اپنی مادر علمی میں مہمان بن کر جانا کتنا سہانا لگتا ہے، اس کا اندازہ مجھے دو چار روز پہلے ہوا جب میں مجیب شامی کی معیت میں گورنمنٹ کالج ساہیوال پہنچا۔ چند اولوالعزم ساتھیوں نے یہاں المنائی کا آغاز کیا تھا اور یہاں کا پہلا سالانہ ڈنر تھا۔ چار پانچ سال پہلے بھی میں یہا جا چکا ہوں جب کالج کے ایک سابق پرنسپل عبدالقیوم صبا کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ صبا صاحب ہم سے سینئر تھے۔ ان کے بارے میں اس دن میں نے عرض کیا کہ وہ میرے لڑکپن کے احمد جاوید تھے۔ اب اس اجمال کی تفصیل کیا بیان کروں۔ اس دن مرے ایک استاد نے ایسی محبت سے ذکر کیا کہ میں ایک طرف تو شرمندہ ہوا دوسری خوشی ہوئی کہ ہم جن اساتذہ سے لڑتے جھگڑتے تھے وہ کیسے شفیق لوگ تھے۔ لڑنے جھگڑنے کا مطلب کوئی بدتمیزی نہ تھی۔ بلکہ علمی اور فکری موضوعات پر اختلاف کر جاتے اور وہ خوشی خوشی اسے نہ صرف برداشت کرتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔
یہ اس کالج کا کلچر تھا، اس شہر کا کلچر تھا جہاں مجید امجد رہتے تھے اور منیر نیازی ہر ماہ اپنے گھر آتے جاتے تھے۔ میں نے یاد دلایا ساہیوال کے لوگو، تمہیں معلوم ہے کہ اس سال تمہارے مجید امجد کو ادب کا سب سے بڑا اعزاز نشان امتیاز دیا گیا ہے۔ وہ کیا شخص تھا بس یہ جان لو کہ عباس تابش ابھی ابھی بتا رہے تھے کہ وہ میلسی سے اس کالج میں پڑھنے کیوں آئے۔ مجھے اس دن معلوم ہوا کہ یہ ہیرا بھی اسی سرزمین پر تراشا گیا تھا۔ اس نے بتایا میں یتیم بچہ تھا۔ مری فیس کسی نے دینا تھی۔ ملتان قریب تھا، مگر میں نے ساہیوال کا انتخاب کیا کہ مجید امجد کو دیکھ سکوں۔ میں نے اس پر فقرہ لگایا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ عباس تابش اچھا شعر کیوں کہتا ہے، اس دن معلوم ہوا وہ ساہیوال کالج کا پڑا ہوا ہے اور یہاں اس لئے آ رہا تھا کہ یہاں مجید امجد رہتے تھے۔
میں نے بھی نقشہ کھینچا کہ شہر میں کون کون تھا مجید امجد، منیر نیازی، ظفر اقبال بھی ہر ہفتے اوکاڑہ سے آتے تھے۔ ناصر شہزاد، طارق عزیز، اشرف قدسی اس کالج میں پڑھے تھے۔ شہر میں گوہر ہوشیار پوری، بشیر احمد بشیر، جعفر شیرازی، مراتب اخترتھے۔ شاعری ہی نہیں فکشن میں جمیلہ ہاشمی، میمون انصاری سب اس شہر کی فضا تھی۔ ادھر چلا گیا تو جانے کیا کچھ بتاتا جائوں مختصر یہ کہ اس شہر کی ایسی علمی، فکری اور ادبی فضا تھی جس کا جواب نہیں اور اس کالج کی بھی یہی روایت تھی۔ شام کو ہر جگہ محفل لگی ہے، کہیں انگریزی ادب والوں کا اجلاس ہے، کہیں بزم ادب، کہیں پولیٹیکل سائنس سوسائٹی کہیں ساربان فارسی۔ ہر محفل میں صدارت بھی طالب علم کرتے تھے اور اساتذہ باقی طلبہ کے ساتھ نیچے بیٹھ کر ہنستے تھے۔ اپنی رائے دیتے، اس رائے سے طالب علم اختلاف بھی کرتے۔
یہ تو خیر علم و ادب کا تذکرہ تھا، سیاسی طور پر بھی یہ کالج بہت فعال تھا۔ میں نے مادر ملت کے الیکشن کو یاد کیا جب مجیب شامی اور ہم سب گائوں گائوں اور قریے قریے جا کر لوگوں تک جمہوریت کا پیام سناتے۔ شامی صاحب نے اس کہانی کو خوب تفصیل بیان کی۔ مجھے مادر ملت کمیٹی کا کنوینر بنا دیا گیا تھا۔ کسی نے دفتردے دیا، کوئی گاڑی کرایے پر لے دیتا، کوئی کھانے کی پرچیاں دے دیتا، رات آتی تو بعض اوقات سردیوں کی کھلی فضا میں پتھریلے بنچوں پر لیٹ کر رات گزار دیتے۔ شہر میں کس کس سیاسی رہنما سے ملاقات نہ ہوتی ہو گی۔ چوہدری محمد علی، سردار شوکت حیات، ممتاز دولتانہ سب یہاں کے پھیرے لگاتے اور کالج کے طلبہ ان سے اپنی تربیت کا حصہ سمیٹتے۔
کالج کی اپنی فضا بھی کیا خوبصورت تھی۔ یہ کالج جب بنا تو غالباً حسن ابدال کے کیڈٹ کالج کے لئے بنا تھا مگر بعد میں انہیں شاید یہاں کی آب و ہوا پسند نہ آئی۔ اس نئی عمارت کا افتتاح ممتاز دولتانہ نے کیا۔ کیا کمال کی عمارت ہے۔ دنیا میں کم کالجوں کو ایسا کیمپس میسر آیا ہو گا۔ میاں اصغر علی اس کے ایک پرنسپل ہوئے ہیں۔ کیمبرج کے پڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کالج کا کیا لے آئوٹ بنایا نام ہی سنئے، ہم جس لان میں بیٹھے تھے اس کا نام ٹیرس گارڈن تھا اس کی روشوں پر ٹہل ٹہل کر ہم دنیا بھر کے مسئلے سلجھانے کی کوشش کرتے۔ باقی نام بھی ملاحظہ کیجئے۔ سنکن(Sunken)گارڈن، روز گارڈن، رواں۔ یہاں پبلک لائبریری کی عمارت تھی۔ سوئمنگ پول تھا اور ہاں یاد آیا اس کے سائیکل سٹینڈ کو ہم ان دنوں ایشیا کا خوبصورت ترین سائیکل سٹینڈ کہتے تھے۔ یاد آیا کہ کالج چھوڑنے کے چار چھ سال بعد جب میں ایک دن کالج آیا تو سب سے پہلے اس سائیکل سٹینڈ کی طرف لپکا کہ دیکھو ںکہ اب یہ کیسا لگتاہے۔ مگر اب وہاں کوئی سائیکل نہ تھی، ملک میں پیٹرو ڈالر آ چکا تھا، وہاں اب موٹر سائیکلیں ہی موٹر سائیکلیں تھیں۔
زمانہ بدل رہا ہے مگر اس کالج کی روایات اب بھی نہیں بدلیں۔ کالج کے موجودہ پرنسپل ڈاکٹر ممتاز احمد نے اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سروکے پودے کی جو خوبصورتی ہم نے یہاں دیکھی کہیں اور نہ دیکھی ہو گی۔ ایک تو قدآور بلند و بالا سرو اور دوسرے چھوٹے چھوٹے مختلف شکلوں میں، کہیں مور کی شکل ہے تو کہیں کوئی اور۔ وہ جو مین سڑک تھی، اس پر بہار میں غالباً درختوں پر سرخ رنگ کے پھول لگتے تھے۔ کیا کیمپس تھا اور کیا اس کی روایات تھیں۔
ہمارے ہی زمانے میں یہ کالج پوسٹ گریجوایٹ ہو چکا تھا۔ غالباً فزکس اور کیمسٹری کی کلاسیں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ گویا نصف صدی پہلے کی بات ہے، اب تو غالباً 13پوسٹ گریجوایٹ کلاسیں ہیں۔ اس زمانے میں تو گریجوایٹ کالج (یعنی جہاں بی اے ہو سکتا ہو) دور دور تک نہ تھا، اوکاڑہ میں بھی انٹر میڈیٹ کالج تھا۔ زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے۔ یہاں کے لوگ اتنے روایتی ہیں کہ جب یہاں شہر میں یونیورسٹی بنانے کا مرحلہ آیا تو عموماً ہوتا ہے کہ کالج کو یونیورسٹی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یہاں اس کی مزاحمت ہوئی کہ کالج کا تشخص خراب نہ کرو، بہائوالد ین ز کریا یونیورسٹی کا کیمپس ہے اسے اپ گریڈ کر دو حالانکہ یہاں اتنی اہم فیکلٹی ہیں۔
اس کالج کا حال کیا پوچھتے ہو، یہاں سانس لینا اپنے اندر روح پھونکنا تھا۔ ایک صاحب ملے، شامی صاحب نے مجھے آواز دی کہ دیکھو قمر ہیں۔ میں سمجھ نہ پایا تقریب میں آ کر معلوم ہوا کہ وہ کالج کے پرنسپل تھے۔ ہمارے زمانے میں جغرافیے کے استاد۔ عرض کیا کہ اس شعبے میں یہ اور فخر صاحب ایسے وجیہہ لوگ تھے کہ ہم ان پر ایک نظر ڈالنے کے لئے سامنے سے گزرتے۔ اس زمانے کو یاد کیا جب مہاراجہ عبدالقادر، الف۔ دال نسیم، پروفیسر عبدالعزیز جانے کیسے کیسے معرکے کے استاد ہوتے تھے۔ کالج والوں نے بہت سے سیاسی لوگوں کو بھی بلوا رکھا تھا۔ ڈر ہے غلط نہ لکھ جائوں۔ ویسے تو میاں منظور وٹو صدر محفل تھے۔ مجھے عاطف محمود کی داد دینا پڑتی ہے جو سنا ہے ڈبلن میں رہتے ہیں اور انہوں نے ہم سب کو اکٹھا کیا۔ ایک داد صدر شعبہ اردو محمد افتخار شفیع کو بھی جنہوں نے 3ماہ کے مختصر عرصے میں ایک خوبصورت کتاب تذکرہ ماہ وسال مرتب کر کے شائع بھی کر دی ہے اور یہ سامنے مری میز پر دھری ہے۔ ان لوگوں نے یہ عزم بھی کیا ہے کہ یہ اپنے طلبہ کو وظائف دیں گے۔ ایف اے والوں کے لئے 5ہزار اور بی ایس والوں کے لئے دس ہزار۔ سب اپنا حصہ ڈالیں۔ مجھے بھی تو ڈالنا چاہیے۔ مادر علمی ایسے ہی بنتی ہیں۔
یہ 80سال پرانی درسگاہ ہے۔ اس خطے میں علم و دانش کا تعلیمی مرکز، قیام پاکستان سے بھی پہلے کا۔ اب تو یہاں طالبات بھی پڑھتی ہیں، اگرچہ گرلز کالج موجود ہے۔ خدا مرے کالج کو سلامت رکھے۔ ایسا کالج کہیں اور نہیں۔ یہ میرے جذبات نہیں، سچ مچ یہ ایک حقیقت ہے۔