یہ عابد حسین عابد کے شعری مجموعے کا نام ہے اور یہ نام دنیا کی چند بڑی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے۔ پھر مجھے بہادر شاہ ظفر یاد آجاتے ہیں۔ بادشاہ تھے لیکن وہ بھی اس حقیقت کو جان چکے تھے، اسی لیے انھوں نے کہا:
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
پھر مجھے فیض بھی یاد آجاتے ہیں، انھوں نے اپنے انداز میں اسی حقیقت کو شعر بند کیا:
اک فرصت گناہ ملی، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
پروردگار نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ جیسے تین گھنٹے کا پیپر اور بس۔ اصل اور دائمی مقام کہیں اور ہے۔ یہ دنیا محض عارضی ٹھکانہ ہے۔
مجاہد حسین عابد کی شاعری پڑھ کر قدم قدم پر یہ احساس ابھر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ بے ثباتی جاں کو خوب جان گئے تھے۔
پہاڑوں، سبزہ زاروں، بہتے ندی نالوں، میٹھے پانی کے پھوٹتے چشموں کی زمین ہزارہ، ایبٹ آباد میں بچپن لڑکپن جوانی گزری۔ مجاہد حسین عابدکے اندر "بھانبھڑ" پل رہے تھے۔ اسی آگ نے انھیں بے چین کر رکھا تھا۔ گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں داخلے سے پہلے ہی انھوں نے اظہارکا راستہ پکڑ لیا تھا۔ قافیہ ردیف اور بحور سے آزاد اندر کے سلگتے خیالات باہر آنے لگے جنھیں وہ قلم بند کرلیتے اور دوستوں کو سناتے۔ دوست ان کے احساسات و جذبات کو سراہتے۔ مگر ساتھ ساتھ یہ مشورہ بھی دیتے کہ کسی استاد کا ہاتھ پکڑ لو۔ سو قدرت نے سبب پیدا کردیا۔ اورگورنمنٹ کالج ایبٹ آباد۔۔۔۔ ٹھہریے! یہاں میں "اپنی بات" کے عنوان کے تحت لکھی عابد حسین عابد کی تحریر سے مدد لیتا ہوں۔ عابد لکھتے ہیں " گورنمنٹ کالج میں ہی ایک درویش صفت شخصیت آصف ثاقب تھے، جوکہ سائنس ڈپارٹمنٹ میں ہوتے تھے۔ آصف ثاقب نہ صرف بلند پایہ شاعر تھے بلکہ انتہائی شریف النفس اور درویش صفت انسان تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا نام پاکستان کے چند معروف شاعروں میں ہوتا ہے، جو علم عروض سے واقفیت رکھتے ہیں۔ "
عابد حسین عابد درویش صفت شاعر آصف ثاقب کی شاگردی میں آگئے۔ شاعری کے اسرار و رموز کے ساتھ استاد محترم کی درویشانہ صحبت نے بھی خوب رنگ جمایا اور پھر یوں بھی ہوا، یہ خاص واقعہ بھی عابد حسین عابد سے سنیے1974 میں ایبٹ آباد کالج میں آل پاکستان طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے کالج یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے حصہ لیا۔ مشاعرے کی صدارت حبیب جالب صاحب نے کی۔ مقابلے کا پہلا انعام پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کو ملا۔ جب کہ دوسرا انعام مجھے ملا۔ شاعری میں یہ میرا پہلا انعام تھا۔ حبیب جالب صاحب نے میرے اس مصرعے کو بہت سراہا کہ جو میں نے مصرعہ طرح میں گرہ لگائی تھی۔ اپنے صدارتی خطاب میں بھی میرا شعر پڑھا اور خوب داد دی۔ شعر درج ذیل ہے:
وہ تو کہتا تھا پھریں گے دن غریبوں کے مگر
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
درویش صفت استاد کے شاگرد سے درویش صفت صدارت کے تحت ایسے ہی شعر کی توقع کی جاسکتی تھی۔ عابد حسین عابد نے بامقصد شاعری کی ہے۔ محض دل کے بہلانے کا کام نہیں بلکہ دل کے سلگانے کا کام کیا ہے۔ میری عابد صاحب سے پہلی ملاقات کینیڈا کے دارالحکومت میں ہوئی۔ ایک چھوٹے سے ہال میں میرے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام تھا۔ عابد حسین عابد اس محفل میں شرکت کے لیے 110 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے آئے۔ اسی محفل میں انھوں نے مجھے اپنا شعری مجموعہ "میرے پاس وقت نہیں " دیا اور مجھے کتاب دینے سے پہلے کہا "آئیے آپ کے لیے ایک خوبصورت سرپرائز ہے" اور پھر کتاب میں جالب صاحب کا مذکورہ صدارتی واقعہ دکھایا۔ اب میں عابد حسین عابد کے چند اشعار قلم بند کروں گا، جن کا میں نے انتخاب کیا:
سایہ بن کے ساتھ نبھاؤ
ورنہ تم بھی ڈھل ہی جاؤ
…٭…
طوفاں سا اٹھ رہا ہے، سمندر میں اس لیے
موجوں نے دیکھ لی ہے، کناروں کی زندگی
…٭…
کیسے گزری ہے زیست عابد کی
ہر گھڑی انتظار سے پوچھو
…٭…
وہ ماہتاب جو نکلا تھا، منہ چھپا کے گیا
کچھ ایسے رات لٹا، قافلہ ستاروں کا
…٭…
آخری خط جو تصور میں لکھا تھا تجھ کو
ہم سے اس خط کو میری جان جلایا نہ گیا
کیسے گزرا ہے سفر آج تلک سوچتا ہوں
بوجھ جو سر پہ اٹھایا وہ گرایا نہ گیا
…٭…
کچھ تو اداس رہنے کا تھا مشغلہ یہی
کچھ زندگی نے بھی مجھے ایسا بنا دیا
…٭…
ہر ایک آنکھ میں عابدؔ ہے آنسوؤں کی بہار
تمہاری موت بڑی یادگار گزری ہے
…٭…
کیا گلا اس کی جفاؤں کا کرے گا عابدؔ
اس جہاں میں نہیں ہوتا ہے کسی کا کوئی
…٭…
نہ کریدو یہ خاک خطرہ ہے
اس میں پوشیدہ کچھ شرارے ہیں
…٭…
اس گھڑی کو ذرا گزرنے دو
آسماں کو زمیں سے ملنے دو
…٭…
کئی ہاتھوں میں سنگ تھے، میں تھا
یہ محبت میں تھا، صلہ پایا
…٭…
ان کے سائے کے سوا، کچھ اورکیا مانگوں پناہ
آتے جاتے بادلوں کا آسرا ہوتا نہیں
…٭…
کبھی پیکر تمنا، کبھی بے نیاز غم سے
کبھی "ہاں " سے مضطرب ہوں، کبھی پرسکوں "نہیں " سے
جہاں تک نظموں کا سوال ہے ان کے عنوانات میں ہی مکمل پیغام ہیں کہ جو آگاہی دیتے ہیں کہ "زندگی کیسے بسر ہو" عنوانات تحریر کررہا ہوں۔ وقت، انتظار، زرد پتا، آئو پھر مل کے اک شہر بسائیں ایسا، ایک لمحے کا سفر فارم ہائوس اور محل یہ تیرے رہ جائیں گے دنیا میں۔
اس دعا کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ عابد حسین عابد کا قلم یونہی رواں دواں رہے۔ زخموں پر مرہم رکھتے رہیں۔ جابل کے اس مصرعے کے ساتھ اجازت۔
دینا پڑے کچھ بھی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا