ہماری حالت بھی " ان دنوں "کچھ جگر مراد آبادی کی سی ہورہی ہے کہ
طبیعت"ان دنوں "بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے "حصے"کی گویا ہر"خوشی"کم ہوتی جاتی ہے
آپ کو تو شاید اس حالت کاعلم نہ ہوکیونکہ آپ کو خدا نے اتنی اچھی اور مہربان حکومتیں دی ہوئی ہیں اور اتنے دانا دانشور اور شاعر وصورت گر وافسانہ نویس دے رکھے ہیں کہ وہ ہروقت آپ کو خوشیوں میں سرشار رکھتے ہیں اس لیے "غم"کی دولت اور اس کی اہمیت اور لذت وذائقے کا اندازہ آپ کونہیں۔ لیکن کچھ لوگ جن میں ہم بھی شامل ہیں کچھ اور دستیاب نہ ہونے پر "غم"ہی سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ مرشد نے بھی کہا ہے کہ
نوحہ ہائے غم کوبھی اے دل غنیمت جانیو
بے صدا ہوجائے گا یہ سازہستی ایک دن
چنانچہ ہم بھی یہاں وہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر "غم" چنتے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ ہنسی خوشی کھیل کھیل کر وقت بتاتے ہیں کہ بزرگوں نے بھی کہہ رکھا ہے کہ بے کاری سے بے گاری ہی اچھی ہے کچھ اور کام نہ ہو تو۔ ۔ پاجامہ ادھیڑ کر سیاکرچاہے کسی کا بھی ہو اور ہماری تو طبیعت ہی ایسی ہے کہ
ہرخوشی میں کوئی غم یاد دلادیتاہے
دل کا یہ رخ میری آنکھوں سے نہاں تھاپہلے
بڑے مزے بڑے آرام اور اطمینان سے پہلے "کرپشن"کرپشن کھیلتے تھے پھر اس کی سوتیلی بہن مہنگائی کے ساتھ بھی صحبت رہنے لگی۔ لیکن آندھی آئی کہ وہ دونوں بھی نہ جانے کہاں کھوگئیں اور اس کی جگہ جو ظلم ہوشربا اور نوراکشتی آئی ہے اس کے بارے میں ہم ککھ بھی نہیں۔ اس لیے کہیں اور سے کچھ نہ کچھ مصروفیت ڈھونڈ ہی لیتے ہیں اور پرانی حکایتوں اور شکایتوں میں وقت بتاتے ہیں
کبھی شکایت رنج گراں نشیں کہیے
کبھی حکایت صبر گریز پا کہیے
اسی مصروفیت میں ایک حکایت ملی۔ اس حکایت کا تعلق ریاست بغداد سے ہے جو ریاست مدینہ کے بعد برپا ہونے والی ریاست دمشق کے بعد تیسرے نمبر پر آئی تھی۔ اس ریاست بغداد کے حاکم ہارون الرشید کے پاس ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت بہلول جو بہلول دانا اور بہلول دیوانہ دونوں ناموں سے مشہور ہیں کیونکہ وہ دیوانگی میں دانائی اور دانائی میں دیوانگی کرتے تھے۔ کیونکہ " شراب معرفت"کے عادی تھے
لا پلادے ساقیاپیمانہ پیمانے کے بعد
ہوش کی باتیں کروں گا ہوس کے "جانے کے بعد"
ہارون الرشید نے بہلول سے پوچھا کہ چور کے "قطع ید"یعنی ہاتھ کاٹنے کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے یہ " قطع ید"یعنی چور کے ہاٹھ کاٹنے کی سزا اکثرلوگوں کوہر دور میں "ظالمانہ"لگتی ہے اور اس پر "لے دے" ہوتی رہی ہے کیونکہ ہر بااختیار شخص کے اندر کہیں نہ کہیں چور بیٹھا ہوتاہے اور اس چور کی داڑھی میں تنکابھی ہوتاہے اور وہ اس "تنکے"کو ہٹانے یا چھپانے کے لیے کسی کنگھی کی تلاش میں ہوتا ہے لیکن بہلول جسے لوگ نہ کنگھی کرتے ہیں نہ رکھتے ہیں اور نہ کسی کی ڈاڑھی?چنانچہ انھوں نے مختصر الفاظ میں فرمایا۔ اگرچور نے چوری مستی کے مارے کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگرنیستی کے مارے کی ہے تو پھر "سر"کاٹنا چاہیے لیکن چور کا نہیں حاکم وقت کا۔ اب یہ تو معلوم نہیں ہوسکاہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔
عام طور پر بادشاہ لوگ توایسی باتوں پر ایسے لوگوں کو "ٹوپی"کی ضرورت سے بے نیاز کرکے "سر"ہی سے محروم کردیتے ہیں کہ نہ رہے سر اور نہ خریدنا پڑے ٹوپی۔ لیکن ہارون الرشید بھی کسی حدتک رحم دل آدمی تھا اور حضرت بہلول بھی کوئی معمولی ہستی نہ تھے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں سے ایسی باتیں سن کر وہ کچھ ایسا ویسا کرنے کے بجائے انھیں "نقد ہسنا"سے نواز دیتے ہیں لیکن حضرت بہلول اس کیٹگری کے بھی نہیں تھے اس لیے یقیناً ہارون الرشید کی بات پر ہنسے ہوں گے یا روئے ہوں گے کیونکہ یہ بھی شاہوں بادشاہوں اور شہزادے شہزادیوں کا ایک کام ہوتاہے۔ لیکن اغلب یہی ہے کہ ہنسے ہوں گے یعنی حضرت بہلول کو "قرض ہسنا" دیا ہوگا۔ پھروہی ہوا جس کی توقع تھی کہ بیچ میں اس" قرض ہسنا"نے دمُ ہلانا شروع کردی ہے اس لیے ہم ہاتھ اور سر کوچھوڑ کر"دمُ"پرآتے ہیں۔ "قرض ہسنا"کے بارے میں علما، فضلا اور حکما بلکہ "حمقا" تک ہر کسی نے کچھ نہ کچھ کہاہوا ہے۔
اکثر علمائے قرض اور حمقائے "ہسنا"اس پرمتفق ہیں کہ "قرض ہسنا" وہ قرضہ ہوتاہے جس کا دینے والا بھی ہنستا ہے اور لینے والا بھی کیونکہ اس کے آخر میں دونوں کے درمیان لین دین کے بجائے "معاف"کرنے کا سلسلہ ہوجاتاہے دونوں ہی ہنستے ہیں کہ یہ "قرضہ"دونوں میں سے کسی کے پلے سے بھی نہ دیاجاتاہے نہ معاف کیاجاتاہے اور جن کے پلے سے جاتااور آتاہے وہ اگر "روئیں " بھی توکیافرق پڑتا ہے کہ پیداہی قرض دینے اور رونے کے لیے ہوتے ہیں اور کالانعام کہے جاتے ہیں۔
سب کچھ عین معمول کے مطابق ہے۔ حسب معمول، حسب رواج، حسب روایت اور حسب عادت قرضے لیے بھی جاتے ہیں حسب معمول حسب رواج حسب روایت اور حسب عادت معاف بھی کردیے جاتے اور کالانعام بھی حسب معمول حسب روایت اور حسب عادت روتے رہتے ہیں۔ خیر ہمیں نہ قرض سہنا سے تعلق ہے نہ نقد سہنا سے کہ یہ کام ہی ہمارے لیول سے اوپرکا ہے یعنی دنیا سے ہم نے لیا کیا؟دنیا نے ہم کودیا کیا؟یا
نے سبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے واسطہ
میں معرض مثال میں "دست بریدہ"ہوں
بات پھر "قطع ید"اور دست بریدہ پرآگئی لیکن اپنے ہاں یہ دونوں سزائیں یعنی ہاتھ یا سرکاٹنے کی اس لیے لاگو نہیں ہوسکتیں کہ جن جن چوروں کوچوری میں سزا ملتی ہے یا سزاوار ہوتے ہیں ان کے ہاتھ پہلے ہی سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ ہاتھ کٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے تو وہ چوری کرنے پرمجبور ہوتے ہیں نہ ان کے ہاتھ ہوتے ہیں نہ ہاتھ میں کچھ ہوتاہے بلکہ جیب اور پیٹ میں بھی کچھ نہیں ہوتا تو ان کا آخرکیاکاٹا جائے گا۔ رہے سروالے جو آج کل سرجی کہلاتے ہیں ان کے سر اگرکاٹ لیے گئے توپورے ملک میں ٹوپیوں پگڑیوں اور دستاروں کی تجارت ہی ختم ہوجائے گی۔ کسی کا سر ہوگاتو اس پرکچھ پہنیں گے ناں۔ اور پھرلوگ بھی اتنے زیادہ "بے سر"دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟