Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tehran Hogar e Aalam Mashriq Ka Geneva

Tehran Hogar e Aalam Mashriq Ka Geneva

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ایسا نہیں ہے "رحم دل نہیں ہوتا" پوری دنیا کو ایک نظر نہ آنے والے جراثیم نے گھیر رکھا ہے۔"کورونا" اب تک لاکھوں انسانوں کو متاثر کر چکا ہے اور مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اندازاً دو لاکھ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں کورونا کی ہولناکیاں ہنوز جاری ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان گنتی کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کورونا سے بہت کم انسانی جانیں موت کا شکار ہوئی ہیں۔ اللہ کی اللہ ہی جانے، ورنہ ہم پاکستان میں رہنے، بسنے والے بائیس کروڑ انسان کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے۔"گند" پورے ملک میں پھیلا ہے اور گند میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کوئی پرسان حال ہو تو کہوں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ لاہور میں علامہ خادم حسین رضوی کا نماز جنازہ ہوا۔ میں بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، ابھی جنازہ مینار پاکستان کی طرف روانہ نہیں ہوا تھا اور میں نے اپنے بیٹوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ سمندر کی طرح اس اجتماع کا دوسرا سرا نظر نہیں آ رہا تھا، واقعی لاکھوں انسان تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ یہ نظارہ پورے دن جاری رہا۔ گزشتہ روز داتا دربار میں قل شریف اور قرآن خوانی ہوئی۔

پی ڈی ایم کے جلسے اس کے علاوہ ہوئے۔ گوجرانوالہ، کوئٹہ، کراچی، پشاور، مانسہرہ، سونے پر سہاگہ گلگت بلتستان کا الیکشن ہوا، وہاں بھی بڑے بھرپور سیاسی جلسے ہوئے، حکومتی جماعتوں نے بھی بڑے بڑے جلسے کیے۔"کورونا" کسی کو یاد نہیں تھا، سب "بے رحمی" پر اترے ہوئے تھے۔ تمام سیاسی سربراہ اور مشہور سیاستدان جلوہ افروز تھے۔ اللہ اللہ کرکے یہ سیاسی دنگل ختم ہوا، تو الیکشن کے نتائج پر احتجاج شروع ہو گیا۔

یہ سیاستدان ہیں حکومت اور اپوزیشن کسی کو انسانوں پر رحم نہیں آیا۔ ہمارے پاکستان میں بھوک بہت ہے، پیاس بہت ہے، بھوک اور پیاس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جا رہا۔ سندھ کا حال یہ ہے کہ جو نیلے، زرد، یا کالے کپڑے پہنے ہوئے ہے وہ غریب سندھی ہے اور کڑکڑ کرتے کلف لگے سفید کپڑے پہنے ہے، وہ زمیندار، وڈیرا یا شوگر مل کا مالک ہے۔ غریب سندھی مر رہے ہیں اور سندھی سیاست دان محلوں میں سونے، چاندی کے ڈھیروں پر بیٹھے کھا اور پی رہے ہیں۔ یہی حال پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کا ہے۔

عمران خان تحریک انصاف کے نام کے ساتھ آیا عوام نے بہت عزت احترام اور پیار کے ساتھ ان پر اعتماد و اعتبار کیا، مگر عمران کے امتحانی پرچے کا تقریباً آدھا وقت گزر گیا ہے اور ابھی آدھا پرچہ بھی حل نہیں ہوا۔ کیا باقی آدھے وقت میں پورا پرچہ حل ہو جائے گا؟ یہ سوال ہے جس کا جواب مشکل نظر آنے لگا ہے۔ اس بار اگر عوام کے ساتھ دھوکا ہوا تو ریاست یہ دھوکا برداشت نہیں کر سکے گی۔ جہانگیر ترین وطن واپس آگئے مگر اب تک کچھ بھی نہیں ہوا، اگر کچھ نہ ہوا تو بہت برا ہوگا۔ اب تو ملک داؤ پر لگا ہوا ہے۔

سرحدوں پر انڈیا کی فوجیں روزانہ ہمارے سرحد پار آباد شہریوں کو مار رہی ہیں اور ہم روزانہ انڈین سفارت کار کو احتجاجی مراسلہ پکڑا دیتے ہیں۔ افغانستان میں خلفشار کم ہونے میں نہیں آ رہا، بلوچستان میں بھی دشمن کے ایجنٹ گھسے ہوئے ہیں، آئے دن وہاں دھماکے ہوتے رہتے ہیں اور ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ عوام بھی تحریکیں چلا چلا کر تھک ہار چکے ہیں۔ ایڈ کی گندم کھا کر بڑے دھوکے کھا چکے ہیں۔ مسلم امہ کا بھی کردار کمزور ہے۔ یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا۔ یہاں کے عوام اسلام پر کٹ مرنے کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔

ان حالات میں ہمارے سیاستدانوں کو اسرائیل، ہندوستان گٹھ جوڑ پر سنجیدگی سے سوچنا اور مل بیٹھنا ہوگا۔ ایران، ترکی، ملائیشیا کے خیالات و رجحانات پرو اسلامی ہیں۔ چین کو بھی ہماری اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو ساتھ رکھنا ہے، یہاں ہندوستان کے اثر و رسوخ پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ دنیا میں نئے اکٹھ بن رہے ہیں۔ امریکا، امریکیوں کا ہے، بارک اوباما ہو یا ٹرمپ ہو، یا اب جوبائیڈن ہو۔ یہ اول آخر امریکی ہیں۔ بہت پہلے حبیب جالب نے کہہ دیا تھا:

میکملن تیرا نہ ہوا تو کینیڈی جب تیرا ہے

اب ہمیں بھی پاکستانی بن کر پاکستان کا مفاد دیکھنا ہوگا۔ سات سمندر پار کے چھٹے بیڑے والے امریکا کے بجائے اپنے ہمسائیوں سے تعلقات استوار کرنے ہوں گے، وہ ممالک جن سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں ان کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہوں گے۔ عظیم روس، عظیم چین کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ سی پیک کی تکلیف اسی لیے تو ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ ادھر ایران سے بھی ہمیں ہر حال میں ساتھ رہنا ہے۔ ایران بہت غیرت مند ملک ہے۔ علامہ اقبال یہ کہہ کر گئے ہیں:

طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

دیکھ رہے ہیں علامہ اقبال کی نگاہِ بیش بہا میں ایران کی کیا قدر و منزلت ہے۔ یہیں پر بات ختم کرتا ہوں۔