دنیائے صحافت کا بہت بڑا نام۔ کراچی پریس کلب کے کئی بار صدر منتخب ہوئے، آل پاکستان نیوز ایجنسی (ایپنک) کے صدر بنے۔ منہاج برنا اور نثار عثمانی کے بعد بڑا نام عبدالحمید چھاپرا کا جانا اور مانا گیا۔ عبدالحمید چھاپرا نے صحافت میں ایسا کردار ادا کیا، اس جرأت، بے باکی اور بہادری سے سچ کا دم بھرتے ہوئے ظلم اور جبر کے خلاف لڑتے رہے۔
تھانے، عقوبت خانے اور جیلیں بھی دیکھیں لیکن زندگی کی آخری سانس تک کہیں اور کبھی قدم ڈگمگائے نہیں۔ عبدالحمید چھاپرا کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا سر ہمیشہ اٹھا رہا اور آنکھوں میں حق و سچ کی چمک موجود رہی، زبان کہیں لڑکھڑائی نہیں، جو کہا، جب کہا ببانگ دہل کہا۔ عبدالحمید چھاپرا حبیب جالب کے اس شعر کا عکس تھے:
نہ ڈگمگائے کبھی ہم دنیا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹر نے ان کی انتقال کی خبر دیتے ہوئے درست لکھا کہ "لوگ انھیں حبیب جالب کی تصویر کہا کرتے تھے۔" کراچی پریس کلب کے صدر بنے تو کلب میں حکومتی 9 وزرا کی جھنڈے والی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ چھاپرا صاحب نے کراچی پریس کلب کو لندن کا "ہائیڈ پارک" بنا دیا، جسے حکومت مخالف اجتماع منعقد کرنا ہوتا کراچی پریس کے دروازے اس کے لیے کھلے ہوتے تھے۔
خفیہ والے دن رات کراچی پریس کلب کے باہر اور اردگرد بڑی تعداد میں نظر آنے لگے، پھر جنرل ضیا الحق کا مارشل لا آگیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرکے جنرل ضیا قابض ہوگئے۔ بڑا سخت دور تھا۔ صحافیوں کو کوڑے مارے جا رہے تھے، ان حالات میں کراچی پریس نے یہ فیصلہ کیا کہ حبیب جالب کو کلب کی تاحیات اعزازی رکنیت دی جائے۔ صدر کراچی پریس کلب عبدالحمید چھاپرا نے حبیب جالب صاحب کو خط لکھا کہ "آپ کو تاحیات اعزازی رکنیت دی جائے گی" اور اسی خط میں یہ بھی لکھا کہ "موصوف" (جنرل ضیا) کے لیے تازہ کلام بھی لائے گا۔"
مجھے خوب یاد ہے یہ 25 دسمبر 1980 کی یخ بستہ شام تھی، ادھر اسلام آباد میں جنرل ضیا کے حضور اکیڈمی ادبیات میں پاکستان بھر کے تمام ادیب شاعر حاضر تھے اور عین اسی دن اسی وقت سمندر کنارے کراچی پریس کلب میں حبیب جالب کے اعزاز میں تقریب ہو رہی تھی۔ صدارت سبط حسن کر رہے تھے اور سامعین میں حق گو شاعر صحافی خالد علیگ بھی موجود تھے۔
کالم نویس، شاعر انعام درانی نے جالب کے لیے نظم پیش کی اور سعیدہ گزدر نے مضمون پڑھا۔ پروگرام کے اسٹیج سیکریٹری مجاہد بریلوی تھے۔ میں یہ بھی لکھتا چلوں کہ اس وقت پریس کلب کراچی کے سیکریٹری ظفر قریشی تھے جو انھی دنوں امریکا چلے گئے تھے۔
جالب صاحب نے عبدالحمید چھاپرا صاحب کے کہنے کے مطابق جنرل ضیا کے بارے میں تازہ نظم پہلی بار وہاں سنائی، جو بعد کو بہت مقبول ہوئی:
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
عبدالحمید چھاپرا کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ جنرل ضیا کے سامنے ڈٹ گئے اور جالب کو اعزازی رکنیت دی۔ جالب اور چھاپرا صاحب کی محبتوں کا میں عینی شاہد ہوں۔ جب جب حبیب جالب کراچی آتے چھاپرا، جالب صاحب کے ساتھ ساتھ نظر آتے۔
عبدالحمید چھاپرا کی زندگی میں ایک اور اہم موڑ آیا۔ ان کا چھوٹا بھائی ابو بکر شدید بیمار ہو گیا اور اس کے دونوں گردے فیل ہوگئے۔ چھاپرا صاحب کی والدہ نے دنیا سے جاتے وقت اپنے بڑے بیٹے عبدالحمید سے کہا "بیٹا! ابوبکر کا خیال رکھنا۔" ابوبکر کے گردے فیل ہوئے تو عبدالحمید چھاپرا نے اپنا ایک گردہ ابوبکر کو دے دیا، یوں اس کی جان بچ گئی۔ یہ واقعہ ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کی موجودگی میں چھاپرا صاحب نے سنایا تھا۔ جب ڈاکٹر ادیب رضوی حبیب جالب امن ایوارڈ وصول کرنے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی آئے تھے۔
عبدالحمید چھاپرا کی عادت تھی وہ اپنے گھر سے اپنی کار میں پریس کلب آتے۔ کار وہاں کھڑی کرتے اور پھر جہاں جانا ہوتا پیدل جاتے۔ ایک گردے کے ساتھ انھوں نے زندگی کا خاصا طویل عرصہ گزارا۔ میں انھیں دیکھتا تھا۔ وہ پیدل اخبار جا رہے ہیں، کبھی ریگل، کبھی صدر ایمپریس مارکیٹ، کبھی ٹاور، کبھی برنس روڈ۔ سفید کرتا شلوار پہنے گرمیوں کے دن، پسینے میں شرابور چھاپرا صاحب ہاتھوں میں کاغذات کا پلندہ اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ جب تک ہمت طاقت رہی، ہاتھ پاؤں نے ساتھ دیا، وہ پریس کلب آتے رہے۔ واپسی میں ان کا بیٹا انھیں گھر لے جاتا تھا۔ آخری ایام میں وہ گھر کے ہی ہوکر رہ گئے تھے۔
چھاپرا صاحب نے بہت بھرپور زندگی گزاری۔ زندگی کا ایک لمحہ تک ضایع نہیں کیا۔ وہ لکھتے رہے، پڑھتے رہے اور بے داغ زندگی گزار کر ساتھ ایمان کے قبر میں اتر گئے۔ ان کی عظیم صحافیانہ زندگی، آزادی اظہار اور ظالم حکمرانوں کے آگے ڈٹ جانا، سر نہ جھکانا۔ ان خوبیوں کے اعتراف میں انھیں سال 2014 کا حبیب جالب امن ایوارڈ دیا گیا۔ سوبھوگیان چندانی، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر رتھ فاؤ، فخر الدین ابراہیم، جام ساقی، عابد حسن منٹو، جسٹس رانا بھگوان داس، اعتزاز احسن، عاصمہ جہانگیر، ان نیک نام ایوارڈ یافتگان میں عبدالحمید چھاپرا کا نام بھی شامل ہے کہ جنھیں حبیب جالب امن ایوارڈ دیا گیا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین)