دو ماہ سے کچھ نہیں لکھا گیا۔ لکھتا بھی کیا! جوکچھ بیتا، اس پرکیا لکھتا! نہیں لکھا گیا۔ کراچی ڈوب گیا، یہ شہر تباہ تو پہلے ہی ہوچکا تھا اور پھر یہ ہوا کہ طوفانی بارشوں نے سارا شہر ڈبو دیا۔ امیر غریب کوئی نہ بچا سرجانی ٹاؤن سے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی تک سارے گھروں میں پانی تھا۔ غریب کے میزکرسی سے لے کر امیروں کے قیمتی فرنیچر سب تباہ ہوگئے۔
حالت یہ ہے کہ تقریباً ایک ماہ بارش کو برسے ہوچکے مگر آج بھی گندا پانی گلیوں میں کھڑا ہے۔ کاروباری حضرات کی دکانوں میں کروڑوں کا سامان برباد ہو گیا، فیکٹریوں میں اربوں روپوں کی مشینیں، سامان تباہ ہوگیا۔ میں دیکھتا رہا، پڑھتا رہا، مگرکچھ نہ لکھ سکا۔ انھی حالات میں میر حاصل بزنجو دنیا چھوڑگئے۔ محض 63 سال کی عمر میں کینسر انھیں لے گیا۔ میرے بہت قریب تھے، حاصل بزنجو۔ میں دوستوں کے تعزیتی کالم پڑھتا، بیانات دیکھتا رہا، مگر میرا قلم خاموش رہا۔
کراچی ڈوب چکا تھا۔ ملک بھر سے مجبور عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی، معصوم بچوں کے ساتھ زیادتیاں، بچوں کی مسخ شدہ لاشیں۔ انھی دہلا دینے والی خبروں، واقعات میں دنیا سے جانے والے دوستوں کے غم گم ہوگئے۔ حاصل بزنجو مسلسل یاد آتے، ان کی صورت سامنے آ جاتی، ان کی آوازکانوں میں گونجنے لگتی، کچھ دیر اسی کیفیت میں گزرتے، پھر درندگی کا شکار بچے، عورتیں، لڑکیاں ذہن پر چھا جاتے اور میں سوچتا رہ جاتا "یہ کیا ہو رہا ہے! یہ کیسے دن آئے ہیں " سیاسی منظرنامہ بھی انتہائی پریشان کن ہے، خوف کا یہ عالم ہے کہ گھروں کے دروازے بند کرکے اندر بیٹھے ہیں اور ڈر رہے ہیں۔
چار دن پہلے 20 ستمبر2020 کی شام قہر بن کر ہمارے خاندان پر نازل ہوئی۔ شام ساڑھے پانچ بجے بھائی حبیب جالب کا بڑا بیٹا ناصر عباس جالب دنیا چھوڑگیا۔ ناصر چند ماہ سے شدید بیمار تھا، اس کے گردے فیل ہوگئے تھے، وہ ڈائیلائسز پرآگیا تھا۔ انتہائی متحرک زندگی گزارنے والا میرا بھتیجا ناصر بیماری اور بے بسی برداشت نہ کرسکا اور اس نے موت کو گلے لگانے میں عافیت سمجھی، اور چلا گیا۔ ناصر کے بارے میں بس اتنا ہی لکھوں گا کہ وہ سادہ لوح، سادہ مزاج انسان تھا اور دنیا والوں نے اس کی سادہ لوحی کو خوب استعمال کیا اور ناصر استعمال ہوتا رہا۔ تیزی، طراریاں، چالاکیاں، ناصر کے مزاج میں نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے نقصانات زیادہ اٹھائے۔ وہ اپنے گھر اور بچوں پر توجہ نہ دے سکا۔ دوستوں اور اپنی سیاسی وابستگیوں میں لگا رہا۔ چالاک لوگ تو فائدے بھی اٹھاتے رہے، مال بناتے رہے اور ناصر بس یوں ہی زندگی گزارگیا۔
لاہور شہر کی ایک مضافاتی کالونی میں 4 مرلے کا دو منزلہ گھر ہے، تین بچیاں اوردو لڑکے ہیں۔ بچوں کی ماں ہے۔ مشتاق مبارک مرحوم (ہمارے سب سے بڑے بھائی) کی بیٹی پسماندگان میں رہ گئے ہیں۔ بڑا بیٹا امر جالب ایم بی اے، ایل ایل ایل بی ہے اور ایک پرائیویٹ بینک میں افسر ہے۔ بڑی بچیاں بھی گریجویٹ ہیں اور جاب کرتی ہے۔ چھوٹا بیٹا بھی پڑھ رہا ہے، چھوٹی بچی بھی پڑھ رہی ہے، باقی اللہ مالک ہے۔
میر حاصل بزنجو دو سال پہلے حبیب جالب امن ایوارڈ کے جلسے میں آئے تھے۔ کامریڈ جام ساقی کو ایوارڈ دیا گیا تھا، تقریب میں جسٹس رشید اے رضوی، محمود شام، جبارخٹک، فیصل ایدھی، عقیل عباس جعفری، مسلم شمیم، ڈاکٹر توصیف احمد، توقیر چغتائی، ناصر منصور، جاوید جبار، عمر بلوچ، ناصر جالب اور تقریب کے منتظم محمد احمد شاہ شامل تھے۔ میر صاحب حبیب جالب صاحب کی یادگاری تقریبات میں اکثر و بیشتر شامل ہوتے تھے۔ میر صاحب سے میری آخری ملاقات پچھلے سال آرٹس کونسل میں ہوئی، وہ ڈاکٹر مبارک علی کے پروگرام میں آئے ہوئے تھے، بالکل ہشاش بشاش تھے۔" گماں تک نہ ہوا، وہ بچھڑنے والا ہے"اور وہ بچھڑ گئے۔
اپنے بھتیجے ناصرکی موت بھی میرے لیے بہت بڑا صدمہ ہے، وہ میری گود میں پلا بڑھا، اس کی باتیں یاد آتی رہیں گی، افسوس کہ وہ "حالات و واقعات" کی نذر ہو گیا۔ ناصر بڑے فخر کے ساتھ کہتا تھا "میں پیپلز پارٹی کا جیالا ہوں " اور وہ اسی منصب پر فائز زندگی گزارگیا۔ اپنے لیڈروں کے لیے، عدالتوں میں جانا، جیلوں میں ملنے جانا کراچی ہر سال آتا تھا، یہاں ناصر کے لیے دل و جان فرش راہ کیے کامریڈ منظور رضی اس کے ساتھ ساتھ ہوتے، یوم مئی کے مزدور جلسوں اور ریلیوں میں بھی وہ شرکت کرتا۔ چالاک، تیز طرار لوگوں نے سمندر پی ڈالے اور لب خشک رہے اور بے چارے ناصرکے نصیب میں رسوائی زیادہ آئی۔ شاعر احمد ریاض کے انتقال پر حبیب جالب نے لکھا تھا حاصل بزنجو اور ناصر کے لیے۔
پہلے ہی اپنا کون تھا اے دوست
اب جو تُو ہو گیا جدا اے دوست
ساتھ کس نے دیا، کسی کا یہاں
ساری دنیا ہے بے وفا اے دوست
تُو جلا شمع کی طرح سرِ بزم
نور تھا میرا ہم نوا اے دوست
کتنی خوش بخت ہے زمیں وہ بھی
اب جو دے گی ترا پتا اے دوست
صبح آئے گی لے کے وہ خورشید
جس پہ تُو ہو گیا، فدا اے دوست