چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جس کے جواب ہمیں نہیں مل رہے۔ مثال کے دور پر جوبائیڈن یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ انہوں نے اربوں ڈالر خرچ کر کے ایک فوج بنائی۔ اسے بہترین تربیت دی، اعلیٰ ترین اسلحہ سے لیس کیا، مگر یہ ساڑھے تین لاکھ سپاہی چند دن بھی نہ نکال سکے۔ وہ کہتا ہے میں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے، تاہم اس کا کہنا تھا کہ اس کی فوج دفاع کرنا جانتی ہے۔ جوبائیڈن یا اشرف غنی اس معاملے میں اکیلے نہ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ یہ فوج کم از کم آٹھ نو ماہ تو ضرور نکال لے گی۔ پھر کیا ہوا۔ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کریں۔ بالکل سامنے کی بات ہے، کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔
اور وہ یہ کہ فوجیں دشمن کے خلاف تیار کی جاتی ہیں، اپنوں کے خلاف نہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے جنگ کے لئے انہیں تربیت دی جاتی ہے، خانہ جنگی کے لئے نہیں، جس کو یہ سادہ سی بات سمجھ نہیں آتی، اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ افغان جنگ نے کئی سوال اٹھائے ہیں، جن کے جواب تلاش نہیں ہو پا رہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ خود طالبان کے ایک رہنما نے کہا کہ یہ ایک ایسا معجزہ یا ایسی کرامت ہے جو تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ پاکستان میں ہمارے دوست پوچھتے ہیں کہ یہ جنگ جو، اجڈ، گنوار کیسے حکومت کے اہل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ عورتوں کو کام کرنے کی آزادی کیسے دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں ہم کسی کو چہرہ ڈھانپنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ یہ کوئی دین اسلام سے انحراف نہیں ہے۔ بلکہ وہ شعور ہے جو وقت نے امت کو عطا کیا ہے۔ اب سعودی عرب نے عورتوں پر سے بہت سے قدغنیں اٹھائی ہیں۔ ایران کی کٹر مذہبی قیادت میں چہرہ ڈھانپنے کو اسلامی پردے کا لازمی جزو نہیں سمجھا۔ دنیا کے اور ممالک جہاں اسلامی روح کارفرما ہے، وہاں عورت قومی و ملّی عمل کا حصہ ہے۔ جانے انھوں نے کیا کچھ سوچا ہو گا۔ ایک زمانے میں جب مجاہدین کو، وہ جنہوں نے طالبان سے پہلے جہاد شروع کیا تھا، امریکہ جانے سے بھی اجتناب تھا۔ جو وہاں جا کر امریکی صدر سے بھی ملنے کو تیار نہ تھے۔ ان کے لئے اپنا ملک، بلکہ اپنا قبیلہ ہی سب کچھ تھا۔ شاید یہی ان کا دین اور یہی ان کا تصور بھی تھا۔ اب وہ دنیا دیکھ چکے ہیں؟ عالمی قیادت سے مذاکرات کر چکے ہیں۔ اب وہ سمجھ چکے ہیں کہ اسلام کی بالادستی کے لئے کیا ضروری ہے اور کیا غیر اہم ہے۔ اس بات کی تصدیق طالبان دور سے باخبر اہل نظر اس زمانے میں بھی کر رہے تھے کہ طالبان کا عورتوں کی تعلیم کے بارے میں رویہ دوران حکومت ہی بدل رہا ہے اور وہ جلد اس معاملے میں فیصلہ کرنے والے ہیں۔ دو کام وہ کر چکے تھے، ایک تو افغانستان کے قبائلی معاشرے کو انہوں نے ہتھیاروں سے پاک کر دیا تھا۔ جہاں ہر آدمی ہتھیار اٹھا کر چلنا باعث شرف سمجھتا تھا، وہاں اس نے ریاست کے حکم پر ہتھیار رکھ دیے تھے ناقابل یقین لگتا ہے۔ امریکہ کے نام نہاد مہذب معاشرے میں ہتھیار ایک زمانے میں وہاں کے باشندوں کی ضرورت تھا وہ ایسا ہی معاشرہ تھا۔ اب یہ ضرورت نہیں۔ ایک عذاب بن چکا ہے۔ مگر کئی سال کی جدوجہد کے باوجود کوئی امریکی صدر امریکی معاشرے سے ہتھیار واپس نہیں لے سکا۔ افغان معاشرہ جہاں ہتھیار ضرورت ہی نہیں، باعث عزت و وقار بھی تھے، وہاں طالبان نے ہتھیار رکھوا دیے۔ اس سے اگلا قدم انہوں نیے وہ اٹھایا جو ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ افیون کی کاشت ان کی معیشت کا شاید سب سے بڑا ستون تھا۔ انہوں نے اچانک افیون کی کاشت پر پابندی لگا دی۔ اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔ یہ پابندی امریکیوں اور مغربیوں کے آنے کے بعد خاصی نرم ہو گئی تھی۔ یہ معمولی اقدام نہ تھا۔ ان سے دنیا کی وجہ نزاع جو تیسرا مسئلہ تھا۔ وہ عورتوں کی آزادی کا تھا۔ جو کام وہ اس وقت کرنے جا رہے تھے، کیا بیس سال کے بعد بھی انہیں اس میں تذبذب ہو گا۔ سمجھ لیں نہ صرف دنیا بدل چکی ہے بلکہ طالبان بھی بدل چکے ہیں۔ وہ جو امریکیوں سے ملنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ انہوں نے قطر میں امریکیوں سے طویل مذاکرات کئے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کا بھی اب اہل مغرب کو اندازہ ہو جانا چاہیے۔
ہمارے اہل دانش کو یہ بات بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ لوگ کس طرح ان لوگوں کی پشت پناہی چھوڑ دیں گے جو پاکستان میں تخریبی سرگرمیاں کرتے ہیں اور انہوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس زمانے میں ہمارے وزیر داخلہ جنرل معین الدین حیدر نے جب افغانستان جا کر ان مجرموں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو وہ لیت و لعل سے کام لینے لگے۔ یہ مجرم واپس نہ ہوئے، وہ اور زمانہ تھا۔ انہوں نے تو اسامہ بن لادن کو بھی واپس نہ کیا تھا۔ اب وہ جان چکے ہیں کہ انہیں اپنی دھرتی کو دوسروں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینا۔ خبر آئی کہ طالبان نے اب ان کو آگاہ کر دیا ہے کہ واپس جائو، صلح کرو اور اپنے ملک میں رہو یا کم از کم یہاں رہنا ہے تو سوچ لو کہ اب ایسی اجازت نہیں مل سکتی۔ کئی اور وجوہ بھی ہیں۔ یہاں بیٹھ کر بھارت کی مدد سے سی پیک کے خلاف کارروائیاں کیا اب افغان حکومت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے خلاف وہ لڑے ہیں۔ چین اور روس اس وقت ان پر نظر التفات کر رہے ہیں کیا وہ اسے نظرانداز کر دیں گے، بہت کچھ بدل چکا ہے پہلے روس کے خلاف امریکیوں افغانیوں کا دوست تھا۔ اب تو لڑائی امریکیوں کے خلاف تھی۔ چین ہی نہیں روس کا کردار بھی بدل چکا ہے۔ وہ اور زمانہ تھا۔ یہ اور زمانہ ہے۔ پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ دنیا بدل چکی ہے افغان بھی بدل چکے ہیں اور طالبان بھی۔ نہیں بدلے تو ہمارے دانش ور۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ دانش ور نہ سہی، ہم بھی بحیثیت قوم بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ اپنا ہائوس ان آرڈر کر رہے ہیں نا۔ جو کچھ ہوا، اس میں ہمارے کرتوتوں کا بھی حصہ تھا۔ اب شاید ہم ایسی حماقتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کیا خیال ہےچلتے چلتے اقبال یاد آ گیا ہے
روحی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندستان
تو بھی اے فرزند کہستاں،اپنی خودی پہحان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
اس نظم کے چند اور بند بھی حسب حال ہیں۔ پڑھ لیجیے گا۔ افغان اپنی خودی اب نہیں پہچانے گا تو کب پہچانے گا۔ اے مرے پیارے دانشور، تو بھی اپنی خودی پہچانو۔