جن دن عمران خاں نے اپنے وزیروں اور ترجمان کے خصوصی اجلاس میں یہ راز فاش کیا کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اس دن اس بحث کو مزید تقویت مل گئی جو ملک میں کئی دن سے جاری تھی۔ میں نے احتیاطاً اسے راز فاش کرنا لکھا ہے، یہ نہیں کہا کہ عمران خان نے اعتراف کیا کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے، نوازشریف کی نااہلی ختم کرنا ان کے نزدیک اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔ کسی نے کہا جو ہو رہا ہے، وہ رائے کا پابند نہیں ہے۔
پانسہ اس وقت پلٹ گیا تھا جب خیبرپختونخواہ کے پہلے مرحلے کے انتخابات میں تحریک انصاف کو بری طرح شکست ہوئی تھی اور وہ حلقہ انتخاب بھی ان کے ہاتھ سے چھن گئے تھے جن میں جنرل الیکشن میں وہ فتح یاب ہوئے تھے۔ اس میں پارٹی قائد کا ردعمل ایک طرح سے شکست کا اعتراف بھی تھی اور منفی بھی تھا۔ انہوں نے اس کا ذمہ دار خود کو اور پارٹی پالیسیوں کو ٹھہرانے کے بجائے ٹکٹوں کی غلط تقسیم کو قرار دیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ آئندہ کے انتخابات کی نگرانی خود کریں گے۔ دراصل پارٹی کی شکست کی بڑی وجہ یہ خود پسندی ہے۔ انا کے گنبد میں اسیر ہو کر آدمی اگر یہ سمجھے کہ سب کچھ وہی ہے، تو یہ بات مرے خدا کو پسند نہیں آتی۔ آدمی غلط فیصلے کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ نتیجے کے طور پر سب سے بڑا فیصلہ یہ کیا گیا کہ پارٹی کی تنظیم توڑ ڈالی۔ صرف اس علاقے میں نہیں پورے ملک میں۔ جو نئی تنظیم بنائی۔ اس پر مرا پہلا اور فوری ردعمل یہ ہوتا کہ یہ پارٹی کے خاتمے کا اعلان ہے۔
سارے ہی نئے عہدیدار وزرا ہیں جس کا مطلب ہے کہ پارٹی تو تمام ہوئی، اب حکومت پارٹی چلائے گی۔ وگرنہ ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حکومت اور پارٹی کے عہدے الگ الگ رکھو۔ جو لوگ منتخب ہوئے ان پر بھی بڑے سوال ہیں۔ اسد عمر ایک اچھے منیجر ہیں۔ مگر سیاست کے معاملات بالکل الگ ہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں شفقت محمود بھلے آدمی ہیں، سنجیدہ شخصیت ہیں۔ بیورو کریٹ رہے ہیں، مگر کیا وہ پارٹی چلا پائیں گے۔ جنوبی پنجاب تو انہوں ن جس خسرو بختیار کے سپرد کیا ہے وہ بنیادی طور پر ان کے پارٹی سے ہیں ہی نہیں اور معلوم نہیں کہ وہ کل کہاں ہوں۔ ہاتھ پائوں تو مار رہے ہیں مگر بات بن نہیں پا رہی۔
یہ ساری صورت پیدا کیسے ہوئی۔ اس میں حکومت کی نااہلی، بری گورننس اور خودسری کا کتنا دخل ہے۔ یہ تو تجزیہ نگار طے کرتے رہیں گے، عام آدمی کو تو مہنگائی نے تنگ کر رکھا ہے۔ اسے اپنا اردگرد بھی سنبھلا ہوا نظر نہیں آتا۔ حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی لیڈر اس ٹیم سے پہچانا جاتا ہے جو وہ اپنے گرد اکٹھا کرتا ہے۔ پہلے روز سے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اپنے وقت کا ممتاز کھلاڑی کوئی ٹیم نہیں بنا پایا۔ اس کا انحصار کچھ اور قوتوں پر تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ وہ قوتیں ساتھ چھوڑ گئیں۔ کیا اس کی وجہ ایک دو معاملات پر سیم پیج والا صفحہ پھاڑ ڈالنا تھا یا پھر لانے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔
کہا جاتا تھا کہ وزیر اعظم کا خیال تھا کہ اس نے ملک کی مقتدر قوتوں کے لئے کوئی آپشن ہی نہیں چھوڑا۔ ن لیگ نہ پیپلز پارٹی۔ اور یہ بھی کہ یہ تبدیلی ن لیگ کو آن بورڈ لئے بغیر نہیں آ سکتی۔ اس لئے سارا زور ن لیگ کو ملیا میٹ کرنے پر رہا۔ خبر آئی کہ شہباز شریف مصالحت کی راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ کہیں نرم گوشہ آ رہا ہے۔ فوراً لٹھ لے کر پڑ جاتے۔ سارا زور شہباز شریف کے خلاف لگا دیا جاتا کہ کہیں یہ ایک آپشن نہ بن جائے۔ ان دنوں شہباز شریف کو گویا بخش دیا گیا ہے۔ کپکپاتی آواز سے نواز شریف پر بات ہو رہی ہے۔ مطلب یہ کہ اب خطرہ گویا وہ سنگین ہو گیا ہے پہلے ڈر تھا کہ کہیں شہباز شریف نہ آ جائے اب خطرہ پیدا ہو گیا تم شہباز شریف کو روتے تھے، یہ تو نواز شریف چلا آ رہا ہے!یہ وہ ڈرئونا خواب ہے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پنجاب نواز شریف کے شکنجے میں ہے۔ پوری کوششوں کے باوجود خاص طور پر سنٹرل پنجاب کے دل سے نواز شریف نکل نہیں رہا۔ بلکہ اب تو جنوبی پنجاب سے بھی اطلاعات آ رہی تھیں کہ وہاں بھی مسلم لیگ کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ اس وقت سب جانتے ہیں کہ پنجاب میں تحر یک انصاف کی اصل حریف مسلم لیگ ہے دوسری کسی جماعت کو کھڑا کرنے کی جو ایک آدھ کوشش ہوئیں وہ ناکام رہیں۔ جتنے فارمولے بنائے گئے وہ چلتے دکھائی نہیں دیتے۔ میں بار بار عرض کرتا آیا ہوں کہ ہماری فوج کا کراچی، بلوچستان، فاٹا سمیت خیبر پختونخواہ میں تصادم رہا ہو مگرپنجاب خاص طور پر سنٹرل پنجاب میں ان کے بارے میں کبھی منفی جذبات نہیں پائے جاتے۔
اس حکومت کی نااہلی سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں یہاں بھی منفی جذبات جنم نہ لینے لگیں۔ کوئی محب وطن قوت یہ برداشت نہیں کرے گی۔ حکمرانی انسانوں پر کی جاتی ہے، پتھر کے ڈھیروں پر نہیں۔ مقتدر قوتوں کو عوام کی رائے کا احترام کرنا ہوتا ہے وگرنہ ملک ٹوٹ جاتے ہیں اور سچ پوچھیے کہ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔ کوئی ادارہ یا کوئی قوت جو حب الوطنی کے جذبے سے لیس ہو، ایسا ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔
تو پھر اگر لندن سے رابطوں کی خبریں آ رہی ہیں تو اس میں کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں۔ مجھے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک محب وطن شخص ہیں۔ شاید اپنے مخالفوں سے زیادہ۔ انہیں بات سجھائی جا رہی ہے۔ ایسے میں گزشتہ دنوں خبریں آنے لگیں کہ بات آگے بڑھ گئی۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ضامن بھی تو ہو۔
اب جب وزیر اعظم خود بولے ہیں ان کی لہجہ یا ان کی باڈی لینگوئیج بتا رہی ہے کہ کچھ ہو رہا ہے۔ چنانچہ ان کا بیان یہ بتاتا ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں وہ اس سے باخبر ہیں۔ وہ جواب میں کیا کریں گے۔ اس کا اندازہ ان کے ردعمل سے لگایا جا رہا ہو گا۔ مرا مطلب سمجھ گئے بعض خبریں اس لئے افشاں کی جاتی ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ پھیلائی جاتی ہیں تاکہ ردعمل کا اندازہ لگایا جا سکے۔
مرے خیال میں یہ کپتان کا بہت بڑا امتحان ہے۔ فی الحال اس امتحان میں وہ کامیاب نہیں جا رہے۔ ان کا ردعملیہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ محسوس کر رہے ہیں وہ جنگ ہار رہے ہیں۔ جوابی لڑائی کے لئے ان کی حکمت عملی بھی کوئی ایسی نہیں جس پر کسی کو پریشانی ہو۔ تو کیا مرے ملک کی سیاست میں اک نیا موڑ آنے والا ہے۔ اللہ اس ملک کی حفاظت کرے، یہ بہت نازک موڑ ہو گا۔ گاڑی بہت احتیاط سے چلانے کی ضرورت ہے، وگرنہ حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ آگے کا سفر تو اس سے بھی مشکل تر ہو گا۔ موڑ سے بچنا ہی اہم نہیں ہے، آگے بڑھنا اور بڑھتے رہنا بھی ضروری ہے۔ ان جھمیلوں اور اندھیروں میں بھٹک جانا تو کوئی منزل نہ ہو گی۔