فرقہ و گروہ بندی میں مذہبی منافرت کی چومکھی کے ساتھ اب ایک نئی فرقہ بندی بھی پر تعصب رویوں میں اضافہ پر مائل ہے، جسے discrimination gender کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب کسی شخص کی جنس یا صنف کی بنیاد پر تعصب یا امتیاز ہے۔ صنفی امتیازی رویے کی بنیاد صنفی کردار کے روایتی دقیانوسی تصورات کے ساتھ ساتھ جدید سوچ کا حصہ بھی ہے، اس تصور کا تعصب ایک صنف کو فطری یا پیدائشی طور پر دوسری صنف سے بہتر سمجھا جانا ہے۔ والدین میں ماں اور باپ سمیت حقوق و فرائض کی دور حاضر کے مطابق سنجیدہ انسانی تفہیم اس سوچ میں توازن پیدا کر سکتی ہے۔
انسان کے فطری عواطف و میلانات جیسے رنج، خوشی، غصہ وغیرہ کا تعلق صرف مردوں، عورتوں سے نہیں، ہر صنف سے ہے۔ نظریہ ملاحدہ جذبات کے مطابق تمام انسانوں کے پاس بنیادی جذبات کا ایک پیدائشی سیٹ ہوتا ہے جسے ہر ثقافت میں جانا جاتا ہے۔ ان بنیادی جذبات کو "ملاحدہ" اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ انہیں مانا جاتا ہے کہ یہ کسی فرد کے چہرے کے تاثرات اور حیاتیاتی اعمال سے پہچانا جا سکتا ہے۔
پال ایکمین اور ان کے ساتھیوں نے 1992ء میں ایک بین الثقافتی مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چھ بنیادی جذبات غصہ، بیزاری، خوف، خوشی، اداسی اور حیرت ہیں۔ ایکمین وضاحت کرتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک جذبہ کے ساتھ مخصوص خصوصیات منسلک ہیں، جو انہیں مختلف پیمانے پر اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہر جذبہ انفرادی جذباتی حالت ہونے کی بجائے ایک علاحدہ قسم ہوتا ہے، جس کا تعلق ہر فرد سے مختلف سطح اور اشکال پر ہے۔ اسی لئے ان کے اظہار کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ منتقم اور سازشی عناصر کا اطلاق مردوں یا عورتوں کے گروہ پر نہیں۔
بحیثیت انسان ان کی انفرادی شخصیت پر کیا جانا چاہئے۔ "ممی" ہو یا "ایسری تائی"، "سہائے" ہو یا کالو "بھنگی" ہر عمر اور کردار میں انسان بھی ہیں اور مسخ شدہ انسان بھی۔ "سہائے" نے تو انسانیت کی تفہیم کی ہے کہ "یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔
ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے، لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کرکے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہوگیا ہے مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ اسلام پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کئے جا سکتے ہیں۔۔
مذہب، دین ایمان، دھرم، یقین عقیدت۔۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں روح میں ہوتا ہے۔۔ چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟"یہی اطلاق مرد، عورت پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ بے وفا مرد بھی ہوتا ہے۔ عورت بھی۔ غیرت کے نام پر قتل سفاک مرد بھی کر سکتا ہے اور نرم و نازک عورت بھی شقی القلب ہو سکتی ہے۔ وفاداری بشرط استواری کا میڈل کسی عورت کو بھی مل سکتا اور کسی مرد کو بھی۔ عاشق و محبوب میں ریختہ سے ریختی کے نام و کردار تلاشے جا سکتے ہیں۔
روز مرنے والے مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی۔ وہ عورت بھی جسے شادی کے نام پر نن بنا کر اس پر تپسیا واجب کر دی جاتی ہے اور وہ مرد بھی جو شادی کے نام پر قربان کر دیا جاتا ہے۔ نافرمان بیٹی کو دفن کر دینا چاہئے تو نافرمان بیٹے کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے۔ ہم تو ان لڑائیوں میں زندگی کو بہترین بنانے کی ہر کوشش بدعت سمجھ کر ترک کر بیٹھے ہیں۔
دیکھنا ہوگا کہ اساتذہ میں وہ مرد و خواتین یکساں ہیں جو طلبہ و طالبات دونوں کا مستقبل تباہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور صنفی تخصیص سے بالاتر وہ مجسمہ ساز بھی جو شاہکار تخلیق کرنے کی صلاحیت اور ادراک سے مالا مال ہیں۔ یہ سوال کہ صرف عورت ہی مرد کو پر اعتماد رکھ سکتی ہے۔ مرد کے لئے اسے ہی طوائف بننا چاہیے۔ کیا مرد کو کم زور بنانے کی خواہش نہیں؟ جنسی تعصب سے پہلے تعصب پر مبنی معاشرتی درجہ بندی میں انتہا پسند رویوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ جو ایک صنف نہیں، بلکہ کمزور مرد عورت دونوں کی عزت غیر محفوظ رکھتی ہے۔
معاشرتی ترقی کے لئے ہمیں تعلیم اور تربیت کے مستحکم فیصلوں کے ذریعہ صنفی توازن کی شدید ضرورت ہے۔ ہم جنسی تعصب کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے اور اسے مذہبی بدعت کی چھتری فراہم کرنے پر زور دینا ہی معاشرتی فلاح سمجھتے ہیں۔ عالم یوم آبادی پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آٹھ ارب افراد پر مشتمل انسانی خاندان پہلے سے کہیں بڑا ہو چکا ہے تاہم دنیا کے رہنماؤں کو تمام لوگوں کے لئے پُرامن اور خوشحال زندگی یقینی بنانے کی کوششوں میں ناکامی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2030ء تک پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کی راہ پر نصف وقت گزرنے کے بعد ہم خطرناک طور سے بے سمت ہیں۔
صنفی مساوات کے حصول کا ہدف تقریباً 300 سال دور ہے اور ماؤں کی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی کی جانب پیشرفت گویا تھم چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں مرد کے لئے بہترین بوٹی نکالی جاتی ہے۔ وہاں عورت کی صحت کے لئے بھی کوئی ترجیح رکھی جائے اور مان لیاجایے کہ حسد، تعصب اور سازش کے ساتھ کم علمی، جہالت، خشونت انسانی رویے ہیں۔ ان کی کوئی جنس نہیں ہوتی۔
تعصب کی عینک لگانے والے مرد و عورت دونوں کسی ایک فرقے میں شمار نہیں ہوتے۔ تعصب پسند رویہ مذہب پرستی کی بنیاد بھی نہیں کہلایا جا سکتا۔ یہ تو لوگوں کا لوگوں کے ساتھ معاشرتی تعاون ہے، جس کے عدم توازن نے تخصیص کا رویہ پیدا کیا ہے، جس کے لئے نصاب میں دائروی نہیں، مثبت تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔