ناکام اور نکمے نکٹھو لوگوں کی سب سے بڑی اور خاص الخاص نشانی یہ ہے کہ وہ چالیس فیصد"ماضی"میں رہتے ہیں، چالیس فیصد مستقبل میں اور حال میں صرف بیس فیصد رہ رہے ہوتے ہیں یعنی چالیس فیصد وقت تو اپنی اور اپنے اجداد کے شاندار"ماضی"کے قصیدے پڑھتے ہیں، چالیس فیصد آیندہ کسی معجزاتی فردوس گم گشتہ کی امید میں خواب بنتے ہیں اور حال جو ان کے ہاتھ میں، قبضے میں اور دسترس میں نقدانقدموجود ہے، اسے فضولیات میں ضایع کرتے ہیں۔
حالانکہ "ماضی"بھی ہاتھ سے نکل چکاہے اور کبھی واپس آنے والا نہیں ہے بقول رحمان بابا گیاوقت، ایک مردے کی طرح ہوتاہے اور "مردے" کو کبھی کسی نے رونے دھونے سے "زندہ"نہیں کیا ہے۔ اور آنے والی کل بھی ابھی اندھیرے میں ہے۔ کیا پتہ آئے نہ آئے۔ کل ہو نہ ہو۔ یا اس کے آنے تک ہم ہوں نہ ہوں۔ صرف "حال" ہی ہمارا ہوتاہے۔
"حال" وہ "پیسے" ہیں جوہماری جیب میں یا ہاتھ میں ہیں اور ہم اس سے کچھ "فائدہ"اٹھاسکتے ہیں، جو خرچ ہوئے وہ کروڑوں اربوں میں کیوں نہ ہوں، ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور جن کے آنے کی امید اور توقع ہے ان کا بھی کوئی یقین نہیں ہے چنانچہ آج کل سارے مسلمان عموماً اور پاکستانی خصوصاً یا تو اپنے شاندار ماضی اور عظمت رفتہ کی موہوم امید میں جی رہے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ہم صحراؤں اور بحرظلمات میں گھوڑے دوڑائیں گے، پھر وہی عالیشان بغداد، دمشق، مصر، اندلس اور دلی ہوں گے اور ان پرہمارا راج ہوگا۔
اس امید کی نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے نہ اس کے لیے کچھ کررہے ہیں، سوچ یہ ہے کہ بس اچانک ایک صبح پیدا ہوں گے تو ساری دنیا کے تاجدار ہوں گے، سردار ہوں گے، دستار ہوں گے اور جادو کے گھوڑے پر سوار ہوں گے یا فلاں فلاں اور فلاں لیڈر کسی ٹائم مشین کے ذریعے مکہ مدینہ، دمشق، بغداد، اندلس اور دلی کے لال قلعہ میں یا فردوس گم گشتہ میں پہنچا دے گا۔
اسی عظمت رفتہ کی قصیدہ خوانی میں بہت سارے شاعر وصورت گر وافسانہ نویس بھی لگے ہوئے ہیں، لیڈر بھی یہی امیدیں بیچ رہے ہیں اور دانشور بھی آج کل آنے والی شاندار کل کی پیشگی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک مضمون پڑھا، اب یاد نہیں کہاں اور کب لیکن اتنا یاد ہے کہ ان دنوں کے آس پاس تھا جب ہمارے ہاں کچھ عرب شہزادے اور ولی عہد پدھار رہے تھے۔
اس مضمون میں نہ صرف شاندار عظمت رفتہ کا قصیدہ تھا بلکہ ایک طرح سے فخریہ احساس بھی تھا اور بھکاری ہونے کے باوجود تھوڑی سی طعنہ بازی بھی تھی۔ مضمون میں کسی نواب آف بہاولپور کے سفرحج کا بیان تفصیل سے کیاگیاتھا کہ نواب صاحب جب "حج"پر تشریف لے جارہے تھے تو کئی بحری جہاز ان کے سازوسامان، گاڑیوں، تعیشات اور محافظوں سے بھرے ہوئے روانہ ہوئے تھے۔
جن میں نواب صاحب کی خاص الخاص مہنگی گاڑیوں کے علاوہ عملے کے استعمال کے لیے گاڑیاں اور ضروری سامانا لدھا ہوا تھا، ان دنوں سعودی عرب حکومت غریب ہوا کرتی تھی، ابھی "زمین" سے عنایات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اور گزارہ صرف آسمان کی عنایات یعنی حج وغیرہ کی آمدنی پرچل رہاتھا۔ چنانچہ فاضل مضمون نگار نے سعودی حکومت پر عوام اور حرمین شرفین پر۔ بلکہ راستہ چلتوں پر جو سخاوتیں فرمائی تھیں ان کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد ایک تو "حسن طلب" کا مظاہرہ کیا بلکہ ایک طرح سے سعودی عرب کو طعنہ دیتے ہوئے یہ اشارہ بھی کیاہے کہ آج وقت ہے اس "بدلے" کے چکانے کا۔ آیئے اور ہم پر لٹایئے کہ کل ہم نے تم پرخوب خوب لٹایاہے، ہماری جھولی میں ڈال دو کہ کل ہم نے تمہاری جھولی بھری تھی۔ آج تم کل ہماری باری تھی۔
کل ہم تھے خفا ان سے وہ آج خفا ہم سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانہ ہے
علامہ اقبال بڑے لائق فائق بزرگ تھے اور خطائے بزرگان گرفتن خطاست۔ لیکن خطا جو "رسا"کی طرح ہو یا خطا کو "رسا"بناکر پیش کیاجائے تو "گرفت"کی گستاخی تو ہم نہیں کرسکتے لیکن دل میں سوچ تو سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں،
ہند کے شاعر وصورت گروافسانہ نویس
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ"عورت"ہے سوار
سنا ہے ایک اور بزرگ سعادت حسن منٹو نے بھی اس کے بارے میں کچھ کہاتھا لیکن ہمیں دونوں بزرگوں کے پھڈے میں نہیں پڑنا چاہیے، صرف اپنی کہنا چاہیے۔ ہند کے شاعروں صورت گروں اور افسانہ نویسوں کے اعصاب پر عورت سوار تھی یا نہیں اس بارے میں تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن ہند اور اب پاکستان کے مسلمانوں کے اعصاب پر جو "چیز" سوارتھی، سوار ہے اور سوار رہے گی وہ "عظمت رفتہ" ہے جو اتفاق سے سب سے زیادہ علامہ کے اعصاب پرسوار تھی۔
اور ہے۔ یروشلم میں ایک "دیوارگریہ"تھی جس کے پاس یروشلم اور یہودی حکومت کے بخت نصر کے ہاتھوں تباہ ہونے کے بعد یہودی آکر بیٹھ جایا کرتے تھے اور طالوت، داود اور سلیمان کی عظمت رفتہ پر"گریہ" کرتے تھے۔ وہ دیوار گریہ ہمارے پاس بھی ہے جس کا نام عظمت رفتہ ہے اور جو "نوحہ گر"یہ نوحہ کرتے ہیں، وہ پکاپکا یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن پھر وہی ہوگا جوہوا کرتاتھا۔ لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ "عظمت رفتہ" قوموں کی "جوانی"کا دور ہوتا ہے اور جس طرح فرد کی جوانی ایک مرتبہ گزرجاتی ہے پھر کبھی واپس نہیں آتی ہے۔
کتنے ہی "کشتے"معجونیں اور مقوی دوائیں کھلاؤ۔ بچپن میں جب ہم آندھی طوفان یا کسی اور وجہ سے کوئی زخمی یا مردہ پرندہ دیکھ لیتے تھے تو سارے بچے مل کر اس پرندے کے اوپر ٹوپی رکھ دیتے تھے اور کچھ آتاجاتا تو ہمیں تھا نہیں، اس لیے مٹھی کو ہونٹوں کے پاس لے جاکر اس پر چفُ چفُ کرتے تھے اور اس ٹوپی پررکھتے تھے، اس یقین کے ساتھ کہ پرندہ اس چفُ چفُ سے زندہ ہوجائے گا لیکن کبھی ہم نے کسی مردہ پرندے کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا۔