بڑی تیزی سے میری دنیا خالی ہوتی جا رہی ہے۔ ہر ایک کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں، حالانکہ نظریات، خیالات کا اختلاف رہتا ہے۔ مگر بندے کے رنگ ڈھنگ، میل ملاپ، بات چیت اور سب سے بڑھ کر اپنے نقطہ نظر پر پورے ایقان کے ساتھ پکے پیریں کھڑے رہنا، مشاہد اللہ خان انھی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔
ایک راستہ پکڑا، ایک جماعت چنی، پھر اچھا برا وقت، اسی راستے، اسی جماعت کے ساتھ گزارا۔ کہتے ہیں بندے کی پہچان اس وقت ہوتی ہے جب کڑا وقت آئے، تو وہ ساتھ نہ چھوڑے۔ مشاہد اللہ خان نے ایک جماعت مسلم لیگ (ن) پکڑی اور آخری سانس بھی اسی جماعت کے ساتھ لیا، وہ ان لوگوں میں شامل تھے اور رہیں گے کہ جن کے اپنے ہی نہیں غیر بھی معترف تھے۔ مشاہد اللہ خان نے اپنے سیاسی سفر میں مصلحتوں کو ہمیشہ رد کیا، جس بات کو صحیح سمجھا اسے کھل کر کہا، سچ بولنا، چہروں سے نقاب الٹنا، دیوانوں کا ہی شیوہ رہا ہے۔
سچ کہنے کی پاداش میں وزارت بھی چھنی، خطرات نے بھی گھیرا ڈالا، مگر ڈر، خوف، گھبراہٹ کا نام و نشان نہیں تھا۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا "جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے، یہی خطا کل سبھی کریں گے" اور یہ بھی انھی کا کہنا تھا کہ "شعار صادق پہ ہم ہیں نازاں، جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے" پارلیمنٹ میں ان کی مدلل گفتگو اور اپنے خیالات کو بڑھاوا دیتے ہوئے شعروں کا انتخاب وہ بولتے تو ان کے چہرے پر یقین کی چمک نمایاں نظر آتی۔ انھیں بلامبالغہ سیکڑوں اشعار یاد تھے، موقع محل کے مطابق، اشعار ان کے ذہن میں آکر زبان پر اتر آتے اور ادا ہو جاتے۔
مشاہد اللہ خان کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہے اور تین بار قومی اسمبلی کا الیکشن بھی اسی "شہر جمہور" یعنی کراچی سے لڑا، اور ان کے حلقہ انتخاب میں ہی میرا ووٹ بھی درج تھا۔ مشاہد اللہ خان کے حلقے میں غریب آبادیاں زیادہ تھیں۔ محمود آباد، منظور کالونی، اعظم بستی، کالا پل، بلوچ کالونی، عمر کالونی، جٹ لائن، جیکب لائن، اے بی سینیا لائن اور پی ای سی ایچ ایس کا متمول علاقہ۔ کراچی میں مشاہد اللہ خان ایسے رواں دواں رہے کہ لوگ انھیں کراچی والا سمجھتے تھے۔ میں انھیں خوب جانتا تھا، ان کی خبریں، ٹی وی پر ان کی سیاسی مصروفیات، مگر بالمشافہ ملاقات کلفٹن کراچی میں ایک سیاسی تقریب میں ہوئی۔
جاوید ہاشمی گستاخی کے مرتکب ہو کر جیل کاٹ رہے تھے، ان کی بیٹی باپ کے لیے میدان سنبھالے ہوئے تھی۔ ہاشمی صاحب کی بیٹی کے اعزاز میں تقریب تھی۔ مشاہد اللہ خان بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ جاوید ہاشمی کی شخصیت، پھر "گستاخی" کی پاداش میں جیل۔ یوں تقریب خاصی بھرپور تھی، اسیر زنداں کی بیٹی بھی آئی ہوئی تھی۔ کراچی کی سیاسی قوتیں موجود تھیں، صحافی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ میری مشاہد اللہ خان سے پہلی بالمشافہ ملاقات میرے لیے یادگار بن گئی۔
اپنے خطاب کے دوران مشاہد اللہ خان نے حبیب جالب کا کلام بہت دیر تک سنایا اور جالب صاحب کی رومانی شاعری بھی سنائی۔ پوری پوری نظمیں انھیں زبانی یاد تھیں۔ میں سن رہا تھا اور خوش ہو رہا تھا اور اس روز یہ بھی ہوا کہ میرا یہ زعم ٹوٹ گیا کہ جالب صاحب کا کلام صرف مجھے ازبر ہے، بخدا جو رومانی نظمیں مشاہد اللہ خان سنا رہے تھے وہ تو مجھے بالکل بھی ازبر نہ تھیں۔ تقریب ختم ہوئی تو میں مشاہد اللہ خان سے ملا۔ کسی صحافی نے مشاہد اللہ سے کہا "یہ حبیب جالب کے چھوٹے بھائی ہیں " مشاہد اللہ نے مجھے گلے لگا لیا۔
مشاہد اللہ خان کی بیماری کا تو ایسا اتا پتا نہیں تھا، یوں اچانک خبر آگئی کہ "مشاہد اللہ خان انتقال کرگئے" اب جانے والا تو چلا گیا۔ یاد نہیں آ رہا کس شاعر کا شعر ہے کہ:
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
مجھے 2004 یاد آ رہا ہے۔ 30 اپریل 2009 پریس کلب کراچی حبیب جالب امن ایوارڈ کی تقریب تھی۔ سال 2009 کا جالب امن ایوارڈ عبدالستار ایدھی صاحب کو دیا جا رہا تھا۔ مشاہد اللہ خان بھی اسلام آباد سے آئے۔ اس روز کراچی شہر کا یہ حال تھا کہ پورا شہر دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوا تھا، ایک رات پہلے سے ہی مورچہ بند گروہ فائرنگ کر رہے تھے، لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے مگر جالب امن ایوارڈ کا جلسہ ملتوی نہیں کیا گیا۔
سڑکیں سنسان تھیں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ تھی یا ایمبولینسوں کے سائرن تھے۔ ان حالات میں حبیب جالب امن ایوارڈ کا بھرپور جلسہ ہوا۔ عبدالستار ایدھی صاحب موجود تھے۔ صدر جلسہ فخر الدین جی ابراہیم، میر حاصل بزنجو، رضا ربانی، ممنون حسین، منیر اے ملک، عثمان بلوچ، بیرسٹر صبغت اللہ قادری (لندن)، ناصر جالب، منظور رضی و دیگر۔ شہر کے خراب حالات کے باوجود پنڈال بھرا ہوا تھا۔ بس یہ میری آخری بالمشافہ ملاقات تھی مگر بقول عبید اللہ علیم:
آنکھ سے دور سہی، دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تُو ہمیں یاد بہت آئے گا
نظریاتی اختلاف کے باوجود مشاہد اللہ خان کی باتیں دل کو لگتی تھیں، اس کا چہرہ، آنکھوں کی چمک بتاتی تھی کہ وہ جو بھی کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔ ان حالات میں مشاہد اللہ کا جانا واقعی بہت بڑا قومی نقصان ہے۔ پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پورا برصغیر خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے میں مشاہد اللہ خان جیسے حق گو و بے باک کا چلے جانا، بہت بڑا سانحہ ہے۔ سب دیکھ رہے تھے کہ مخالفین مشاہد اللہ خان کے خلاف الزام لگا رہے تھے، مگر آج تک ثبوت کوئی نہیں دے رہا تھا۔
مشاہد اللہ ایک ایسا شخص تھا، ایسا سیاسی کارکن تھا کہ پارٹی کے بڑے عہدے والے بھی وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ کر سکے جو مشاہد اللہ کو حاصل رہا۔ عوام مشاہد اللہ خان کو کبھی بھی بھلا نہ پائیں گے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے جالب نے کہا تھا:
خاک میں مل گئے نگینے لوگ