Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Hum Kammi Bana Diye Gaye

Kya Hum Kammi Bana Diye Gaye

چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں گفتگو کرنا اچھا نہیں لگتا، اگرچہ اس میں مزہ بھی آتا ہے۔ وہی جو نظم اور غزل کا فرق ہے۔ آج مرے پیش نظر تین موضوع ہیں جن پر مختصر ہی سہی، بات کرنا چاہتا ہوں۔

-1عدلیہ میں اٹھنے والا طوفان جس نے ایک کی جان لے لی ہے اور باقی دو کے سر منتظر ہیں۔ اٹارنی جنرل مستعفی ہو گئے ہیں، باقی دو کے استعفوں کا انتظار ہے۔

-2بلاول کا بیان جو بہت کچھ کہہ رہا ہے، مگر آخر یہ نوجوان چاہتا کیا ہے۔ خاص طور پر کیا پارٹی پنجاب میں اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکی ہے۔

اور تیسرا یہ FATF جو ہمیں ان دنوں بہت ٹف پڑا ہے ہوا ہے۔ پہلے تو اس کا اتنا شہرہ نہ تھا یہ بلا اچانک کہاں سے آئی اور اتنی شد و مد سے کیسے آئی ہے؟

قاضی فائز عیسیٰ کیس یقینا حکومت کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے پہلے شاہد عزیز صدیقی نے بھی مشکل پیدا کی تھی۔ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہ تھا، مگر وہ جوش ایمانی میں بار کے سامنے کھلم کھلا بہت کچھ کہہ گئے۔ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس کوئی راستہ نہ بچا ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ مسند انصاف پر بیٹھا ہوا ایک آدمی، عدلیہ کا شخص اگر کوئی الزام لگاتا ہے تو اس بارے میں تو سوچنا چاہیے۔ وہ کیوں کہہ رہا ہے کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہے۔ مقدموں کے من پسند فیصلے لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ بات غلط ہو گی، مگر اتنے بڑے اور اہم آدمی نے کی ہے، اس پر غور تو ہونا چاہیے۔ اب جوقصور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بیان کیا جاتا ہے، وہ بھی ایک مقدمے کا ایسا ہی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے پر سول اور ملٹری دونوں کی قیادت ناراض ہوئی تھی مگر اسے نظر انداز تو نہیں ہونا چاہیے۔ سچی بات چھوڑئیے، جرم ایک ہی ہے۔ یہ حسن اتفاق کیسا ہے میں کوئی بحث نہیں کر رہا، صرف ایک مختصر نوٹ لکھ رہا ہوں۔ یہ تگڑم جو انصاف کو سنبھالے ہوئے تھی، پہلے ہی آرمی چیف کیس میں اپنی صلاحیت کا پول کھلوا چکی ہے۔ اٹارنی جنرل کے بارے میں تو بیچ عدالت معلوم ہوا کہ وہ اتنے "لاعلم" ہیں، وگرنہ خیال تھا کہ کم از کم اچھے قانون دان تو ہیں، تا ہم باقی دو کے بارے میں تو اول دن سے کوئی مثبت تاثر نہ تھا۔ وزیر قانون ایک تو ایم کیو ایم کے ہیں، الطاف حسین کے وکیل رہ چکے ہیں، پھر مشرف کا مقدمہ لڑا ہے اور آخر میں تو حد کر دی وزارت سے استعفیٰ دیا اور اعلان کیا کہ وہ آرمی چیف کے وکیل ہیں جبکہ ان کا لائسنس بھی معطل تھا۔ ایک دن کے بعد دوبارہ حلف اٹھا لیا۔ ان کی باڈی لینگوئج اور مسکینی سے انتخابِ الفاظ بہت کچھ کہتا ہے۔ اس کے فوٹیج نکلوا کر دوچار اچھے نفسیات دانوں کے ایک بورڈ کے سامنے رکھ دی جائے، وہ بہت کچھ بتا سکتا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا یہ تحریک انصاف کے لیے سیف الرحمن ثابت ہوں گے۔ سیف الرحمن تو مخلص تھے، سیاسی تھے، اپنی قیادت سے محبت رکھتے تھے مگر ان کا کچھ سمجھ نہیں آیا۔ دوسرے صاحب شہزاد اکبر کا انداز تو چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ یہ مر جائیں گے۔ سیاسی آدمی تو تھے ہی نہیں۔ اکڑ اتنی تھی کہ شہباز شریف کو روز چیلنج دیتے تھے کہ آئو میرے خلاف لندن میں مقدمہ کرو۔ میرے خیال میں حکومت کا ایک ونگ ہونا چاہیے جو وزیر اعظم کی اس لحاظ سے مدد کرے کہ ٹیم کے ارکان کا تجزیہ کر سکے۔ دونوں کو جانا چاہیے۔ بار کونسل نے درست مطالبہ کیا ہے بلکہ انہیں تو پہلے جانا چاہیے تھا۔

دوسرا شعر سنئے، یہ بلاول کا عطا کردہ ہے۔ پنجاب میں ایک تاثر تھا کہ بلاول آگے آئے گا تو پنجاب میں پیپلزپارٹی کا از سر نو امکان پیدا ہو گا، مگر لگتا ہے بلاول اس خیال کو ترک کر چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی عزت یا کم از کم زرداری کی عزت اس ایک نعرے سے ہی تھی جو انہوں نے پچھڑے ہوئے ہجوم کے سامنے لگایا تھا، پاکستان کھپے، لوگ سب کچھ بھول بھال گئے۔ پھر پارٹی کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ بلاول آگے آئے تو پارٹی پنجاب میں بھی زندہ ہو سکتی ہے تا ہم دیکھنے میں آیا ہے کہ پارٹی بار بار ایسی بات کرتی ہے جس نے پارٹی کو پنجاب میں نیچا دکھایا ہے۔ لاڑکانہ کا ایم این اے اندر، لاہور کا وزیر اعظم ضمانت پر۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن سے اتحاد کیے رکھا۔ اب کہہ رہے ہیں عمران سے پہلے نواز بھی سلیکٹڈ تھے۔ لاڑکانہ میں کتا کاٹے تو اور بات لاہور میں کاٹے تو دوسری بات۔ لاہور کا HIV اور ہے اور لاڑکانہ کا اور۔ وہ اپنی محدودات سے نکل ہی نہیں رہے۔ تعریف کرتے ہیں تو صرف صوبائی حکومت کی جیسے ان کی پارٹی صرف سندھ کی ہے۔ پنجاب پانی پی گیا، گیس چوری کر لی وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں یہ اپروچ پیپلزپارٹی کے آئیڈیلز کے لیے مناسب نہیں ہے اور نہ بلاول کے شایان شان۔ پیپلزپارٹی سے بہت توقعات ہیں۔ اس دن جانے کیا صورت حال ہے کہ بلاول کو یہ رویہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک بات تو صوبے کے اندر پارٹی نے بالخصوص کراچی میں شور مچا رکھا ہے۔ پاکستان کا یہ صنعتی دارالحکومت اس وقت شہری، صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان لڑائی کی نذر ہوا پڑا ہے، دوسری طرف اس نے وفاق اور پنجاب سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ہو سکتا ہے اس وقت حالات ایسے ہوں کہ سمجھ نہ آ رہے ہیں، مگر یہ کوئی اچھی نشانی نہیں۔

تیسرا معاملہ FATF کا ہے۔ معاف کیجیے اس کی پیدائش کب ہوئی۔ یہی 1989ء میں جب گویا برلن کی دیوار گری۔ جی سیون ممالک کی دین ہے۔ 39 ممالک اس کے رکن ہیں۔ ہم کب رکن بنے، کیسے بنے؟ تفصیل بتائی تھوڑی جاتی ہے۔ کہتے ہیں، ہم پہلے بھی اس گرے لسٹ میں آئے تھے، کیسے بلیک لسٹ میں آنے سے بچ گئے۔ ایسے تو ہم پہلے بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہے ہیں، مگر انہوں نے کچھ یوں گلا نہ گھونٹا تھا۔ اس بار یہ ایف اے ٹی ایف ہی گلے سے نہیں اتر رہا۔ کیا اس کا تجزیہ نہیں ہونا چاہیے۔ معلوم تو ہو ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ کم از کم ہمیں اپنی حکومتوں کے گناہوں کا تو پتا چل جائے۔ ہر بار آ جاتا ہے ہم نے اتنی شرائط پوری کر دی ہیں۔ پتا تو چلے یہ شرائط کیا ہیں اور ہم سے یہ گناہ کب اور کیسے سرزد ہوتے تھے اور وہ کیا ہے جو ہم اب بھی پورا نہیں کر پا رہے۔

دیکھیے بات بہت دور تک جا رہی ہے۔ پہلی ہی بات خطرناک ہے۔ عدلیہ سیدھے موڈ میں دکھائی دیتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے تو اپنے جواب میں یہ تک کہہ دیا ہے وزیر اعظم نے اپنی بیوی بچوں کے اثاثے نہیں بیان کیے اور یہ کہ وزیر اعظم، سیاستدان اور نمایاں شخصیات نے بیرون ملک اثاثے چھپائے ہیں، میرے بیوی بچوں نے آف شور کمپنیوں میں اثاثے نہیں خریدے اور اپنے نام پر خریدے ہیں اور یہ جاسوسی کرانے والا شہزاد اکبر کا ادارہ غیر قانونی ہے۔ بات ہر طرف سے دو ر تک جا رہی ہے۔ پانامہ تک جائے گی اور جانے اپنی لپیٹ میں کس کس کو لے جائے گی۔ کوئی چیز شفاف نہیں ہے۔ بلاول کے بیان پر میں مزید نہیں کہتا۔ وہ تو کہہ رہے ہیں ہم پاور شیئرنگ کے کسی فارمولے میں شریک نہیں ہوں گے تو اقتدار ہمارے ہاں ریڑھیوں کی طرح بانٹا جاتا ہے اور بانٹے والا کوئی اندھا ہے۔ جو اپنا حصہ لیتا ہے، وہ ڈنڈے کے زور سے لیتا ہے۔ اور ہاں یہ عالمی ادارے یہ کب، کیسے اور کیوں دبائو ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کسی پاور شیئرنگ فارمولے کا حصہ ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ عالمی تھانیدار کیا صرف کمزوروں ہی کو دباتے ہیں یا سچ مچ مجرموں کو پکڑتے ہیں۔ ہم ایف اے ٹی ایف کے مجرم ہیں یا گائوں کے کمّی بنا دیئے گئے ہیں۔