جارج فلوئیڈ زمین پر گرا ہوا تھا، اس کی گردن پر پولیس والے کا مضبوط گھٹنا تھا، جس سے پولیس والا جارج کی گردن دبا رہا تھا۔ جارج کہہ رہا تھا "میری سانس رک رہی ہے، میرا دم گھٹ رہا ہے، میں پولیس وین میں بیٹھنے کے لیے تیار ہوں " جارج کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، پولیس والے نے جارج کی گردن سے گھٹنا نہیں ہٹایا اور آخر جارج مر گیا۔
یہ وہ جارج تھا جو امریکا کا مالک تھا، یہ ملک، یہ علاقہ، یہ ریاستیں ان میں بہتے دریا، ندی، نالے اور یہ سمندر یہ سب کچھ اسی سیاہ فام جارج کا تھا۔ تانبے جیسی سفید رنگت والے آئے اور انھوں نے سادہ لوح سیاہ فام مالکان کو زیر کیا اور خود کو زبر۔
سیاہ فام زیر ہوئے تو ان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے، کون سا ظلم و جبر نہ تھا جو ان پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ کوڑے کھاتے جسم اور چپو چلاتے بازو۔ جارج کی موت پر پرانے زخم ہرے ہو گئے، لو دینے لگے۔
تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ لوممبا، کنگ لوتھر، نیلسن منڈیلا نے ظلم کرتے ہاتھوں کو روکا۔ طویل جدوجہد، لمبی قید، بہت سے تاریک راہوں میں مارے گئے۔ تب کہیں جا کر یہ منزل ملی ہے، ایک بہت بڑا انقلاب آیا کہ انسان دوست، امن پرست، جمہور پسند، سفید فام بھی جارج کی موت پر احتجاج کر رہے ہیں، امریکا، یورپ اور دیگر ممالک میں طلبا و طالبات، جوان، بوڑھے، سب سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔
آج جب میں جارج کی یاد میں کالم لکھ رہا ہوں تو احتجاج کرنے والوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں، بینرز بھی ہیں حتیٰ کہ ہزاروں لوگوں نے صدر امریکا کے گھر "وائٹ ہاؤس" کو گھیر رکھا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کا خاندان وائٹ ہاؤس کے بینکر میں پناہ گزین ہوگئے ہیں۔ لوگوں کے ڈر سے وائٹ ہاؤس کی بتیاں بجھا دی گئی ہیں، ٹرمپ نے فوج کو طلب کر لیا ہے، مگر عوامی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرتا۔
جارج! تیری موت نے زندگی بخش دی ہے، امریکی وزیر دفاع نے فوج کی مداخلت سے انکار کر دیا ہے۔ احتجاجی بہت سے حساب چکانے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔
دیکھو یارو! یہ کیسا ظلم ہے کہ جارج کے گھر میں گھس آئے، جارج کے گھر پر قبضہ کر لیا اور اب اس کو مار بھی دیا! وہ تو کہہ رہا تھا "مجھے چھوڑو، میں گرفتاری دینے کے لیے تیار ہوں " مگر سیاہ فام جارج کے لیے اتنی نفرت! کہ چار سفید فام حیوانوں نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مگر ایسے عظیم سفید فام بھی ہیں کہ جنھوں نے اپنے صدر ٹرمپ کو کہا "اگر کوئی مثبت بات نہیں کر سکتے تو اپنا منہ بند رکھیں " جس شہر میں جارج کو مارا گیا ہے اس شہر کے میئر نے شہر میں کرفیو لگانے سے انکار کر دیا ہے اور ان سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ امریکا کے وزیر دفاع نے فوج کو عوام کے سامنے لانے سے انکار کر دیا ہے۔ دنیا میں خاصی بیداری آ چکی ہے مگر ابھی بھی بیداری کی بڑی گنجائش ہے۔
کورونا نے دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے، ساری دنیا ایک برابر ہو گئی ہے۔ امریکا، چین، یورپی ممالک و دیگر ایٹمی قوتیں کورونا کے آگے بے بس ہیں، ان کے مہلک ہتھیار، ایٹم بم سمیت دھرے کے دھرے ہیں اور امریکا میں ایک لاکھ 10 ہزار انسان کورونا کی نذر ہو گئے ہیں۔ پوری دنیا میں کورونا سے ہلاکتیں چار لاکھ سے زائد ہو چکی ہیں، سب دبک کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ باہر چاروں اور ہوا میں موت پھر رہی ہے، اگر کوئی بہت ہی ضروری کام ہے تو ماسک لگا کر، دستانے (ربڑ کے) پہن کر باہر نکلیں اور کام کر کے فوری واپس آئیں، مگر اس کورونا سے بھی بہت سے لوگ دہلے نہیں! ان کی مکروہ حرکتیں جاری ہیں۔
اللہ، رسول، قرآن، انجیل، گرنتھ صاحب، توریت، زبور، رامائن، گیتا، بدھا، مسجد، گرجا، دیوار گریہ، مندر، گوردوارہ، آشرم سب ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھی آئے مگر انسان، انسان نہیں بنا۔ روز پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، دیکھتے ہیں مگر عمل کرنے پر تیار نہیں۔ ہم ایک دوسرے کو جینے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ کشمیری اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں، مگر ہندوستان کے حکمران کہتے ہیں کہ "ہماری مرضی کے مطابق جیو، اسلام چھوڑ دو، ہندو ہو جاؤ، کشمیر میں حشر برپا ہے گھر گھر میں۔
لگتا ہے جارج فلوئیڈ کی موت رنگ لائے گی وزیر دفاع امریکا کے بعد فوج کے کمانڈر انچیف نے بھی فوجی مداخلت سے انکار کر دیا ہے اور وائٹ ہاؤس پر متعین فوجیوں سے بھی بندوقیں واپس لے لی ہیں۔ سابق صدر اوباما بھی بول پڑا ہے "امریکا میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔" امریکا و یورپ کے بہت سے مظاہرے دنیا دیکھ چکی ہے۔ لاکھوں انسان ظلم کے خلاف احتجاج کرتے نظر آئے ہیں۔ لگتا ہے کہ دنیا میں آزادی کی بہت بڑی تبدیلی آنے کو تیار ہے۔ حبیب جالبؔ نے بہت پہلے پیش گوئی کی تھی:
لہو روئیں گی مغرب کی فضائیں
بڑی تیزی سے سورج ڈھل رہا ہے
جس بے دردی سے جارج کو مارا گیا ہے اس واقعے سے دنیا بھر میں غم اور افسوس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تو امریکا اور یورپ کے عوام اس قتل پر سراپا احتجاج کیوں نہ ہوتے۔
اب بڑی طاقتوں والے ممالک کو ان کے عوام ہی سدھاریں گے۔ ہندوستان میں بھی ہندو نوجوان لڑکے، لڑکیاں خصوصاً سکھ، عیسائی اور مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ مل کر اپنی فاشسٹ حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ جالبؔ اور فیضؔ کی نظموں کی گونج احتجاجی جلسوں، جلوسوں میں سنائی دے رہی ہے۔
"اور کچھ دیر۔۔۔۔ کوئی بات نہیں " یہ مذہبی، نسلی، علاقائی منافرت کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔ گھمنڈ کس بات کا! غرور، تکبر کیسا! یہ دیکھ لو، ایک ایسا وائرس آیا ہے، جو نظر ہی نہیں آتا۔ پوری دنیا کی ہواؤں میں گھوم رہا ہے اور موقع ملتے ہی اپنے ٹارگٹ کو دھر لیتا ہے۔ پھر اللہ جانے اور بندہ جانے۔ اس کا علاج اس کی دوا پوری دنیا میں نہیں ہے۔
جارج فلوئیڈ، کشمیر، مودی، کورونا، ٹڈی دل، بس! دیکھتے جاؤ بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔