نیا سال 2020ء شروع ہو چکا ہے۔ دو جنوری بروز منگل، روزنامہ ایکسپریس کے صفحہ اول (فرنٹ پیج) پر 6×4 انچ کی رنگین تصویر شایع ہوئی ہے۔ ایک لڑکی نے ایک سفید کپڑے کا بینر اوڑھ رکھا ہے جس پر سیاہ رنگ سے چار مصرعے لکھے ہوئے ہیں "ظلم کی بات کو/جہل کی رات کو/میں نہیں مانتا/میں نہیں جانتا۔" تصویر کے نیچے کیپشن لکھا ہے "بھارتی لڑکی نے متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج کے دوران حبیب جالبؔ کی نظم "میں نہیں مانتا" کا بینر اوڑھ رکھا ہے۔
اخبارکے صفحہ اول پر ہی دوکالمی خبر شایع ہوئی ہے جس کی سرخی ہے "میں نہیں مانتا" جالبؔ کی نظم بھارتی مظاہرین کا ترانہ بن گئی۔ فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ اور علامہ اقبال کا مزاحمتی کلام احتجاجی پوسٹرز کا حصہ، تیسری سرخی جالبؔ کی نظم میں وہ ساری باتیں ہیں، جو کسی جمہوری فرد کو نہیں ماننی چاہیئیں، گوہرؔ رضا"۔
یہ تو تھا اخباری بیان، میرے بچوں نے مجھے وہ ویڈیوز بھی دکھائیں، جس میں پانچ نوجوان طلبا گٹار، کی بورڈ اور ڈرم وغیرہ کے ساتھ جالبؔ کی نظم "دستور" گا (ریکارڈ شدہ) رہے ہیں۔ بس یہ بات قصداً لکھ رہا ہوں کہ اسکرین پر میں نے ان نوجوانوں کے نام دیکھے، پڑھے۔ یہ نوجوان ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ بات ثابت کرتی ہے، سچائی کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی سرحدیں ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کے سچ لکھنے والے پوری دھرتی کے ترجمان ہیں، ظلم کے خلاف ہیں اور مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا بھارتی پارلیمنٹ میں بھی جالبؔ کا کلام پڑھا جا رہا تھا، ایک ممبر پارلیمنٹ نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے جالبؔ کا یہ شعر بھی پڑھا:
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
جالبؔ نے یہ شعر جنرل ایوب خان کی معزولی کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل یحییٰ خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا اور دس سالہ بندش کے بعد جشن مری کے مشاعرے میں پڑھا تھا، جہاں ہال میں جنرل یحییٰ خان کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ مشاعرے کی صدارت فیض احمد فیضؔ کر رہے تھے۔
جالبؔ نے کلام سنانے سے پہلے کہا "آج میں ایک شاعر کی صدارت میں مشاعرہ پڑھ رہا ہوں اور آج میری تمام آزادیاں بحال ہیں " پھر جالبؔ بولے "فیض صاحب اکثر مجھے کہتے ہیں "اوئے غزل پڑھ، اوئے غزل پڑھ" تو آج میں تازہ غزل سناؤں گا اور میری ہال میں لگی ہوئی نئے حاکم کی تصویر ہے، اس پر فیضؔ صاحب نے ساتھ بیٹھے ڈپٹی کمشنر سے کہا " لے بھئی آ گیا تیرا دشمن " یاد رہے کہ جشن مری کے مشاعرے میں "دستور" سنانے پر جالبؔ صاحب پر پابندی لگی اور دس سالہ بندش کے بعد جالبؔ نے "تم سے پہلے" سنا کر وہیں سے ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑا اور آج یہ دونوں کلام انڈیا کی سڑکوں پر گونج رہے ہیں۔
جالبؔ کی یہ مقبولیت عوام کا پیار یہ سب اچانک آسمان سے نازل نہیں ہوا۔ حبیب جالبؔ نے اپنے پیش روؤں کی طرح حق و سچ کی راہوں میں بڑی صعوبتیں برداشت کی ہیں اور یہ صعوبتیں برداشت کرنے کی ہمت و طاقت انھیں قدرت نے عطا کی تھی اور یہ طاقت جالبؔ کو کیوں دی گئی۔ آئیے میں جالبؔ کی زندگی کا ایک واقعہ قارئین کو سناتا ہوں۔ اس واقعے کے راوی ہمارے والد محترم صوفی عنایت اللہ ہیں۔
والد صاحب اپنی کتاب "ارمغان صوفی" (مطبوعہ 2015ء) کے صفحہ نمبر 535 پر بعنوان "حبیب احمد جالبؔ کے بارے میں دعائیہ پیش گوئیاں " لکھتے ہیں۔"قصبہ ٹانڈہ، ضلع ہوشیارپور، مشرقی پنجاب انڈیا میں ایک بزرگ حضرت پیر افضل جی کی درگاہ تھی۔ اس درگاہ پر ایک درویش بابا دولے شاہ کا مستقل قیام تھا، بابا جی درگاہ کے خدمت گزار تھے، ظاہری نظر آنے والے عام، معمولی فقیر حقیقتاً اللہ کے بہت ہی پیارے بندے تھے۔
میرے بڑے بیٹے مشتاق حسین کا میٹرک کا نتیجہ اگلے روز نکلنے والا تھا، میں درگاہ کے احاطے میں فکر مند بیٹھا تھا، مشتاق گزشتہ سال فیل ہو گیا تھا۔ میٹرک کا نتیجہ لاہور سے نکلنا تھا اور کل کے اخبارات میں شایع ہونا تھا، اخبار صبح جالندھر سے آنے والی ٹرین سے ٹانڈہ پہنچنا تھا۔ یہ ایک دن گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔
ایسے نازک حالات میں میرے والد صاحب میاں جی شرف الدین گاؤں میانی سے ٹانڈہ تشریف لے آئے اور مجھ سے کہا کہ فوراً تیار ہو جاؤ، تم کو ابھی میرے ساتھ پیر دیوان شاہ کے منعقدہ عرس میں نیاز مندانہ حاضری دینی ہے۔ والد صاحب کی بات سن کر میں نے ان سے کہا کہ کل مشتاق کا میٹرک کا نتیجہ آ رہا ہے، ہم دونوں میاں بیوی شدید پریشان ہیں، بچہ پچھلے سال فیل ہو گیا تھا، میں ان حالات میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا۔ ہم دونوں باپ بیٹے کی تکرار بڑھی، بابا دولے شاہ سن رہے تھے، والد صاحب کا اصرار، میرا مسلسل انکار۔ بابا دولے شاہ ہاتھ میں جھاڑو لیے درگاہ کی صفائی کر رہے تھے، بابا جی نے گھور کر مجھے دیکھا اور بولے "اوئے عنایت! کیوں بار بار باپ کو انکار کر رہا ہے؟ اپنے باپ کا کہا مان اور اس کے ساتھ چلا جا۔" بابا جی میرے ہم عمر تھے اور بے تکلف دوست بھی تھے۔
میں ان کی بات سن کر غصے میں آگ بگولہ ہو گیا، اور میں نے بابا جی سے اسی کیفیت میں "اوئے بابے! تم رہنے دو، اور خاموشی سے درگاہ میں جھاڑو لگاؤ۔ تمہیں حالات کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں!" یہ کہہ کر میں سر جھکائے فکر مند سا بیٹھا تھا کہ بابا دولے شاہ بولے "اوئے عنایت! تو ہم کو کہتا ہے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں! اوئے! تو سن۔۔۔۔ ہم نے تیرے بچے کو پاس کر دیا" میں پھر بابا جی کی کیفیت سے بے خبر بولا "بابا جی! نتیجہ لاہور یونیورسٹی سے نکلنا ہے" میرا اتنا کہنا تھا کہ بابا جی غضب ناک ہو گئے اور بولے "اوئے ہم لاہور یونیورسٹی کے مالک ہیں " یہ کہہ کر بابا جی نے مزار حضرت افضل جی کی طرف اشارہ کر کے انتہائی جذب کے عالم میں کہا "رب دی سوں (خدا کی قسم) ہم یوں ہی فقیر نہیں ہوئے۔
اگر میرا بیٹا پاس نہ ہوا تو اس مزارکو اینٹ اینٹ کر دوں گا" میں نے دیکھا بابا جی کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں اور ان کا وجود کانپ رہا تھا۔ بابا جی اسی جذب کے عالم میں کہہ رہے تھے ہم نے اپنے پیر کی درگاہ میں عرضی ڈال دی ہے، جو بارگاہ الٰہی میں منظور بھی ہو گئی ہے۔ جا۔۔۔۔ تیرا بیٹا پاس ہی نہیں بلکہ اس کے بڑے بڑے مرتبے بھی کر دیے۔" بابا جی کی سخاوت عروج پر تھی اور وہ دونوں ہاتھوں سے موتیوں کے دان لٹا رہے تھے کہ اس دوران میرے چھوٹے بیٹے حبیب احمد کے پرائمری کے استاد احمد حسین آ گئے۔ بابا جی کو جذب کے عالم میں دیکھا تو احمد حسین صاحب نے بابا جی سے کہا "بابا جی! مشتاق کو تو بہت کچھ دے دیا، اب ہمارے شاگرد حبیب کے لیے بھی کچھ عطا کر دو۔" میں احمد حسین کی بات سن کر بابا جی نے حبیب کے بارے میں صرف اتنا کہا "اس کی خوشبوئیں دور دور تک ہوں گی اور یہ بہت یکتا ہو گا۔"
جالبؔ صاحب نے اپنے بارے میں بھی اشعار کہے ہیں، فی الحال ایک شعر لکھ کر بات ختم کرتا ہوں :
ہمارے ذکر سے خالی نہ ہو گی بزم کوئی
ہم اپنے ذہن کی وہ باس چھوڑ آئے ہیں