کہانیاں تو ساری پرانیاں ہوتی ہیں لیکن اچھی کہانی کی نشانی یہ ہے کہ مکانی اورزمانی قید سے آزاد ہوتی ہے یاکسی بھی دوراورکسی بھی ملک میں کسی پر بھی چسپاں ہوجاتی ہے اوراتنی اچھی چسپاں ہوتی ہے کہ خلق خدا حیران وپریشان ہوجاتی ہے کہ یہ کہانی تو خاص اسی زمان و مکان یا انسان کے لیے بنی ہوئی تھی یا ہے۔
ایسی ہی ایک سدابہار ہمیشہ گل وگلزار اور ہر دور کے لیے تیارکہانی ہم بھی آپ کو سنانا چاہتے ہیں، یقیناً آپ نے سنی ہوگی لیکن کسی اورزمان ومکان یا تناظر میں سنی ہوگی جب کہ ہم اسے بالکل نئے نویلے نئے پاکستان سے بھی زیادہ نئے تناظر میں بیان کرنا چاہتے بلکہ عیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ انسان نام کا حیوان نہ کبھی بدلا تھا نہ بدلا ہے اورنہ بدلنے کاامکان ہے، چاہے کتنے ہی انبیاء، صلحاء، اولیاء اوررہبر و رہنماء آسمان سے تعلیمات لے کر آئیں، یہ چکنا گھڑا جسے ابلیس نے اپنے روغن خاص سے چکنا کیا ہواہے، ہمیشہ چکنا گھڑا ہی رہے گا۔
کہانی چھوٹی سی ہے۔ ایک مالدار شخص ایک مولانا کے پاس آکربولا کہ مجھ میں بڑے بڑے عیب ہیں، کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں ان برائیوں سے چھوٹ جائوں۔ بزرگ نے پوچھا کیا کیابرائیاں ہیں تمہارے اندر۔ بولا، میں شرابی ہوں، عیاش ہوں، جوا بھی کھلیتاہوں، لوگوں کو لوٹتابھی ہوں، مارتابھی ہوں۔ آپ دعاکریں کہ میں ان عیوب سے چھوٹ جائوں۔
بزرگ نے مختصر ساجواب دیتے ہوئے کہا میں دعا بھی کروں گا لیکن تم بھی ایک کام کرو۔ وہ کیا؟ اس شخص نے پوچھا۔ بزرگ بولا، جھوٹ بولنا بالکل چھوڑ دو، قسم کھائو کہ آج کے بعد جھوٹ نہیں بولوگے، اس نے قسم کھائی اورچلاگیا۔
کچھ دیربعد جب وہ گھر پہنچاتو شراب پینے کو جی چاہا لیکن جیسے ہی پینے لگا تو اچانک خیال آیاکہ اگر کوئی پوچھے کہ تم نے شراب پی یا نہیں تو سچ بتانے میں تو سزا اورنقصان ہے اورجھوٹ بولنے کی تو میں نے قسم کھائی ہے کیوں کہ بزرگ نے اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی کی تھی کہ تم روزانہ آکر مجھے اپنی دن بھر کی سرگرمیوں سے آگاہ کروگے۔ شراب چھوڑ کر جب وہ جوئے کی بساط پر بیٹھا تو پھر یہ خیال آیا کہ سچ بتانے میں تو سبکی اورنقصان ہے اورجھوٹ تو بول نہیں سکتا جو ابھی اس نے چھوڑدیا، اس طرح ہربراکام کرتے ہوئے اس کے سامنے یہ مسلہ کھڑا ہوتاتھا چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ساری برائیاں چھوڑدیں۔
اب آپ سوچیں گے کہ اس پرانی کہانی کا موجودہ دورسے کیاتعلق ہے تو چلو ہم بتائے دیتے ہیں۔ اس ملک کے لوگ اورپھر خاص طور پر سربراہ لوگ اگر صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ چلیے علمائے کرام، مشائخ عظام اورمبلغگان فیشن ایبل کو چھوڑدیتے ہیں کہ بچاروں کی روزی روٹی کا سوال ہے لیکن اگر حکومتیں اوران کے چٹے بٹے بھی جھوٹ بولنا چھوڑدیں تو نہ یہ غربت رہے گی نہ کرپشن نہ مسائل نہ کچھ اورکہ جس طرح شراب ام الخبائث ہے، قبض ام الامراض ہے اسی طرح جھوٹ بولنا "ام المسائل" ہے اورجس رفتار مقدار اوردیدار کے جھوٹ ہماری سرکار اورسرکار کے حصہ دار بولتے ہیں، بول رہے ہیں اس سے تو جنت بھی دوزخ بن سکتی ہے۔ جب کہ یہاں تو پہلے ہی سے۔۔ ہمہ خانہ آفتاب است۔
پورے ملک کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں بولیں گے، چپکے چپکے رولیں گے، پر راز تیرانہ کھولیں گے۔ لیکن اگر صرف اپنے صوبے خیر پخیر کی بات کریں تو یہاں اتنا جھوٹ بولاجارہاہے کہ پوری دنیا کے لیے ہزاروں سال تک کفایت کرے گا۔
چلیے آپ کو تھوڑی سی خبریں سنا دیتے ہیں۔
آج کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کورونا پرغور کیا گیا اورکورونا کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے لائحہ عمل طے کیا گیا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر کوشش کررہی ہے، مفت رہائش گاہوں اورروزگار کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں، کورونا سے متاثرین کی بھرپورامداد کی جاری ہے۔ ہم لال قلعہ پر جھنڈا لہرائیں گے، کشمیر کو فتح کریں گے، بھارت کو دنیا کے نقشے سے مٹادیں گے۔ عمران خان کی قیادت میں ہم ملک کوریاست مدینہ اورانصاف کانمونہ بنائیں گے۔
حکومت نے صحافیوں کاشکریہ ادا کیاکہ وہ کورونا کے خلاف جنگ میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ صحافیوں نے جواباً شکریہ ادا کیا اور کہا کہ صحافی ملک وقوم کی خاطر اپنی جان تک لڑانے سے دریغ نہیں کریں گے۔
وزیر صحت وثقافت نے کہاکہ مزدور ہماری معیشت کی جڑہے۔ ہم مزدوروں کادن رات اورشب برات کریں گے، ان کو ہرتکلیف کورونا غربت اورمنہگائی سے بچانے کے لیے حکومت کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ ہم ثقافت کو ترقی دے کرآسمان پر پہنچائیں گے اورفنکاروں کے لیے جنت میں پلاٹ مخصوص کریں گے، جنت پہنچانے کے اخراجات بھی حکومت ادا کرے گی۔
وزیرصحت نے کہا کہ ہماری قومی صحت بہت اچھی ہے اورعمران خان وزیراعظم اورمیں وزیرصحت بناہوں، اسپتالوں میں لگژری سہولیات مہیا ہیں۔ مریض ابھی گھر ہی میں ہوتاہے کہ محکمہ صحت کاعملہ اسے نہایت احتیاط سے اسپتال پہنچا دیتاہے جہاں دوائیں، مشینیں سب کچھ وافر ہیں اورجو کچھ بھی باہرسے آیا ہے ان میں سے ایک تنکا بھی ہم نے نہیں لیاہے سب کاسب عوام کو پہنچا یاہے۔
یہ جھوٹ روزانہ نہایت تواتر سے بولا جاتاہے بلکہ "جھوٹ" کو دواسمجھ کرصبح دوپہر شام عوام کو پلایا جا رہا ہے جو کچھ بھی اوپر سے آتاہے، وہ آپس میں حصہ بقدر عہدہ تقسیم کرلیاجاتاہے، اگر کچھ تلچھٹ باقی رہ جاتی ہے تو "کارکنوں " کے حوالے کردیاجاتاہے جو اسے ٹھیک ٹھیک مقام پر پہنچا دیاجاتاہے۔
چشم گل چشم جیسے جھوٹ کے چمپئین نے یہاں تک کہاہے کہ اب مجھے یہ جھوٹ کا کاروبار چھوڑ ہی دینا چاہیے کہ اس روزگار میں اب اتنے اتنے باون گزے آگئے ہیں کہ میں ان کے آگے چیونٹی بھی نہیں ہوں، بہرحال ہمارے سامنے جو مریض ہے جس کے اندر سیکڑوں بیماریاں پرورش پاچکی ہیں، اس کا صرف ایک علاج ہے کہ لوگ اورپھرخاص طورپر حکومت اوران کے چٹے بٹے صرف جھوٹ بولنا چھوڑدیں۔ باقی سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ کیا واقعی وہ جھوٹ بولنا چھوڑدیں گے؟ اگر چھوڑ دیں گے تو پھر کھائیں گے گیا؟