اکتاہٹ کا یہ عالم ہے کہ کوئی شے اچھی نہیں لگتی۔ عمر بیت گئی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے۔ جیسی اب ہے یہ دنیا کبھی ایسی تو نہ تھی۔ ایسے میں بہت کچھ رہ جاتا ہے جس پر بات نہیں ہوتی۔ سچ پوچھیے تو بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ بات بنائے نہیں آتی۔ ایسے میں ان لوگوں پر رشک آتا ہے جو ہر الجھن کا حل ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ہر مشکل کشا کر دیتے ہیں اور ہر غلطی کا جواز فراہم کر دیتے ہیں۔
اس وقت خیبر پختونخواہ میں جو الیکشن ہوئے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ سیدھی سی بات ہے مگر بہتوں نے اس کے اندر سے ایسے نکتے کئے ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ یہ خطہ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی اصل اور کلیدی قوت بن کر آیا تھا۔ انہیں فخر تھا کہ ان کی کارکردگی ایسی تھی کہ اس کے بل پر خیبر پختونخوا کے عوام نے پہلی بار کسی حکومت کو دوسری بار منتخب کیا اور وہ بھی دو تہائی اکثریت سے۔ میڈیا چیختا رہا، پوری قوم طنز کے تیر برساتی رہی ہے کیا ہوا تمہارا بلین ٹری منصوبے والا سونامی، کیا حال ہوا پشاور کی میٹرو کا۔
مالم جبہ میں کیا گل کھلائے گئے۔ لگتا تھا کہ اس صوبے کے عوام نے ایک نہ سنی۔ انہیں گویا عمران خان کی قیادت اور پالیسیوں پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن چیختے رہے کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ جسے زرداری فارمولا کہہ رہے ہیں، یہاں ایسے ہی کسی فارمولے پر عمل کیا گیا اور عمران خاں کو اکثریت دلائی گئی۔ سارے ملک میں الیکشن ہارنے والے ہی نہیں، بعض جیتنے والے بھی یہی دہائی دیتے رہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر سندھ میں اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی بھی یہی شور مچاتی رہی۔ تحریک انصاف اور اس کے قائد کو اپنی قوت، بصیرت، اہلیت پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے بیک وقت ملک کی سب سے بڑی قوت رکھنے والی جماعتوں سے جنگ شروع کر دی۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی کو انہوں نے ایسا کرپٹ قرار دیا جو ملک میں ہر برائی کی جڑ ہیں اور مولانا فضل الرحمن کو تو گویا تنکے کے برابر سمجھا۔
قدرت بھی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ پہلی ضرب بھی ان فضل الرحمن نے لگائی۔ ان کا موقف سخت تھا۔ اسے کامیاب ہوتا نہ دیکھ کر یہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ کب دیں گے دھرنا، کب آئیں گے استعفیٰ، یہ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ سب سے پہلے وہی اسلام آباد پہنچے۔ یہ الگ بات ہے اپوزیشن یک جان نہ تھی۔ پھر یہ ہوا کہ جب پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پہلے معرکے میں تحریک انصاف کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی وہ اسی مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں تھی جن کی پارٹی کو توڑنے اور جنہیں تنگ کرنے کی تحریک انصاف نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
اب بھی مگر قائد انصاف اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ کہہ رہے ہیں، ہم نے غلطیاں کیں اب تو کرپشن کی داستانیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ مہنگائی قابو سے باہر ہے۔ بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے مگر انکار کا بیانیہ احمق خوشامدیوں نے یہاں تک پہنچایا ہے کہ تم کہتے ہو ہم نے کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، بات اس سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔
یہ وزیر باتدبیر یہ تک فرماتے ہیں، کیا مہنگائی ہے، اگر کسی میڈیسن کی گولی 3روپے میں ملتی تھی اور اب 7روپے ہو گئی ہے تو کیا قیامت آ گئی ہے۔ اسے اعتراف کیا جائے یا انکار یا یہ تجاہل عارفانہ ہے۔ خدا ہی جانے مگر اب تو یہ بھی انکار کے پیرائے میں اعتراف کرنے لگے ہیں کہ مایوسی ہوئی جے یو آئی کے جیتنے پر، جس پارٹی کو ملیا میٹ ہونا چاہیے تھا وہ جیت گئی ہے۔ ایسی جماعت کا جیتنا جو مذہب کے معاملے میں متشدد ہو جو عورتوں کے حقوق کی حامی نہ ہو، یہ تو معاشرے کو پیچھے لے جانے والی بات ہے۔ اس وقت عمران خان کے علاوہ ملک میں کوئی قیادت نہیں ہے۔ باقی سب بونے ہیں، صرف عمران ملک گیر بھی ہیں اور گویا عالم گیر بھی۔
ایک زمانے میں پیپلز پارٹی یہ رٹ لگایا کرتی تھی کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر۔ اب یہ لوگ یہ رٹ لگا رہے ہیں۔ عوام انہیں پلٹ پلٹ کر کہہ رہے ہیں مگر یہ ہیں کہ اپنی غلطیوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو پھر بھی سندھ میں اپنے پائوں برقرار رکھے تھے، اس کی طنابیں تو اپنے بیس کیمپ سے بھی اکھڑ رہی ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں، اب کے آ، تو دیکھتا ہوں۔ اب صوبے کے باقی ماندہ الیکشن کی نگرانی میں خود کروں گا۔ کسی نے اچھا تبصرہ کیا کہ حضور بس رہنے دو، آپ جس چیز میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ پہلے سے بھی ابتر ہو جاتی ہے۔
قصہ طولانی ہو گیا۔ کہنا مجھے صرف یہ ہے کہ ہم اب بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ درست تجزیہ کر سکیں۔ ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری پالیسیوں کا کوئی قصور نہیں، غلطی صرف اتنی ہوئی ہے کہ امیدواروں کا انتخاب درست نہیں ہوا اور اب یہ کام قائد محترم خود کریں گے۔ گویا پہلے یہ کام انہوں نے خود کیا تھا۔ جنہوں نے کہا تھا، کیا اب بھی اس کام میں ہاتھ ڈالنا چاہیں گے۔ چاہیں گے تو کیوں نہیں چاہیں گے تو کیوں۔ ملک ایسی مشکل میں پھنس چکا ہے کہ اسے اس حد تک پہنچانے والوں کو بھی اندازہ نہیں کہ وہ کیا کر گزرے ہیں۔ کوئی فوری حل بھی دوررس نتائج نہیں لا سکتا۔ عارضی فارمولے مستقبل حل کا نعم البدل نہیں ہیں اور مستقل حل کے لئے کوئی تیار نہیں۔ اور وہ حل یہی ہے کہ ہر کام آئین کی حدود کے اندر ہو۔
جب یحییٰ خاں مسیحا بن کر سامنے آئے تو انہوں نے دستور ساز اسمبلی کا اعلان کیا۔ اس زمانے کا ہر زیرک سیاست دان کہتا تھا کہ یہ خطرناک ہے۔ یحییٰ صرف 56کا دستور بحال کرے۔ اس بات کو مذاق بنا دیا گیا۔ تمسخر اڑایا جاتا کہ نواب زادہ نصراللہ خاں چاہ میراں کے کنویں پر تقریر کرتے ہیں کہ 56کا آئین بحال کیا جائے جب کہ عوام روٹی، کپڑا اور مکان مانگتے ہیں۔ کہنے والوں نے کہا نئے آئین کی تلاش ملک توڑ دے گی۔ دوسری زیادتی یحییٰ خان نے یہ کی کہ جو بات آئین نے طے کرنا تھی۔ وہ خود طے کر دی۔ ون یونٹ توڑ دیا، پیریٹی کا اصول ختم کر دیا۔ پھر وقت نے دیکھا کہ ہم آئین بنا ہی نہ سکے۔ ملک توڑنے والے دندناتے پھرتے رہے۔ ہم کچھ نہ کر سکے۔
اب بھی ماورائے آئین کوئی نسخہ یا فارمولا نہیں ہے۔ آئین کے تحت موجودہ حکمران کوئی راستہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لئے انتظار اس بات کا ہے کہ آہستہ آہستہ اس حکمران ٹولے کی جمہوری قوت کو تحلیل ہونے کا نظارہ کیا جائے۔ اس میں بے صبری صرف اس بات کی ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس دوران وطن عزیز پر کیا گزر جائے۔
دوسری طرف کسی قسم کا کھلا تصادم بھی ملک کے لئے خطرناک ہے۔ صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جب تک یہ موزی مرض اپنی موت آپ نہیں مر جاتا اس وقت تک اس کے مہلک اثرات کا تدارک سوچا جائے اور کیا جائے۔ اس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ ملک تباہ ہو رہاہے۔ تباہ کرنے والوں کی تباہی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس میں ہر وہ فریق شامل ہے جو تباہی کا ذمہ دار ہے۔ تاہم سوچنا یہ ہے کہ یہ عبوری دور کیسے گزرے گا۔
کوئی یہ بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ نہ کوئی سیاسی طاقت نہ کوئی اور۔ مطلب یہ کہ جن میں عقل ہے۔ ایسے میں اچھی خبر صرف یہ ہے کہ وہ عمل شروع ہو چکا ہے جس کا انتظار تھا اور جو فطری ہے۔ اس عمل کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر یہ نہ سمجھیں مصیبت صرف اتنی ہے۔ اس عمل کے دوران، اس کے اختتام پر اور اس کے بعد بھی کئی طرح کے سوال ہیں۔