کورونا کی ہولناکیاں جاری ہیں۔ کچھ پتا نہیں کہاں، کس انسان کے اندر کیا حشر برپا کیے ہوئے ہے، پوری دنیا کورونا کے حملوں کی زد میں ہے۔ اب تک دنیا بھر میں کئی لاکھ انسان کورونا کا شکار ہو چکے اور کئی لاکھ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
ہمارے ملک میں غالب اکثریت خط غربت کے نیچے زندگی گزارتے انسانوں کی ہے۔ یہ غریب بے چارے دس روپے کا ماسک خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتے، دس روپے کا ماسک خریدنے کے بجائے وہ دس روپے دال روٹی خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر یہاں ایک اور واقعہ بھی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ ہمارے ملک میں لاکھوں انسان قوت خرید ہونے کے باوجود ماسک استعمال نہیں کرتے اور بازاروں میں رش والی جگہوں میں بغیر ماسک گھومتے پھرتے ہیں۔
ادھر مغرب میں جہاں کورونا نے بہت زیادہ تباہی مچا رکھی ہے امریکا، کینیڈا، فرانس، لندن، برازیل، اٹلی، ایمسٹرڈیم وغیرہ جہاں نائٹ کلب ہیں، شراب خانے ہیں، ہر طرح کی آزادی ہے، وہاں کے لوگ بھی کورونا کی بندشوں کے خلاف احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے ہیں، یعنی وہ لوگ کورونا کے ہاتھوں مرنے کو تیار ہیں، مگر اپنی آزادی نہیں چھوڑ سکتے۔
دنیائے مغرب میں حکومتوں کے خزانوں میں دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں، حکومتیں اپنے عوام کو گھر بیٹھے سب کچھ دینے کو تیار ہیں، مگر وہاں کے عوام کو کلبوں، شراب خانوں میں ناچ گانا کرنا ہے اور ادھر ہمارے جیسے غریب ملکوں میں جہاں حکومتوں کے خزانے خالی ہیں ہمارے غریب عوام ریڑھی والے، ٹھیلے والے، سبزی والے، خوانچہ فروش، سموسے، پاپڑ والے، قلفیوں والے مجبور ہیں انھیں گھر کا چولہا جلانے کے لیے گھروں سے نکلنا ہوتا ہے، سو وہ نکلتے ہیں۔
ہمارے ملک میں غریب بستیوں میں گندگی، غلاظت کے انبار لگے ہوئے ہیں جس غریب بستی کی گلیوں سے گزرو ایک بدبو، ایک تعفن پھیلا ہے، مکان پہ مکان جڑے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ پختہ یقین سا ہو چلا ہے کہ ہمارے غریب شاید اسی غلاظت، گندگی اور تعفن کی وجہ سے کورونا سے بچے ہوئے ہیں۔ چلو اللہ کی اللہ ہی جانے، بندہ تو بندہ ہے، وہ کیا جانے، رب کی شان کو۔ اب جب کہ کورونا کی تیسری اور بہت خطرناک لہر دنیا بھر میں حملہ آور ہے ہمارا ملک بھی "اللہ کے حوالے" ہی کے دور سے گزر رہا ہے۔
کبھی کراچی گندا شہر ہوا کرتا تھا، اب لاہور ہے، کہتے ہیں لاہور نے گندگی میں کراچی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کورونا کی تیسری لہر نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کو بری طرح جکڑا ہوا ہے، وہاں کے اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں ادھر سندھ میں کتوں کے غول شہر شہر، قصبہ قصبہ، گاؤں گاؤں انسانوں پر حملہ آور ہیں اور یہ معاملہ بھی اللہ کے سپرد ہے۔
کراچی میں کورونا ویکسین ستر سال سے اوپر عمر والوں کو لگائی جا رہی ہے کراچی میں 27 سینٹر ویکسین لگانے کا کام کر رہے ہیں۔ مشہور سینٹرز میں آغا خان اسپتال، جناح اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال، اوجھا سینی ٹوریم، خالق دینا ہال اور آرٹس کونسل کراچی شامل ہیں۔ راقم الحروف اور میری بیوی ہم دونوں 70 سال کے ہو چکے، ہمارا بیٹا ڈاکٹر ذیشان دوسری ویکسی نیشن کے لیے اسپتال جا رہا تھا اس نے ہم والدین کے لیے بھی وقت لے لیا۔ اس طرح ہم دونوں میاں بیوی کو پہلا انجکشن لگ چکا۔
بڑی "افواہیں " تھیں مگر سب کی سب دم توڑ گئیں۔ اسپتال والوں نے کھلے سبزہ زار میں ٹینٹ لگا رکھے تھے۔ اسپتال کا عملہ قدم قدم پر رہنمائی کے لیے موجود تھا، ہم صبح سوا آٹھ بجے گھر سے روانہ ہوئے تھے اور انجکشن لگوا کر دو گھنٹے بعد واپس گھر آگئے تھے۔ آرٹس کونسل کراچی نے اس موقع پر بھی اپنا فرض سمجھتے ہوئے کورونا ویکسی نیشن کے لیے خود کو پیش کیا۔ فولادی جثے والا محمد احمد شاہ صدر آرٹس کونسل اور اس کے تمام عہدیداران قابل تحسین و مبارکباد ہیں۔
ملک کے معروف احباب نے آرٹس کونسل کراچی میں انجکشن لگوائے، انور مقصود، محمود شام، ڈاکٹر جعفر احمد، مزدور رہنما منظور رضی، اداکار جاوید شیخ، شاعر صابر ظفر، ڈرامہ نگار حسینہ معین اور بہت سے ممبران آرٹس کونسل میں اس موقع سے مستفید ہوئے۔ میں اور میری بیگم اس مرحلے سے گزر چکے اس لیے میں تمام احباب سے کہوں گا کہ کورونا ویکسین ضرور لگوائیں۔ ابھی تو پوری دنیا میں یہ ان دیکھی وبا پھیلی ہوئی ہے اور ابھی کچھ پتا نہیں کہ یہ سلسلہ کتنا دراز ہوگا۔
لہٰذا احتیاط کا دامن تھامے رکھیں بلا ضرورت نقل و حرکت نہ کریں، یہ وبا اللہ کی طرف سے انسانوں کا امتحان ہے اور ہم سب انسانوں کو اس امتحان سے گزرنا ہے، ہم سب کے بہت سے پیارے ہیں جو دوسرے شہروں میں بیٹھے ہیں یا دوسرے ملکوں میں ہیں مجبوری یہ ہے کہ ہم آپس میں نہیں مل سکتے۔ اس تکلیف دہ مرحلے کو دعاؤں کے سہارے گزار دیں، اللہ سب کی خیر رکھے تو خوشیوں کے ساتھ ملیں گے۔
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، موسم بدل رہے ہیں، زلزلے، بارشیں، سمندری طوفان، لینڈ سلائیڈنگ اور روزانہ کسی بہت پیارے عزیز کی موت کی خبر، کنول نصیر اور حسینہ معین بھی رخصت ہوئیں۔ بس یہ سلسلہ اٹل ہے "آج تم کل ہماری باری ہے"۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ان کی بیگم بھی کورونا میں مبتلا ہوگئے، ان کے لیے صحت یابی کی دعا کے ساتھ اجازت۔ ایک صوفی شاعر کا مصرعہ یاد آ رہا ہے لکھ ہی دیتا ہوں۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جانا