دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان! مگر ذرا سوچو، ہر طرف پھیلا یہ غبارکیا ہے۔ اب میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ سب 70 سال کا کیا دھرا ہے۔ 70 سال کا رونا دھونا بڑا رو لیا۔
اب تو بس ہر سو پھیلے غبارکا سوچو۔ ہر طرف ہاہا کار مچی ہے "بس پیسہ کماؤ " ایک مصرعہ ہے کہ پچھلے دس بارہ روز سے ذہن میں بج رہا ہے، "بج رہا ہے" یوں لکھا ہے کہ یہ مصرعہ پاکستانی فلم "جوکر" کے ٹائٹل سانگ کا ہے۔ جوکر فلم اداکار کمال نے بنائی تھی۔ اس فلم کے موسیقار مصلح الدین تھے اور مذکورہ گیت نغمہ نگار فیاض ہاشمی نے لکھا تھا مصرعہ یوں ہے"آدمی، آدمی کا ہے دشمن، جانور کہہ رہے ہیں یہ روکر" اداکارکمال نے جوکر کا کردار ادا کیا ہے اور خوب کیا ہے۔
اداکار کمال نے ایک اور فلم بھی بنائی تھی جس میں مزاحیہ اداکار رنگیلا گدھا بنا ہے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگتا ہے کہ "اے خدا مجھ کو انساں بنا دے" اور آخر اللہ اس کی دعا قبول کر لیتا ہے اور وہ گدھا انسان بن جاتا ہے مگر جب وہ گدھا انسانوں کی مکروہ حرکتیں دیکھتا ہے تو تنگ آ کر اللہ سے پھر گڑگڑا کر دعا مانگتا ہے کہ "اے خدا مجھ کو حیوان بنا دے" تو اللہ پھر سے اسے گدھا بنا دیتا ہے اور وہ انسان سے گدھا بن کر خوش ہو جاتا ہے۔
آج اپنا پاکستان دیکھ کر یہ سب کچھ مجھے یاد آ گیا کہ "آدمی آدمی کا ہے دشمن، جانورکہہ رہے ہیں یہ رو کر۔" آج اپنے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے، شہر شہر، گاؤں گاؤں، انسانوں پرکتے جھپٹ رہے ہیں کہ شاید ہمارے حملوں سے جھپٹنے سے ہی انسان سدھر جائیں اور " انسان بن جائیں " مگر کہاں! یہاں تو جعلی دوائیاں بن رہی ہیں اور آدمی پیسہ بنانے کے چکر میں جعلی دواؤں سے آدمی کی جان لے رہا ہے۔ یہاں مسالہ جات میں لکڑی کا برا دا اور چاول کا بھوسا ملا کر سرخ پسی ہوئی مرچ، دھنیا، ہلدی وغیرہ بنایا جا رہا ہے۔ غور کریں معدے میں لکڑی کا برادا پہنچ کر کیا حشر مچاتا ہو گا اور انسان کیسے کیسے امراض کا شکار ہوتا ہو گا۔
یہ سب ملاوٹ کرنیوالے بھی دیکھ رہے ہیں اور ہم ملاوٹ کا شکار ہونیوالے بھی دیکھ رہے ہیں۔ آج ہمارے پاکستان میں یہ ناپاک کام بھی ہو رہا ہے کہ گدھوں اورکتوں کا گوشت بیچا اور کھلایا جا رہا ہے۔ مری ہوئی مرغیوں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے، اور پتہ نہیں کیا کیا الم غلم کھلایا جا رہا ہے۔" آدمی، آدمی کا ہے دشمن" بن کر ذخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے۔ آدمی کو بنیادی غذا آٹے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ آدمی آٹے کے حصول کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے اور آٹا ذخیرہ اندوزوں کے بڑے بڑے گوداموں میں بھرا پڑا ہے۔ انسان کے بچوں کے لیے دودھ نہیں ہے، دودھ ہے تو اس میں ملاوٹ شامل ہے۔
غریب بچوں کے لیے چپس اور ٹافیاں منسوخ شدہ گھی اور مواد سے غلاظت بھرے ماحول میں بنائے جا رہے ہیں اور یہ سب پان والوں کی دکانوں پر فروخت کے لیے رکھ دیے جاتے ہیں جہاں سے غریبوں کے بچے یہ زہر آلود چپس اور ٹافیاں کھا کر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گاؤں گوٹھوں کے چھوٹے چھوٹے کھوکھوں پر رنگ برنگے ریپر میں لپٹے یہ زہر بھرے چپس اور ٹافیاں غریب بچے کھاتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ زہر آلود اشیا بنانے والے سرمایہ دار لاکھوں کروڑوں روپوں کی مشینیں اور فیکٹری کے لیے مہنگی جگہ لے کر یہ "کاروبار" کرتے ہیں اور ان کے اپنے بچے باہر کے برانڈڈ چپس، ٹافیاں اور بسکٹ کھاتے ہیں، اچھے صاف ستھرے گھروں میں رہتے ہیں، اعلیٰ اسکولوں میں جاتے ہیں، اعلیٰ کاروں میں گھومتے ہیں اور یہ سب ٹھاٹ باٹھ، غلاظت بھرے فیکٹریوں کے ماحول میں بننے والی زہر آلود اشیا خورونوش غریبوں کو کھلا کر حاصل کردہ آمدنی کی بدولت ہوتے ہیں۔
پاکستان کے بڑے چھوٹے شہروں میں مرے ہوئے جانوروں، گائے بھینسیں وغیرہ سے کھانا پکانے کا تیل کشید کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے شہروں سے باہر ویران جگہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں بڑی بڑی کڑاہیوں کے نیچے آگ جلا کر مرے ہوئے جانوروں کی باقیات کڑاہیوں میں ڈال کر ان سے تیل بنایا جاتا ہے جو کھلی مارکیٹوں میں فروخت کے لیے لایا جاتا ہے اور پھر یہی کھلا تیل غریب بستیوں کی دکانوں پر سپلائی کیا جاتا ہے جسے غریب اپنے کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ سارے جعلی کام، یہ جعلی دوائیں، ملاوٹ زدہ مسالہ جات، گدھوں، کتوں کا گوشت، جعلی خوردنی تیل وغیرہ ہوٹلوں میں غلاظت بھرے کھانے۔ یہ سارے کام سرمایہ دار، دولت والے کرتے ہیں۔
شہروں کے پرائم علاقوں میں کروڑوں کے ہوٹل دولت والے ہی بنا سکتے ہیں، لہٰذا وہ ہی بناتے ہیں۔"اوپر" تک ان کی پہنچ ہوتی ہے اس لیے "وہ" کسی سے نہیں ڈرتے۔ ان کو "فکر نہ فاقہ تے عیش کر کاکا" ہوٹلوں پر حفظان صحت والے چھاپہ مارتے ہیں اور ہوٹلوں کے مالک دولت مندوں کے کاکے انھیں بہلا پھسلا کے رخصت کر دیتے ہیں۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ "پرنالہ" وہیں گر رہا ہے، جہاں گر رہا تھا۔ اوپر بیان کردہ سارے "مکروہ کام" جاری و ساری ہیں۔
پاکستان میں جہاں جاگیرداروں، زمینداروں، سرمایہ داروں، شربت والوں، پاپڑ والوں، قلفی والوں، (ان کے بڑے بڑے بینک اکاؤنٹ سامنے آئے ہیں ) ان سارے ظالموں نے مل کر ملک کوکنگال کیا ہے۔ وہیں ملاوٹ کرنیوالوں نے بھی ملک برباد کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
مافیا، مافیا یہ لفظ ان دنوں بہت زیادہ سننے میں آ رہا ہے۔ حقیقت سچ یہی ہے کہ یہ چند ظالم لوگ جو ہیں یہی مافیا ہیں۔ انھیں اللہ، رسول، قیامت، قبر، موت، کچھ یاد نہیں۔ ان لٹیروں کی ٹولیاں ہیں جو پورے ملک میں گھومتی پھرتی ہیں۔ یہ ظالم سرکاری ملازمین کی رہائشی زمینیں کھا گئے۔ غریب چپراسی اور کلرکوں نے پسینہ پسینہ کر کے 120 گز اور 200 گز کے پلاٹ جنگل بیابان میں لیے تھے۔ تیس چالیس سال بعد جب وہ جنگل، منگل بن گئے تو یہ ظالم ٹولیاں آئیں اور غریب سرکاری ملازمین کی رہائشی اسکیموں پر قبضہ کر لیا اور بے چارے غریب سرکاری ملازم بغل میں زمین کی فائل دبائے کورٹ کچہری اور نیب کے دفتروں کے چکر لگا رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ممبران سب کچھ جانتے ہیں مگر ان کی اٹکھیلیاں اور طبلے بجانے کے کام ہی ختم نہیں ہو رہے۔
گند بہت ہے اس گند کو صاف کرنے کے لیے فولادی ہاتھ اور جثے کی ضرورت ہے۔ 70 سال میں غریب کے بنیادی مسائل کی طرف کوئی نہیں آیا، اب اگرکوئی میں پھر کہوں اگر کوئی غریب کی طرف آنا چاہ رہا ہے تو اسے فولادی جثہ درکار ہو گا۔ جالبؔ کے اشعار جو انھوں نے 1985ء میں میانوالی جیل میں کہے تھے:
زنداناں دے در نئیں کھلدے، ہنجواں ہاواں نال
سجناں اے تاں کھلن گے، لوہے دیاں باواں نال
ویکھ زمانہ گل کردا اے اج ہواواں نال
منزل تیرے ہتھ نئیں آونی، صرف دعاواں نال
خوف دا سایہ ذہن اپنے دے آون نہ دیتا کول
دھن جگرا ساڈا سی جالبؔ، رہے بلاواں نال