آپ کے لیے تو سنی سنائی بات ہو گی کہ بندہ پریشان تو اﷲ مہربان۔ لیکن ہم پر گزری ہے بلکہ گزرتی رہی ہے یعنی:
سنی سنائی بات نہیں خود اپنے اوپرگزری ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
اور ہماری "چاہت" نے بھی آگ لگائی تو شعلوں سے پھول نکلا اور وہ بھی کوئی ایسا "پھول" نہیں بلکہ صحیح معنی میں "پھول"۔ ہم اپنی خیالی ممدوحہ محترمہ کی بات کر رہے ہیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ہم کسی اور کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ٹی وی اشتہاروں کی طرح سچی مچی کہتے تھے کہ ہم بہت پریشان تھے، اب لب بستہ و حیران تھے خامہ انگشت بدانداں اور ناطقہ سر بگریباں تھے کہ "اطلاعات" کا کال پڑا ہوا تھا، کہیں سے کوئی ڈھنگ کی، امنگ کی اور خوشبو وہ رنگ کی اطلاع نہیں مل رہی تھی اور ہمیں صرف ان مستقل بدبودار مردار اور سراسر بیکار بیانات پر گزارنا پڑ رہا تھا جیسے کوئی باسی روٹی روزانہ پانی میں بھگو بھگو کر زہر مار کرے۔ کہ اچانک خدا مہربان ہو گیا، عمران خان عالیشان ہو گیا اور پھر نئی نئی اطلاعات کا سلسلہ جو رواں ہو گیا تو باد و باراں ہو گیا اور اطلاعات با تصویر کا سامان ہو گیا بلکہ قطرہ طوفان ہو گیا بقول مرشد:
دل میں پھرگریہ نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلتا تھا سو طوفان نکلا
خدا جزائے خیر دے، قسمت کا رخ اور بھی ان کی طرف پھیر دے اور جو کچھ چاہیں ڈھیروں ڈھیر دے جیسا کہ انھوں نے ہمیں روزانہ نہایت باقاعدگی شائستگی سے اور آراستگی سے اطلاعات دینے کا کام سنبھال لیا ہے، گویا اطلاعات کا جل تھل ہو گیا اور ہمارا مسئلہ حل ہو گیا بلکہ یوں کہیے کہ ہمیں پیراڈائز لاسٹ مل گئی۔ عوام کا دن عید اور رات شب برات ہو گئی۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعاکے بعد
اطلاعات کے سلسلے میں یوں کہیے کہ ہماری حالت یہ تھی کہ صبح اٹھتے تھے تو جمائیاں لیتے تھے، برتن اٹھا کر لڑکھڑاتے ہوئے دودھ کی دکان سے دودھ لاتے تھے پھر بڑی مشکل سے اخبار وغیرہ جلا کر چولہا جلاتے تھے اور بڑے جتن سے چرخا چلا کر "چائے" کا چسکہ لینا نصیب ہوتا تھا۔ لیکن اب جیسے ہی آنکھ کھلتی ہے، ایک خوبصورت ہاتھ بھاپ اڑاتا ہوا کپ سامنے کر کے نہال کر دیتا ہے۔ گویا اب کوئی مسئلہ نہیں، کوئی خرخشہ نہیں، کوئی پریشانی نہیں۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لیا۔ کوئی نہ کوئی دل خوش کن خوش ادا اور خوش لباس اطلاع اور وہ بھی باتصویر۔ اور کیا چاہیے۔ اور صرف ہمیں ہی یہ سہولت حاصل نہیں ہو گئی ہے بلکہ ملک بھر کے اطلاع پسند لوگ دھنی ہو گئے یہاں تک کہ اخبار والے بھی۔ جو ایک ایک اطلاع کے لیے کنوؤں میں بانس ڈالے پھرتے تھے، طلسماؤں میں گھوڑے دوڑاتے پھرتے تھے کہ کہیں سے کوئی خوبصورت خوشنما اور خوش ادا اطلاع ملے یا کہیں وہ انہماک والی خاتون ہاتھ لگے۔
خبر ساز اور فوٹو گرافر دونوں پر اﷲ مہربان ہو گیا ہے، خبر بھی تصویر بھی ایک ساتھ۔ چپڑیاں بھی اور دو دو بھی۔ ہمیں پتہ ہے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے مواقعے پر کچھ "جل ککڑ" منفی تنقدیے اور منہ پھٹ لوگ بھی اپنی بری عادت سے باز نہیں آتے اور کچھ نہ کچھ بکتے رہیں گے، ان کی تو عادت ہے اور عادتیں کبھی نہیں چھوٹتیں۔ مثلاً کل ہی مسلسل فراواں اور باقاعدہ اطلاعاتی تسلسل پر ایک منفی تنقیدیہ بولا، ہم کو نیاپاکستان ہو گیا، نیا پاکستان کو عمران ہو گیا۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی جہاں اخباروں میں ادھر ادھر کے ناپسندیدہ چہرے اور بدبودار بیانات ہوتے تھے، وہاں اگر خوشگوار جھونکے آنے لگے ہیں تو اس میں کسی کے باپ کا کیاجاتا ہے لیکن یہ جل ککڑے لوگ تو عوام کو کوئی بھی خوشی ملنے پر ایسے ہی جلتے بھننے لگتے ہیں۔
پچھلے دنوں ہم نے اخبار اٹھا کر باتصویر "اطلاعات" کا لطف اٹھایا تو منہ سے بے اختیار تحسین کے الفاظ نکلے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ تو ایک جل ککڑا اور تو کچھ نہ کر سکا صرف ہمارے لفظ چنگاری کی جگہ انگھیٹی لگا کر دل کے پھپھولے پھوڑے۔ آخر اس میں برا کیا ہے اگر چنگاری کی جگہ انگھیٹی ملتی ہے تو یہ اور بھی اچھا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ہم "خبر " کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں، یہی تو بات ہے خبریں تو پہلے بھی کسی نہ کسی طرح مل جاتی تھیں لیکن لوگ پہلے "سفر" گدھا گاڑی، بیل گاڑی یا گھوڑا گاڑی پرکر لیتے تھے لیکن لگژری کار کے ذریعے سفر کی جو بات ہے وہ پہلے کہاں تھی۔ پہلے ادوار میں بھی ہم نے اس طرح کی " خبریوں" کو دیکھا ہے جو اطلاع کو مرثیہ بنا دیتی تھیں۔ لیکن اب کے بات ہی کچھ اور ہے سب سے بڑی بات "ثقہ" ہونے کی ہے یعنی اطلاع وزن دار اور پکی ہونی چاہیے۔ اور یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ "کشش ثقل" یعنی گریوٹی کیا ہوتی ہے یعنی وزن بجائے خود ایک کشش ہے۔
سیب کو زمین نے صرف اپنے وزن اور حجم کے زور سے کھینچا تھا ورنہ وہ تو شاخ کے ساتھ پیدائشی لٹکا ہوا تھا لیکن اپنے درخت اپنی شاخ کو چھوڑ کر زمین کی گود میں گرنا صرف اور صرف "ثقل" کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ ہماری پشتو میں ایک کہاوت ہے۔ "قل ھو" تو وہی ہے لیکن منہ میاں قمر کا نہیں ہے۔ خلاصہ اس کلام کا یہ ہوا کہ "اطلاع" تو اطلاع ہوتی ہے لیکن "منہ" کے وزن اور ثقل سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اور پھر آج کل تو اطلاع دینے والوں کا ثقہ ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ نیا پاکستان تعمیر ہو رہا ہے، ہر گھڑی نئی نئی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اور اگر یہ اطلاعات یوں ہی غیر ثقہ، بے کشش اور بے وزن ذرایع سے ملیں گی تو ہر صبح ناپ تول کے ساتھ دینا ضروری ہے۔ عام خبریں تو ہمارے صوبے کے پی کے یعنی "خیرپخیر" کے وزیر اعلیٰ بھی دے رہا ہے جو اہمیت کے لحاظ سے بین الاقوامی بلکہ بین السیاراتی قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کا تعلق ستاروں کی گردش اور آنے والے وقتوں سے ہوتا ہے لیکن اطلاع کے مقابل ان کا وزن کم ہوتا ہے، اس لیے ان میں وہ کشش ثقل نہیں ہوتی جو نیا پاکستان کی دی ہوئی خبریات میں ہوتی ہے۔ خدا ان کو ہمیشہ محو خبریات رکھے۔