چونکہ ہمارا تعلق حزب اختلاف سے ہے، لہٰذا ہم نے عمران خان کی تقریر کی تعریف نہیں کرنی، چاہے ساری دنیا تعریف میں زمین آسمان ایک کر ڈالے۔ اندرونی اور بیرونی جن خطرات میں ہمارا ملک گھرا ہوا ہے، افسوس کہ اس کی کسی کو فکر نہیں ہے۔
بچے بچیوں کے ساتھ زیادتی اورلاشیں۔ یہ انسانیت سوز سلسلہ نہیں رک رہا، خودکش دھماکے بھی ہو رہے ہیں " برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر " ادھر مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا سے بھی آگے بات جاچکی اور ادھر آزاد کشمیر کو زلزلے نے ہلا کر رکھ دیا، دونوں طرف کشمیری سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔
لوگ کھلی جگہوں پر خیمے لگائے بیٹھے ہیں، زلزلے کے بعد کے جھٹکوں نے خوف پھیلا رکھا ہے، اوپر سے بارش بھی ہو رہی ہے۔ یہ ساری آزمائشیں ہیں جن میں کشمیری مبتلا ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی دلیرانہ تقریر نے کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم کا کام کیا ہے تو یہ ہمارے حزب اختلاف کے سیاستدانوں سے ذرا بھی برداشت نہیں ہو رہا۔ یہ حالات کی نزاکت کی بھی ذرہ برابر پرواہ نہیں کر رہے اور عمران خان کی تقریر میں کیڑے نکال رہے ہیں۔
میں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے آج تک عمران خان کی تعریف میں کچھ نہیں لکھا، تخت پر بیٹھے حاکموں کی مدح سرائی، ہمارے گھر کی تربیت نہیں ہے، آج تک پاکستان کو وہ رہنما ملا ہی نہیں جو عوام کے دکھ درد کو سمجھے اور ان کا حل نکالے۔ عمران خان کا سفر ابھی جاری ہے اس کے بارے میں کسی بھی طرح کی کوئی بھی تعریف نہیں کرسکتا، ہاں ! اگر اس نے صدیوں سے محروم اور بسے ہوئے غریب عوام کے لیے کچھ بہتری کا عمل کر دکھایا، تو میں پھر اس کی مدح سرائی ضرور کروں گا۔ اس وقت تو اقوام متحدہ میں عمران خان کا فی البدیہہ خطاب جس طرح دنیا بھر نے سنا ہے، دیکھا ہے اس پر پوری دنیا نے عمران خان کی تعریف کی ہے اور میں بھی دنیا کے ساتھ اس تقریر کے سحر میں مبتلا ہوں۔ عمران خان کی فی البدیہہ تقریر کا ایک ایک لفظ اس کے دل کی آواز بن بن کر زبان پر آرہا تھا، بقول شاعر:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر امریکا سمیت پوری دنیا کے ممالک اور سمیت اسلامی ممالک کو جس جرأت و بے باکی سے عمران خان نے آئینہ دکھایا ہے وہ "تاریخ آزادی انسان" میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے گا۔ جس طرح ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے غرور و تکبر میں ڈوب کر کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور امریکی صدر ٹرمپ بھی مودی کے ہاتھ میں ہاتھ دیے اسٹیج پر گھوم رہے تھے۔ اس غرور و تکبر کو عمران خان کی طوفانی تقریر اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ مودی کے لیے ایسے ہی منہ توڑ جواب کی ضرورت تھی جو اسے مل گیا اور امریکا کو بھی اپنا پالیسی بیان جاری کرنا پڑا کہ انڈیا فوری طور پر مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھائے، تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور گفتگو کا سلسلہ بحال کرے۔
کشمیر کی آزادی کے حوالے سے صورتحال یہ بن گئی ہے " ابھی ورنہ کبھی نہیں " اب فیصلہ ہی ہوگا، 70 سال سے جو قرارداد اقوام متحدہ میں سرد خانے کا شکار رہی ہے، عمران خان نے یہ کہا ہے کہ "1945 میں قائم ہونے والی اقوام متحدہ کو اب اپنی قرارداد کشمیر پر عمل درآمد کروانا ہوگا۔ " عمران خان کے خطاب کے بعد ہندوستان میں بھی ایک خاموشی، ایک سناٹا سا چھا گیا ہے، چین، ترکی، ملائیشیا نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے "اقتصادیات یا انسانیت" فیصلہ دنیا کو کرنا ہوگا" عمران خان نے چھا جانے والے انداز میں کہا "دو ایٹمی ملکوں میں جنگ ہوئی تو یہ دونوں ممالک کی سرحدوں سے نکل جائے گی" یہ دھمکی نہیں! وارننگ ہے" عمران خان نے کہا "مجھ سے سات گنا بڑے ملک کو ہی بہت زیادہ سوچنا ہوگا۔ "
عمران خان کی تاریخی تقریر "لمحہ موجود" کا نتیجہ تھی۔ مودی نے 2002 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا، ہندوستان بھر میں نفرت کو فروغ دیا، خصوصاً مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنایا۔ مودی کا یہ انسانیت سوز پلان آج بھی جاری ہے اور مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ مسلمان گزشتہ دو ماہ سے گھروں تک محدود ہیں۔ پوری وادی میں کرفیو لگا ہوا ہے۔
سوا ارب آبادی کے ہندوستان میں کروڑوں انسان ایسے بھی ہیں جو اس ظلم و بربریت کے خلاف ہیں اور مودی حکومت سے نفرت کرتے ہیں، عمران خان نے ہندوستان کے امن و انسانیت پسند انسانوں کو بھی جھنجھوڑا ہے۔ اور عمران خان کے دل کی آواز نے ان کروڑوں ہندوستانیوں کو سوچنے پر مجبورکردیا ہے اور میں نے بھی یوٹیوب پر ہندوستان کے امن پسند لوگوں کی باتیں سنی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ "چار دن رات کے لیے خود کو اپنے گھر میں قید کرکے دیکھو اور پھر ان کشمیریوں کے بارے میں سوچو کہ جو 46 دن سے اپنے گھروں میں بند پڑے ہیں اور گھروں کے باہر سڑکوں پر بندوق بردار فوجی موجود ہیں۔
عمران خان کی تقریر نے ہندوستان میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔ اور آیندہ دو تین روز میں امن پسند ہندوستانی بھی سڑکوں پر ہوں گے (یاد رہے کہ جن پروفیسر صاحب نے طلبا و طالبات کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا، یوٹیوب پر ان ہندو پروفیسر صاحب کا بیانیہ سنا جاسکتا ہے۔ اس وقت تک مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگے 46 دن ہوئے تھے)۔ عمران خان نے اقوام متحدہ پر بھی سوال اٹھا دیا ہے۔
1945 میں اقوام متحدہ کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا کہ دنیا میں جنگیں نہ ہوں، اب یہ اقوام متحدہ کو سوچنا ہوگا کہ اس کی منظور کردہ قرارداد کشمیر گزشتہ 70 سال سے کیوں التوا کا شکار ہے" اقوام متحدہ پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اب وہ وقت آخر کار آ ہی گیا کہ جب تمام دنیا کے حل طلب مسئلوں کو حل کرنا پڑے گا۔
ہانگ کانگ جل رہا ہے، دنیا بھر میں دہشت گرد کھلے عام کارروائیاں کررہے ہیں غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی اشرافیہ منی لانڈرنگ کے ذریعے، سرمایہ امیر ملکوں میں منتقل کردیتی ہے۔ اور اس لوٹ مار کے پیسے کو غریب ممالک واپس لانے میں ظالمانہ قوانین کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ غریب ملک مزید قرضوں تلے دب کر رہ جاتا ہے، ضرورت ہے کہ منی لانڈرنگ کے سرمائے کو باآسانی واپس لانے کے راستے میں حائل قوانین کو تبدیل کیا جائے۔ " عمران خان کی تاریخی تقریر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمران نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اب کہانی شروع ہوگی۔
جالب کی نمایندہ نظم "دستور" میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی میں بھی گونج رہی ہے اور وقت آگیا ہے "ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو" اب کوئی نہیں مانے گا، اب ہر چہرہ "منصور" کا چہرہ ہے۔ اب تختہ دار کا خوف ختم ہوگیا، اب کوئی زنداں کی دیوار سے نہیں ڈرے گا، ظالموں! تم نے صدیوں، انسانوں کا سکون لوٹا ہے، مگر اب تم ایسا نہیں کر پاؤ گے، کیونکہ اب تمہارا یوم حساب آن پہنچا ہے، اے ظالمو! اگر کوئی اب بھی تمہیں "چارہ گر" مانتا ہے تو مانتا پھرے، مگر دنیا بھر کے مظلوم نہیں مانیں گے۔ "تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر، میں نہیں منتا، میں نہیں جانتا"
میں یہاں محمد شہباز شریف کا بیان بھی دہراتے ہوئے خود میں بہت طاقت محسوس کر رہا ہوں، یہی جذبہ زندہ و پایندہ قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ شہباز شریف نے کہا "مودی خبردار! کشمیر پر حکومت اور اپوزیشن متحد ہیں۔ مظلوم کشمیریوں کی سیاسی اور سفارتی حمایت کا ہمارا جذبہ غیر متزلزل ہے۔ مودی! اس حوالے سے کوئی غلطی نہیں کرنا۔ ہم ذمے دار جوہری ریاست ہیں۔ دنیا فاشسٹ مودی سے خبردار رہے۔ ہماری افواج نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ہے۔ " خوش رہو شہباز شریف۔