فخرالدین جی ابراہیم بہت بیمار ہوگئے تھے، یہی بیماری کا بہانہ بنا، اور ایک بڑا انسان آخر دنیا چھوڑ گیا۔ جانا تو سبھی کو ہے، اپنا شعر یاد آگیا لکھے دیتا ہوں۔
ہر بشر کو جہاں میں آنا ہے
اور کچھ دن ٹھہر کے جانا ہے
یہ "کچھ دن ٹھہر کے" والی بات سمجھ میں آجائے تو سارے جنجال ختم نہ ہو جائیں ! سارے جھگڑے، فساد ختم نہ ہو جائیں! یہی کچھ دن ٹھہرنے کا ہی عذاب ہے کہ جو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا اور اسے حیوان بنا دیتا ہے اور ایسا حیوان بنا دیتا ہے کہ حیوان بھی کانوں کو ہاتھ لگائیں۔
مگرکچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جوکچھ دن ٹھہرکے جانے والی بات سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں، دنیا کو عارضی قیام سمجھتے ہیں اور آگے چل دیتے ہیں۔ جب قیام ہی عارضی ہو تو اسے برائیوں کی نذر کیوں کرنا۔ یہ چند روزہ زندگی برائیوں کو رد کرکے اچھائیوں کے لیے وقف کر دینے ہی میں عظمت ہے اور جو اچھے کام کرکے دنیا سے جاتے ہیں، عظمت انھی کے حصے میں آتی ہے، وہی لوگ عظیم کہلاتے ہیں، انھی کا نام لوح جہاں پر ہمیشہ کے لیے لکھا رہ جاتا ہے، وقت گزرتا رہتا ہے بلکہ بڑی تیزی سے گزرتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ صدیاں بیت جاتی ہیں مگر اچھے کام کرکے جانے والے اپنے کام کی صورت اس جہان سے کبھی نہیں جاتے۔ میری خوش بختی کہ میں اپنے عہد کے ایسے ہی رہ جانے والے لوگوں سے ملا ہوں، انھیں قریب سے دیکھا ہے، ان کے ساتھ باتیں کی ہیں، ان کی باتیں سنی ہیں، ان سے ہاتھ ملایا ہے:
ہو کیوں نہ اپنے مقدر پہ ناز اے لوگو
تمہیں قریب سے دیکھا اور سنی آواز
اپنے عہد کے بڑے لوگ ڈاکٹر رتھ فاؤ، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، جسٹس دوراب پٹیل، عاصمہ جہانگیر، خالد علیگ، کامریڈ سوبھوگیان چندانی، جسٹس رانا بھگوان داس، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، کامریڈ جام ساقی اور انھی عظیم لوگوں کی فہرست میں فخرالدین جی ابراہیم کا نام بھی شامل ہے۔
یہ واقعہ سال 2009 کا ہے کہ میں فخرالدین جی ابراہیم کے دفتر میں ان کے روبرو بیٹھا تھا۔ میں نے ان کے سامنے تحریری درخواست رکھی اور زبانی بھی گزارش کی کہ آپ اپنے ہاتھوں سے حبیب جالب امن ایوارڈ (سال 2009) عبدالستار ایدھی کی خدمت میں پیش کریں۔" عبدالستار ایدھی، حبیب جالب اور فخرالدین جی ابراہیم" اس تکون میں انکارکی گنجائش ہی نہیں تھی، سو فخرالدین جی صاحب نے ہاں کہہ دی۔
یہ 30 اپریل 2009 کا دن تھا، کراچی کے ہائیڈ پارک کراچی پریس کلب میں شام بڑی سج دھج سے اتری ہوئی تھی۔ اس روز کراچی شہر میں ہو کا عالم تھا یا گولیوں کی تڑتڑ آوازیں پریس کلب کے باہر بھی شور بہت کم تھا۔ احتجاجی مظاہرین پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پر ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے اور مظاہرین کے ساتھ عبدالستار ایدھی، ہمراہ فخرالدین جی بیٹھے تھے (مجھے خوب یاد ہے کہ دونوں شخصیات وقت سے پہلے تقریب میں پہنچ گئی تھیں ) جیساکہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ کراچی شہر میں ہو کا عالم تھا اور "قید تھے دیواروں میں لوگ، باہر شور بہت کم تھا " اور شہر میں ہنگامے ہو رہے تھے مگر ان حالات کے باوجود بھی کراچی پریس کلب میں منعقدہ تقریب میں شامل حاضرین نے دہشت اور خوف پھیلانے والوں کو شکست فاش دیتے ہوئے یہ ثابت کیا تھا کہ "ہم ابھی زندہ ہیں " اس روز اسٹیج پر جو احباب فخرالدین جی اور عبدالستار ایدھی کے ساتھ بیٹھے تھے ان میں شامل تھے، میر حاصل بزنجو، میاں رضا ربانی، منیر اے ملک، ممنون حسین، مشاہد اللہ خان، مزدور رہنما عثمان بلوچ، اور ناصر جالب۔
فخرالدین جی ابراہیم نے حبیب جالب امن ایوارڈ (سال 2009) عبدالستار ایدھی کو پیش کیا۔ دونوں شخصیات نے اس دن بھی ملکی صورتحال پر فکر انگیز باتیں کیں۔ یہ میری فخر الدین جی ابراہیم سے پہلی ملاقات تھی۔ میری ان سے دوسری اہم ملاقات سال 2012 میں ہوئی کہ جب میں ان کے دفتر میں یہ خط لے کر حاضر تھا کہ حبیب جالب امن ایوارڈ (سال 2012) آپ کو دیا جائے گا۔ انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور ایوارڈ قبول کرنے کے لیے حامی بھر لی۔ یہ 30 اپریل 2012 کا دن تھا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں حسب روایت مقررہ وقت شام 7 بجے تقریب کا آغاز ہوا۔ فخر الدین جی ابراہیم کو ایوارڈ دینے کے لیے کامریڈ جام ساقی اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس اسٹیج پر موجود تھے، ہر سال کی طرح عقیل عباس جعفری نے صاحب اعزاز فخرالدین جی ابراہیم کے بارے میں خصوصی مضمون پڑھا ان کے علاوہ پروفیسر سحر انصاری، مسلم شمیم ایڈووکیٹ، مزدور رہنما منظور رضی اور شاعر توقیر چغتائی اور پنجابی زبان کے شاعر خلیل آزاد نے اظہار خیال کیا۔
راقم الحروف سعید پرویزکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہر سال تقریب کی میزبانی کے فرائض میں ادا کرتا ہوں۔ (مجھ سے پہلے میزبانی کے فرائض مجاہد بریلوی ادا کیا کرتے تھے) اس روز فخرالدین جی ابراہیم نے جو گفتگو کی وہ یادگار تھی، انھوں نے اپنے ابتدائی حالات بتاتے ہوئے کہا "کراچی جہاں میرے والدین سولجر بازار کے علاقے میں رہتے تھے، میں نے پچاس کی دہائی کی ابتدا میں وکالت شروع کی، اس زمانے میں ممتاز صحافی زیڈ اے سلہری ٹائمز آف کراچی کے نام سے ایک انگریزی اخبار نکالا کرتے تھے، سلہری کے اخبار میں ایک کارٹون شایع ہوا، جس میں حکومت کے خلاف واضح اشارے تھے لہٰذا حکومت نے انھیں گرفتار کر لیا۔ سلہری صاحب مجھے خوب جانتے تھے اور میرے مہربان بھی تھے انھوں نے مجھ جیسے نوجوان وکیل کو اپنا کیس دے دیا، سلہری صاحب جیل میں تھے اور میں ان سے مقدمے کے بارے میں ہدایات لینے جیل جایا کرتا تھا۔
ایک دن میں سلہری صاحب کے پاس جیل میں بیٹھا تھا کہ نعروں کی آوازیں آنے لگیں، میں نے سلہری صاحب سے پوچھا کہ یہ کون لوگ نعرے بازی کر رہے ہیں، تو سلہری صاحب نے بتایا کہ یہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے طلبا ہیں، حکومت کہتی ہے معافی مانگ لو، تو رہا کردیں گے مگر طلبا معافی نہیں مانگ رہے، پھر سلہری صاحب نے مجھ سے کہا " کیا تم ان طلبا کا کیس لو گے؟ " میں نے طلبا کا مقدمہ لڑنے کا انھیں کہہ دیا، سلہری صاحب سے مل کر میں طلبا سے ملا تو ان کے ایک جوشیلے ساتھی سے میری بات ہوئی اور یہ جوشیلا نوجوان حسن ناصر تھا، جسے بعد میں ایوب خان کے دور حکومت میں اذیتیں دے کر لاہور کے قلعے میں مار دیا گیا تھا۔
فخرالدین جی ابراہیم نے ایمانداری سے وقت گزارا اور ساتھ ایمان کے قبر میں اتر گئے، اب وہ اپنے افکار و کردارکی صورت تا ابد زندہ جاوید رہیں گے، یہ فخرالدین جی ابراہیم ہی تھے جنھوں نے جنرل ضیا کی حکومت میں PCO کا حلف اٹھانے سے انکار کر دیا، باقی سارے ججز نے حلف اٹھا لیا، مگر "فخر عدلیہ" کے ساتھ ایک اور بھی جج تھا جس نے آمر وقت کے سامنے انکارکر دیا تھا، اور یہ تھے جسٹس دوراب پٹیل۔ یہ دونوں جج اپنے گھروں کو عزت کے ساتھ لوٹ آئے تھے، جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے اپنا ایک فلاحی ادارہ بھی بنا رکھا تھا، جس کی تشہیر کیے بغیر وہ گاؤں دیہاتوں میں خصوصاً فلاحی کام کرتے تھے۔
فخرالدین جی ابراہیم اٹارنی جنرل رہے، گورنر سندھ رہے2013 کے انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر بنے، مگر ہر مقام سے صاف ستھرے بے داغ واپس لوٹے۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔
یاد رہے کہ ابتدا میں لکھے گئے عظیم لوگوں کے ناموں میں تین ناموں جسٹس دوراب پٹیل، عاصمہ جہانگیر اور خالد علیگ کے علاوہ باقی تمام عظیم افراد کو حبیب جالب امن ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، جب کہ (سال 2020) کا ایوارڈ عاصمہ جہانگیرکو دیا جائے گا۔