Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Yaad Nao

Yaad Nao

خلیفہ ہارون الرشید کی غیر موجودگی میں ایک بار بہلول اس کے تخت پر بیٹھ گیا اور درباری نے اسے کوڑوں کی زد میں رکھ لیا۔ ہارون الرشید نے اس پر افسوس کا اظہار کیا لیکن بہلول کے جواب پر گنگ رہ گیا۔ بہلول نے کہا "اے ہارون، جس مسند پر چند لمحوں کے لیے بیٹھنے سے ایک ادنی غلام مجھے سزاوار ٹھہرا سکتا ہے تو اسی مسند پر شب و روز بیٹھنے اور اسے اپنا حق سمجھنے کی پاداش میں کائنات کا حاکم تمہیں کیا سزا دے گا؟"

حقوق و فرائض کی تفہیم میں ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ہمیں گونگا کرنے کے لیے کافی ہیں اور جوابات کے ایسے کتنے ہی سانپ بھی کرلا رہے ہیں جن پر ہم گونگے کا گڑ کھا کر اپنے ہی حال میں مست ہیں۔ اکثر اس خاموشی کے طوفان میں سانحات کے پتھر گرتے رہتے ہیں لیکن شورو شورش کے پردے میں ایسی بے عمل چپ مسلط ہے جو مذمت کاری اور بند کمروں میں ہونے والے اجلاسوں سے نہیں ٹوٹ سکتی۔ قوم کے ایک ایک فرد کے پاس شکوہ شکایات کا ایک انبار ہے۔ جس کو اس نے اپنی بد دیانتی اور بے عملی کی چادر سے ڈھانپ رکھا ہے۔

ہمارے اپنے پاس ایسے ہزاروں جوابات بھی ہیں جو سوچ کے در وا کرسکتے ہیں لیکن چپ کی پٹی باندھے ہوئے اداس ہیں۔ کہتے ہیں خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے لیے تو ہر تفہیم ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیتی ہے۔ سکوت یا شوروغل نظر اندازی اور عدم توجہ کے مسائل ایسی دراڑیں جنم دیے جارہے ہیں جن سے پورا معاشرہ کھوکھلا ہو چکا ہے۔ لیکن ہمیں مکالمہ کا شعور ابھی تک نہ آ سکا۔

محلوں میں ایسے بہت سےلڑاکا کردار مل جاتے ہیں جو اپنی محرومی پربد اخلاقی اور بلند آواز کا پردہ یوں تانتے ہیں کہ دم آخر تک ان کے زندہ ہونے کا یقین رہے۔ کئی سیاسی پارٹیوں کا شعور سے عاری شور شرابا بھی بس کچھ ایسا ہی ہے۔ سمجھ سے عاری ہے کہ پس پردہ تربیتی عناصر آخر چاہتے کیا ہیں۔ وہ کس دنیا میں رہتے ہیں اور بیس سال پرانے ہتھیاروں سے لڑائی کیوں لڑوا رہے ہیں۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ ایسی مزاحیہ وضاحتیں جن کے بخیے سوشل میڈیاکا بچہ بچہ بھی ادھیڑ سکتا ہے۔ لیکن مست مئے ذوق تن آسانی کہیے یا کوئی دوراذکار مصلحت سمجھیے۔

چپ پر شور کا راگ غالب ہے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ زور زور سے ڈھول بجا کر متوجہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن مائل یا آمادہ کرنے کے لیے ٹھوس اور مدلل جواز کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ مکالمہ میں ایسے خلا ماضی میں بھی ایسے سانحات کو جنم دے چکے ہیں۔ شر پسند عناصر من پسند سوال و جواب کے ذریعہ ہر طرح کی صورت حال تخلیق کرنا خوب جانتے ہیں اور ہمیں صرف یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کوئی بھی تہوار ہو خوب ہلا گلا کیا جائے۔ دوردور تک اس فنکشن کی روداد پہنچے گی تو ہی کامیابی کا معیار طے ہوگا۔ یہ رویہ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اپنا حق لینے کےلیے بھی آئے روز سوشل میڈیا پر ایسے ڈرامے نظر آتے رہتے ہیں یا یوں کہیے کہ دکھائے جاتے ہیں اور پوری قوم گھرجلتا چھوڑ کراس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔

زخم کھاتے رہے، ہوش جاتے رہے

اس نمائش سازی کی صنعت نے اتنا طاق کر دیا ہے کہ ہر فرد کا اپنا چینل ہے۔ بے یقینی کا عالم یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اب لوگ نہیں، کالم بولتے ہیں۔ اب ہم سکوت کی بجائے "سقط"کے عالم میں ہیں۔ سقط ایسے شخص کے بارے میں بولتے ہیں جو اچھی چیز کی خواہش کرے مگر ہلاکت میں پڑ جائے۔ کہاوت ہے کہ رات کے کھانے نے اسے بھیڑیے کے پاس پہنچا دیا۔ ساکت اور ساقط قوم کو بھیڑیے کی پہچان نہیں۔ شوروغل کی ہر کہانی مرگ انبوہ پر ختم ہوتی ہے۔

اس شور مچاتی قوم کے غم بہت زیادہ ہیں۔ تحفظات بھی ہیں لیکن حسن بیان کا سلیقہ نہیں۔ اعلانات دونوں طرف سے ہوتے ہیں چیخ و پکار سے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ایسے واضح اعلانات کے بعد خاموش رہنا اور وہ تمام حقائق چھپانا جن کا علم ہونا منظر نامے کو بدل سکتا ہے۔ فحش اشاروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

یہ نہیں کہ کوئی چور آپ کا پرس لے کر بھاگ جائے تو آپ خاموش رہیں اور مدد کی تشہیر ایک آٹا کی ایک بوری کے ساتھ آٹھ سے دس لوگوں کے ساتھ کریں۔ یہ عدم توازن لوگوں کوہنسنے کا موقع دیتا ہے اور کچھ نہیں۔ شور دریا سے سمندر کا سکوت جو بھی کہے لیکن انسانوں کے لیے با شعور اورمدلل مکالمہ ضروری ہے۔ جہاں یہ مکالمہ نہیں وہاں سقوط در سقوط سانحات کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔

حال سے بے خبر ماضی کےسانحات پہ روتے رہنا اورٹھہرے پانی میں اپنا عکس دیکھ کر گوشت کے دوسرے ٹکڑے کا لالچ کرنے کو بے وقوفی اور نادانی ہی کہیں گے۔ سمجھ داری نہیں۔ درو دیوار میں، محلوں اور گھروں میں سانحے پنپ رہے ہئں۔ بھوک، فاقے اور بے انصافی کے سانحات جو یا توحد سےبڑھی خاموشی کا نتیجہ ہیں یا بے جواز شور اور بلندآوازی کا۔ یہ آوازیں اصل حقائق پر بھانت بھانت کی بولی اور جواز یوں سجاتی ہیں اور نعرے لگاتی ہیں کہ اصل بات رہ جاتی ہے اور نئے انداز رہ جاتے ہیں۔ پوری قوم سنانے کے قابل بات کو پی لیتی ہے۔

ہماری عمومی معاشرتی زندگیوں پر مایوسی، عناد، ذاتی مفادات، بے حسی اورخودغرضی نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ لیکن ہم دوسروں کے زخم دکھا کر بھیک مانگنے کے عادی ہو چکے ہیں اور اپنے معاملات پر ہماری چپ سادھی خاموشی کسی انعام کا نہیں۔ ڈیپریشن، مایوسی اور دیگر ذہنی و قلبی عارضوں کا سبب بنتی ہے۔ یہ خاموشی ایسی استماتت پر منتج ہوتی ہے۔ جس میں اپنا نقصان اپنے ہی ہاتھوں ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں اپنے حق کے لیے اپنی جگہ، اپنے مقام اور اپنے گھر میں حقوق و فرائض کی جنگ لڑنا ہے یا سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ اور ایڈیٹنگ کے ذریعے اپنی محرومی دکھانا ہے۔ استاد بھی اس بچے کو پسند کرتا ہے جس کو اپنا سبق یاد ہوتا ہے۔ سو بہتر ہےہم اپنا سبق یاد رکھیں۔ تعمیری خوب صورتی کے زندگی پرور مناظر کی تہہ میں موجود خاموشی کو زبان دینے کی کوشش کریں۔ کنکروں اور پتھروں کی زبان سے منظر کو بگاڑنے کی بجائے مکالمہ سیکھنے کی کوشش کریں۔