Kaseef Mahol Mein Lateef Column
Saad Ullah Shah153
یہ اچھا اقدام ہوا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی قرار داد اسمبلی میں پیش کر دی گئی ہے اور اب یورپی ممالک کو صورت حال کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے گا اور مسلمان ممالک کے ساتھ کوئی متفقہ فیصلہ کیا جائے گا۔ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہو سکتا ہے ہم حالات کو بگاڑ کر ٹھیک کرتے ہیں کہ ایسا کرنے میں اور خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ویسے شاہد خاقان عباسی سے اسیی شرمناک حرکت کی امید نہ تھی کہ انہوں نے سپیکر اسد قیصر کی طرف بڑھتے ہوئے کہا میں آپ کو جوتا ماروں گا۔ وہی تو ایک تہذیب یافتہ اور نرم مزاج سیاستدان ن لیگ میں تھے جیسے کائرہ صاحب پیپلزپارٹی میں۔ نہلے پر دہلاایک وزیر کا ٹویٹ ہے کہ عباسی پھدکنا چھوڑیں وگرنہ وہ سلوک کریں گے کہ سات نسلیں یاد رکھیں گی۔ غالب سے معذرت کے ساتھ تصرف کی اجازت چاہوں گا:پوچھتے ہیں وہ کہ فیصل کون ہےکوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں گےویسے وہی کہ لمحے نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔ ووڈا صاحب آپ کو بھی بہت دیر تک یاد رکھا جائے گا سچی بات مجھے تو مرحوم سلطان راہی یاد آ گئے اور یہ ڈائیلاگ مصطفی قریشی بھی بولتے تو اچھے لگتے بہرحال یہ بات ضرور ذھن میں آئی ہے کہ ان دوستوں کو کم از کم یہ تو ذھن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ماہ صیام ہے۔ مگر اپنے جذبات پر کنٹرول کرنا اور غصے کو پی جانا بھی تو بڑا عمل ہے۔ آج سیاست پر لکھنے کا ہرگز موڈ نہیں تھا بس مذاکرات کی کامیابی اور ملک میں امن کی صورت حال بحال ہونے کا تذکرہ کرنا تھا۔ آج مجھے ایک دلچسپ واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کرنا تھا کہ ایک چینل پر ایک پروگرام دیکھا تو بہت دیر تک شرمندگی سے اپنی خواندہ کلاس کے بارے میں سوچتا رہا۔ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ایک آفیسر کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ اس نے ایک پبلشرز کی کتاب کے مسودے کے حوالے سے کہا"باقی تو سب ٹھیک ہے، یہ ایک تصویر ہے اس کے سر پر کوئی دوپٹہ وغیرہ اوڑھا دیں یعنی ایسے اعتراض لگ جائے گا"۔ پبلشرز نے کہا محترمہ یہ تو نیوٹن سائنسدان کی تصویر ہے۔ اس معاملے پر پورا پروگرام ہوا میں دیر تک اپنے دل کو تسلی دیتا رہا کہ بورڈ کی یہ افسر بزلہ سنج ہو گی اور اس نے یقینا مذاق کیا ہو گا یہ ہو سکتا ہے اس کی نظر کمزور ہو۔ اکبر آلہ آبادی یاد آئے۔ دونوں نے خاک ڈال دی دیدہ امتیاز میں۔ ہم انگریزی ادب میں ایک خوبصورت اور دلچسپ نظم پڑھایا کرتے تھے کہ حجام کی دکان پر گاہک بیٹھے ہیں ایک پنجرے میں الو کا owel بیٹھا ہے گاہکوں میں سے ایک باتونی شخص یونہی گفتگو شروع کرتا ہے اور اپنا علم جھاڑنے لگتا ہے کہ اس نے دنیا میں بڑے الو دیکھے ہیں اور وہ اس فن کو بھی جانتا ہے کہ انہیں کیسے حنوط کیا جاتا ہے یعنی ان میں سٹف بھرا جاتا ہے۔ پھر اس پنجرے میں بیٹھے الو پر تبصرہ کرتا ہے کہ اس کو درست انداز میں حنوط نہیں کیا گیا۔ اس کا ایک پر درست نہیں۔ چونچ بھی نقلی لگتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مختصر یہ کہ اس کی لگاتار اور فضول بک بک سن کر حجام اس پنجرے کو کھولتا ہے اور الو اڑ کر اس کے پاس آ جاتا ہے تو سب گفتگو کرنے والے کی طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے اصل الو وہ ہو۔ مجھے یقین ہے آپ نے بھی خوب لطف اٹھایا؟ یہ الو ویسے ہے عجیب جانور جو راتوں کو جاگتا ہے اور دن کو سوتا ہے مگر ہمارے کتنے لوگ ہیں جو ہر وقت ہی سوئے رہتے ہیں۔ ویسے عجیب بات یہ بھی ہے کہ اکثر مہذب لوگ اپنے بچوں کو پیار سے بھی الو کا پٹھا کہہ دیتے ہیں مستنصر حسین تارڑ نے پورا مضمون لکھ مارا بلکہ کتاب کا نام ہے "الو ہمارے بھائی" ہر کوئی دوسرے کو الو بنانے کے چکر میں ہے۔ ویسے تعلیمی معیار تو ایک الگ بحث ہے مگر چند نمونے ہر جگہ اور ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں سنجیدہ لینے والی نہیں بلکہ لطف اٹھانے والی ہوتی ہیں مجھے تو ہمارے پرانے سیاستدان یاد ہیں نام لینا اچھی بات نہیں وہ لکھی تقریر پڑھ رہے تھے تو 12اکتوبر کو 112کبوتر پڑھ گئے۔ ملکہ معظمہ کو مکہ معظمہ۔ چلیے آخر میں ذرا کتابی سلسلہ سخن کا تذکرہ ہو جائے کہ بڑی محبت سے مشہور شاعر شہزاد بیگنے بھجوایا ہے۔ ویسے فیصل آباد کی زمین ویسے ہی زرخیز ہے اور ادبی حوالے سے باقاعدہ ایک دبستان ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید جیسے سخنور وہاں ہیں۔ دانشور پروفیسر ظفر حسین تسکین اس سخن کے مدیر اعلیٰ ہیں ان دنوں وہ شدید علیل ہیں اور دوستوں سے دعائوں کے طالب ہیں۔ مدیران میں ہمارے دوست شبیر احمد قادری اور شہزاد بیگ ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ دونوں لوگ ہی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ یہ سخن کی اولین اشاعت ہے اور اس پر پورے ملک سے مبارک بادیں انہیں مل رہی ہیں۔ اس میں کئی ادبی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ آپ ہنس رہے ہونگے کہ میں نے ادبی اور تنقیدی کیوں لکھا۔ سوچیے اس سخن کو سخنوروں میں یقینا پذیرائی ملے گی۔ ایک گوشہ بھی اس میں رکھا گیا ہے اس مرتبہ محسن شکیل کا گوشہ ہے۔ اس شمارے میں سب سے اہم پروفیسر غلام رسول تنویر سے مکالمہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تخلیق پاکستان میں علی گڑھ کو بہت دخل حاصل ہے۔ انہوں نے اقبال ڈے فیض احمد فیض کی صدارت میں کروایا تھا جس میں صوفی تبسم اور احمد ندیم قاسمی شریک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشاعرے کے حوالے سے فیصل آباد کو برصغیر میں مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ سخن سے چند اشعار:ایک تنکے کو سہارا تو کیا جا سکتا تھاڈوبتے وقت اشارہ تو کیا جا سکتا تھا(اعجاز کنور راجا)جیسے خالی پن ہے تجھ میں جیسے وحشت مجھ میں آدھا مرد ہے تیرے اندر آدھی عورت مجھ میں (محسن شکیل)