بلوچستان عجب صوبہ ہے کہ ہمیشہ بے سکون ہی رہا۔ پاکستان بنا تو بلوچستان کے بڑوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ خان قلات سب سے بڑے سردار تھے انھوں نے اپنا ہاتھ قائد اعظم کے ہاتھ میں دے دیا۔ بگٹی بھی پیچھے نہ رہے۔ نوجوان قاضی عیسیٰ قائد اعظم کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں شامل رہے مگر سیاسی شعور سے مالا مال بلوچستان کو ہمیشہ دبا کر رکھا گیا۔
پاکستان معرض وجود میں آیا تو بلوچوں نے چاہا کہ انھیں مکمل اختیارات کے ساتھ صوبے کا درجہ دیا جائے مگرایسا نہیں کیا گیا۔ معدنی دولت اور سوئی گیس کے وافر ذخائر کے ہوتے ہوئے بلوچستان غریب رہا۔ زمینی رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ اور غربت انتہا کی۔ کوئٹہ ایک بڑا شہر باقی سب چھوٹے شہر۔ پھر پاکستان میں پہلا مارشل لا لگ گیا۔ بلوچستان تو پہلے ہی مسائل میں گھرا ہوا تھا، مارشل لا آیا تو اس نے وہاں بھی مسائل پیدا کردیئے۔ بلوچستان کو میں غلطی پر غلطی کی گئی اور حکمرانی جاری رکھی گئی۔
یہ داستان میں کئی بار بیان کر چکا ہوں۔ سن 1970 کے الیکشن ہوئے، پہلی بار بلوچستان کو صوبہ تسلیم کیا گیا۔ صوبہ بلوچستان کی22نشستوں کا انتخاب ہوا۔ بیس نشستیں نیشنل عوامی پارٹی کے حصے میں اور دو نشستیں جمعیت علمائے اسلام کو ملیں۔ عطا اللہ مینگل وزیر اعلیٰ بنے۔ افسوس کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان اسمبلی توڑ دی اور وہاں گورنر راج قائم کردیا اور بلوچ نوجوان ایک بار پھر اسلحہ اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے۔
میں اس داستان کو یہیں چھوڑتا ہوں اور آج کے بلوچستان کی بات پر آجاتا ہوں۔ اپنے مخصوص جغرافیے کی وجہ سے صوبہ بلوچستان نہایت حساس بن چکا ہے۔ ایک طرف افغانستان کا چمن بارڈر ہے، دوسری طرف ایران ہے۔ خلیجی ریاستیں بھی ہیں، اور سمندر بھی۔ امریکا، افغانستان اور ایران میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے خطے میں خلفشار پھیلاتا رہتا ہے۔ ایران نے سپرپاور امریکا کو سپر ماننے سے انکار کردیا، ایران کے لیے بہت پہلے علامہ اقبال نے کہا تھا، علامہ کے یہ اشعار بہت اہم گواہی ہیں، دنیا کے مظلوموں کے لیے ایک راستہ ہیں، منزل کا تعین ہے، آئیں، اشعار پر مشتمل نظم کا عنوان اور نظم جمعیت کی جانب:
جمعیتِ اقوامِ مشرق
پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیت ِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالمِ کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
پاکستان اور ایران کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ تفتان پاکستان میں داخل ہونے کا دروازہ ہے، ہندوستان کے حکمران اپنے ملک اور عوام کے لیے بھی مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا، افغانستان میں داخل ہوا۔ امریکا نے ہمیں Do More پر لگا دیا۔ افغانستان اور پاکستان جلتے رہے، ہندوستان نے خوب تماشا دیکھا اور لگایا بھی۔
پاکستان کو آگے بڑھنے کے ہر مرحلے کے خلاف بیرونی دشمن دن رات لگے ہوئے ہیں، پاکستان کے اندر بیرونی دشمنوں کے آلہ کاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بلوچستان بہت آسان ٹارگٹ بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ہزارہ قبیلے کے کاکنوں کا قتل بیرونی سازشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ گو پورا ملک اندرونی بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے، مگر بلوچستان زیادہ نازک حالت میں ہے۔
بلوچستان پر زیادہ توجہ درکار ہے۔ افغانستان کی سرحد کا نرم ہونا بھی اہم مسلہ ہے۔ ادھر ایران خود "عالم مغرب" سے نبرد آزما ہے۔ افغانستان اور ایران میں آگ لگے گی تو تپش پاکستان تک ضرور پہنچے گی۔ حبیب جالب نے بہت پہلے بلوچستان کے لیے پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔:
اٹھو پنجاب کے لوگو، بلوچستان جلتا ہے
بلوچستان جلتا ہے، تو پاکستان جلتا ہے