا کہ یہ آدھی ادھوری چار دیواریاں جن کی اینٹیں بھی اب لوگ اکھاڑنے لگے ہیں، کیا ہیں تو اس نے سمجھا کہ اس پر قرض لینے والے اس قرض کو ہڑپ کرکے سیاست میں چلے گئے اور پیچھے زراعت اور صنعت دونوں کے کھنڈر چھوڑ گئے ہیں۔
لیکن مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس انڈسٹریلائزیشن کے طوفان سے پھر بھی تھوڑی بہت "زمین"بچ گئی تھی جس پر کچھ خدامارے مٹی کھود کر مٹی کھا کر زندہ تھے لیکن وہ بھی مٹی اوڑھ کر شہروں کو بھاگ گئے کہ جہاں خرچ ایک روپیہ ہو اور آمدنی اٹھنی تو بچارے کیا کریں۔
تھک تھک کے ہرمقام پر دوچار ہوگئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو لاچار کیا کریں
اوپر سے "مواقع"پیدا کرنے والی حکومتوں نے فردوس گم گشتہ کا وعدہ پورا کرتے ہوئے چپے چپے پر ہاوسنگ سوسائٹیز بنانے کا سیلاب بہادیا۔ نتیجہ کہ خرچ روپیہ اور آمدن اٹھنی والے لوگ زمین بیچ بیچ کر شہروں میں پہنچ گئے۔
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتاہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
ایسے میں زراعت کی مرگ مفاجات یقینی ہوگئی اور وہ مرگئی جس کی لاش سیمنٹ اور سریے کی قبر میں دفنا دی گئی۔ جب بانس نہیں رہا تو بانسری کہاں سے بجائی جاتی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا بلکہ دو فائدے ہوگئے کہ ایک تو ملک "زراعت"کی نیچ کٹیگری سے اوپر آکر انڈسٹریل ہوگیا بلکہ انڈسٹریل سے بھی ترقی کرکے "ملٹی نیشنل"اور ملٹی پروفیشنل ہوگیا، اب آپ جو چاہے اس کا نام رکھ سکتے ہیں۔ زرعی کے علاوہ صنعتی، حرفتی، ایٹمی، الیکٹریکل، الیکٹرانک۔ بھکاری، قرض خور، عوام خور، روپیہ خور، سود خور وغیرہ۔ مطلب ہے کہ
وہ اسے کیوں نہ بیچ کھاتے برق
جو اسے "ماں "نہیں "زمیں "سمجھے