ایک بات تو اچھی ہوئی کہ ہمارے وزیراعظم نے گزشتہ دنوں کی صورت حال سے ایک سبق سیکھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں سے براہ راست رابطہ قائم کیا، جو کام انہیں ایک لیڈر کے طور پر پہلے ہی کرنا چاہیے تھا، وہ انہوں نے ایک جھٹکا کھانے کے بعد کرنا ضروری سمجھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی یہ تبدیلی قلب عارضی ہے یا مستقل رہے گی اور یہ بھی طے نہیں کہ وہ اس لمحے کو اس حوالے سے یاد رکھیں گے یا یہ لمحہ گزر جانے کے بعد اسے بھول جائیں گے۔
دوسری بات البتہ مایوس کن ہے، وہ یہ کہ انہوں نے مخالفین کے ساتھ اپنے رویے میں تبدیلی کرنا قطعاً ضروری نہ سمجھا۔ جب انہوں نے اسمبلی میں تقریر شروع کی تو خاصی دیر تک وہ اپنے معلمانہ رویے کے مطابق ریاست مدینہ کا درس دیتے رہے۔ پھر یہ مصلح دم توڑ گیا اور اندر کا وہ شخص باہر آ گیا جو اپنے مخالفین کو تہہ تیغ کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ آپ اپنے مخالفین کو کوئی رعایت دیں، مگر ایسے تعلقات تو پیدا کریں جو امور سلطنت چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ میں این آر او نہیں دوں گا اور اگلے ہی لمحے آپ اپنے ان سولہ ساتھیوں کو این آر او دیتے ہیں، جنہوں نے آپ کے بقول آپ سے دغا کیا اور دولت کی چمک دمک کے سامنے دب گئے اور یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے بیٹھے۔ ہو سکتا ہے کہ مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ فی الحال ان سولہ یا بیس افراد کو نہ چھیڑا جائے، وگرنہ حکومت باقی نہیں رہ سکتی، تو مصلحت کا تقاضا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان سے ایک طرح کے تعلقات قائم کئے جائیں، جو جمہوری پارلیمانی روایات کے مطابق ہوں۔ نہ صرف تقریر میں مخالفین کے خلاف سخت باتیں کی گئیں، بلکہ کرپٹ لوگوں کی فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا۔ اب یوسف رضا گیلانی بھی دنیا کے کرپٹ ترین لوگوں میں شامل ہو گئے۔ یہ منطق کسی کو سمجھ نہیں آتی، جو آپ کا مخالف، وہ کرپٹ بھی، غدار بھی اور جو آپ کے سائے میں آ گیا وہ دودھ کا دھلا بن گیا۔ یہ دہرا معیار نہیں چلا کرتا۔ آپ منافقین مدینہ ہی کو دیکھ لیجئے۔ حضور نبی کریمؐ ان کو اچھی طرح پہنچانتے تھے، مگر ریاست مدینہ کے مستحکم ہونے سے پہلے انہیں کس طرح برداشت کیا گیا، حالانکہ ان منافقین کی حیثیت کافروں سے زیادہ خطرناک تھی۔ حضور نبی کریمؐ سے زیادہ سچا اور کھرا آدمی کون ہو سکتا ہے مگر آپﷺ نے جس حسن تدبیر سے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی، وہ آج بھی علم سیاست و عمرانیات کے ماہرین کے لیے ایک مثال ہے۔ دلوں کا حال جاننے والا تو اللہ ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ اس وقت لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ آپ کے سارے مخالف لٹیرے چور اچکے ہیں اور آپ کے ساتھ جو بھی ہے، وہ اشرف المخلوقات کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ کوئی بھی آسمان سے اترا نہیں ہے۔ کوئی بھی خدا یا دیوتا نہیں ہے۔ سب انسانوں کی طرح انسان ہیں۔ ان کے ساتھ انسانوں جیسا ہی رویہ اپنانا پڑے گا۔
ایک تو یہ ہوا کہ اندر آپ اپنے مخالفوں کو بے نقط سنا رہے تھے اور باہر آپ کے ہم نوا آپ کے مخالفین میں چند ممتاز شخصیات کو نشانہ بنا رہے تھے۔ ایک خاتون کو لات ماری گئی۔ ایک سابق وزیراعظم کو تھپڑ مارا گیا، دوسرے سینیٹر کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ حتیٰ کہ انہوں نے بھی جوابی وار کر کے حملہ آوروں کو قابو کیا۔ دوسری طرف ایک سابق وزیر پر جوتا اچھالا گیا۔ میں نے شاہد خاقان عباسی کو کبھی ایسے غضب کی حالت میں نہیں دیکھا۔ جو کہہ رہے تھے، میں بھی پہاڑوں کا بنا ہوں۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے، باہر کے منظر دیکھ کر مجھے مناظر یاد آ گئے، جو ٹرمپ کے آخری دنوں میں کیپٹل ہل پر چڑھائی کے دوران تھے۔ وہ قانون پسند لوگ ہیں۔ انہوں نے پہلے آئین کی راہ اپنائی، جس کے تحت نائب صدر صدر کو معزول کر سکتا ہے۔ پھر مواخذے کا آغاز کیا۔ یہ عمل کامیاب نہ ہوا، مگر اتنا تو ثابت ہوا کہ ان کی پارٹی کے ارکان میں بھی بعض ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ یہی کہیں اس کے بعد بھی کمیشن بنانے کی بات ہوتی رہی۔ کوئی ایک شخص بتائو۔ چاہے وہ آپ کا جانثار ہی کیوں نہ ہو، جس نے مجمع کے اس عمل کی تائید کی ہو۔ وزیر داخلہ نے بھی یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ کوئی شکایت آئی تو وہ کارروائی کریں گے۔ ویسے وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔
اندر کی تقریر اور باہر کے ہنگامے سے میں حیران ہو کر رہ گیا ہوں۔ اس کا مطلب ہے خانہ جنگی۔ اور اگر خانہ جنگی سے بچنا ہے تو ریاست کی محافظ قوتوں کے پاس کیا آپشن ہے۔ مارشل لائ۔ درست کہ اس وقت نہ دنیا کے حالات اس کو قبول کریں گے نہ ہمارے محافظوں کا یہ ارادہ ہے۔ کون ہے جو پاکستان کو میانمار بنانا چاہے گا۔ کوئی محب وطن قوت ایسا نہیں چاہے گی۔
مجھے نہیں معلوم آئندہ سینٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں کیا ہوتا، تاہم وزیراعظم نے 47 ووٹوں کے ساتھ 53 ووٹوں والی اپوزیشن کے سامنے اپنے امیدوار کا اعلان کردیا ہے۔ یہ امیدوار ہماری مقتدرہ کا بھی امیدوار گنا جاتا ہے۔ یہ منصب شروع دن ہی سے مقتدرہ کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ صادق سنجرانی سے پہلے بھی۔ ان کے بارے میں مجھے تو شرح صدر نہیں ہے۔ مگر انہیں منتخب کرایا گیا اور ان کے خلاف تحریک کو ناکام بنایا گیا حالانکہ یہ تحریک پیش کرنے والے اکثریت میں تھے۔ اب بھی اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور لگتا ہے ہو جائیں گے، تو یہ بات کون پوچھے گا کہ کم ووٹوں والے امیدوار نے زیادہ ووٹوں والے امیدوار کو کیسے شکست دے دی۔ کیا ووٹ بک گئے، خریدار کون تھا۔ پیسہ چلا تھا یا دبائو اور طاقت۔ اس دہرے معیار کاذمہ دار کون تھا۔ دیکھئے ہنگامہ آرائی سے ہم صرف دھول اڑا سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پورے عمل میں حکومت مضبوط نہیں کمزور ہوئی ہے۔ مضبوط بھی ہو گئی ہو تو اتنا غرور کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔ کبرتو رب کو بالکل پسند نہیں ہے اور مدینہ کی ریاست کا تذکرہ کرنے والے اگر اس کا مظاہرہ کریں تو خدا کبھی اسے معاف نہیں کرے گا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ کبر کفر ہے اور پارسائی یا علم کا کبر تو نری ابلیسیت ہے۔ کسی کو شک ہو تو آئو بات کرلیتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں انسانوں کا کبر اور تکبر ناقابل معافی ہے۔ یہ تو خدا کی صفات میں اس کے بندوں کو شریک کرنے کی بات ہوئی۔ یہ بڑا شرک ہے اور یہ وہ گناہ ہے جو خدا کبھی معاف نہیں کرتا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ریاست مدینہ کی بنیاد جس میثاق پر تھی اور جسے ہم میثاق مدینہ کہتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ یہ نوع بشر کا پہلا تحریری دستور ہے اس کی پہلی شق کیا ہے کسی کو یاد نہ ہو تو سن لے کہ اس میثاق مدینہ کی پہلی شق یہی ہے کہ تمام مسلمان اور غیر مسلم (یہودی یا عیسائی) امت واحدہ ہیں۔ جی ہاں امت واحدہ ہیں۔ ایسے میں آپ اپوزیشن کے ساتھ وہ سلو ک کرنا چاہتے ہیں جو حضور نے مشرکین کعبہ سے بھی نہیں کیا۔ قوم بٹ چکی ہے، تقسیم ہو چکی ہے۔ دنیا کے سب مہذب ملکوں میں عام طور پر دو جماعتی سسٹم کو پسند کیا جاتا ہے۔ آپ ڈیموکریٹ میں یا ریپلکن، اس کو چھپایا نہیں جاتا مگر اس کا مطلب قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا نہیں ہوتا۔ ٹرمپ نے یہ حد پار کی تو امریکی روح تڑپ اٹھی۔ اب کوشش بھی ہورہی ہے کہ امریکی قوم کو متحد کیا جائے۔ ٹرمپ کے اس رویے کے اثرات پوری دنیا تک پھیلے۔ دیکھ نہیں رہے امریکہ اس وقت ہمارے چاروں طرف اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لا رہا ہے۔ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں امریکی تبدیلیوں میں بنیادی فرق آ رہا ہے۔ اوباما کی ایڈمنسٹریشن میں ایران سے امن معاہدہ کرنے والا امریکہ ایک بار پھر دوراہے پر ہے۔ افغانستان میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا اور چین کے ساتھ تصادم کے جس رویے نے امریکہ اور یورپی دنیا کو پریشان کر رکھا ہے اسے درست کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ بھارت تک چین سے اپنے فوجی تعلقات کی اصلاح کر رہا ہے اور پاکستان سے کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی رکھنے کے لیے مذاکرات کرنے پر تیار ہوگیا ہے۔ دیکھئے کہ امریکی قوم کو غیر جمہوری انداز میں تقسیم کرنے کے اثرات کہاں تک پہنچے ہیں۔
ہم ایک چھوٹا ملک ہیں مگر باغیرت قوم ہیں۔ ہمیں ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو قوم کو متحد رکھ کر بدلتے ہوئے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکے۔ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ سی پیک کی سزا تو نوازشریف ہی کو نہیں مل رہی پوری قوم اسے بھگت رہی ہے۔ مزید کیا کہوں۔ خدا کے لیے غور کیجئے، ملک کو تدبر کی ضرورت ہے، مارا ماری کی نہیں۔ آپ کی بقا بھی اسی میں ہے، آپ اس کو سمجھ لیں۔