یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ ملاقات نہیں آمنا سامنا تھا یہ بھی غلط، یوں کہہ لیجیے میں بھی پہلی بار وہاں موجود تھا جہاں وہ مہمان خصوصی تھے۔ البتہ انہوں نے اس کی رسید کھلے عام دے دی تھی۔ ڈاکٹر عارف علوی کے صدر بننے پر میں نے ببانگ دہل ایک کالم میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ان سے دوستی بہت پرانی ہے۔ دو چار برس بعد اسے نصف صدی ہو جائے گی۔ ہم نے چند معاملات پر اکٹھے کام بھی کیا ہے۔ انہوں نے ایک آدھ انٹرویو میں اور وفود سے ملاقات میں ان پرانے تعلقات کا حوالہ بھی دیا۔ تاہم میں اس پورے عرصے میں ان سے مل نہ سکا۔ تحریک انصاف کی جو اولین ٹیم میدان میں اتری اس کے اپنے انداز تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ صرف وہی دنیا کو بدل سکتے ہیں اور باقی سب کو کٹہرے میں لاکھڑا کر دینا چاہیے یا کم از کم انہیں قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔ میں ایک صحافی کی حیثیت سے سیاست بازی پر یقین نہیں رکھتا۔ اس سے آپ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر اثر پڑتا ہے۔ اس بار صدر لاہور آئے تو اس جلسے میں حاضری کا دعوت نامہ ملا وہ بھی اس انداز میں گویا بہت ذاتی ہے۔ ثانیہ کامران تحریک انصاف کی ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن ہیں۔ وہ مشہور کرکٹر منظور الٰہی کی بیٹی ہیں گویا اپنے پنڈ دی کڑی ہے۔ ساہیوال سے تعلق ہے۔ دعوت نامہ پڑھا تو خواہش پیدا ہوئی اسی بہانے عارف علوی کی صدارت کے جلوے بھی دیکھ لیں گے۔
یوں لگتا ہے یہ میں بہت ذاتی سا کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ ذرا انتظار کیجیے ہو سکتا ہے کوئی کام کی بات نکل آئے۔ تحریک انصاف نے لاہور کے الحمرا ہال میں کشمیر پر ایک بڑی تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا اور نہایت سنجیدہ مقررین بلا رکھے تھے۔ جب سے اعجاز چودھری نے لاہور کی صدارت کا منصب سنبھالا ہے وہ خوب متحرک نظر آتے ہیں۔ وہ ایک سیاسی کارکن رہے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے اس میدان کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہاں بھی ان کا یہ تجربہ صاف نظر آ رہا تھا۔ سٹیج پر جتنے لوگ تھے سبھی مرے لئے اس لئے پسندیدہ تھے کہ سب اہل علم و دانش سے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر، سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد وزیر اعظم کے خصوصی معاون ہمارے کراچی کے کرم فرما نعیم الحق، جسٹس غازی نذیر احمد، سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری یہ ایک ایسی کہکشاں تھی جس کی چمک دمک ہرروز مسحور کرتی ہے۔ میں ان دنوں کشمیر سیمیناروں میں بہت شریک رہا ہوں اور ان پر بہت لکھ چکا ہوں۔ کالم میں اس طرح کی رپورٹنگ کا عادی نہیں ہوں۔ ویسے بھی کون ہے جو کشمیر پر کوئی دوسرا موقف رکھتا ہے۔ بھارت کی اس کارروائی کا اثر یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں بھی جو دانشوری جھاڑی جاتی تھی اور ایک چھوٹا سا طبقہ کشمیر کو ایک قصہ پارینہ قرار دینے پر تلا بیٹھا تھا۔ میں نے اسے بھی پہلو بدلتے دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے جب ہم آگرے میں مشرف کے ساتھ تاریخ بدلنے نکلے تھے تو پاکستانی وفدمیں شامل صحافیوں کی تعداد غالباً 67تھی۔ ان میں کوئی ایک نہ تھا جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ حالت جنگ میں نہیں ہے۔ ہمارے درمیان وہ لوگ بھی تھے جو پاکستان میں اپنے لبرل انداز میں اس قدر آگے بڑھ جاتے تھے کہ یہاں انہیں بھارت دوست بلکہ پاکستان دشمن سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ ایسے بھی تھے جو ایک حد تک یا ایک طرح سے دین بیزاری بھی کہے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی آزادی ہمیشہ رہی ہے اور مشرف کے زمانے میں تو یہ ایک طرح سے طرۂ امتیاز گنی جاتی تھی۔ مگر وہاں دلی میں یوں لگتا تھا کہ سب تیغ براّں بنے ہوئے ہیں۔ جو ٹی وی، اخبار، ریڈیو کا نمائندہ بات کرنے آتا تو اسے پاکستانی کیمپ سے یوں کہہ لیجیے منہ توڑ جواب ملتا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک سینئر صحافی جو خاصے لبرل ہیں، کہنے لگے ہمارے ہاں تو ایک آدھ ہی ہے۔ یہاں انہوں نے ایک صحافی کا نام لیا۔ مطلب یہ کہ اس جیسا، مگر بھارت میں تو ہر کوئی اس کا بھی باپ ہے۔ بھارت کے صحافیوں کی "قوم پرستانہ عصبیت" نے سب کو پاکستانی کر دیا تھا بلکہ محاورے کے مطابق یوں کہنا چاہیے کہ مسلمان کر دیا تھا۔ وہ بھی کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئے تھے اور ادھر بھی سب کاجذبہ ایمان جاگ اٹھا تھا۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب پاکستان آمادہ جہاد ہو جاتے ہیں کہتے ہیں کسی قوم کو پرکھنا ہو تو اسے کسی امتحان میں ڈال دو۔ پھر دیکھو وہ کیسے ایک ہوتے ہیں۔ اس وقت مجھے کئی لوگ یاد آ رہے ہیں جو ایسی بحرانی کیفیت ہی کو کسی قوم کو لٹمس ٹیسٹ سمجھتے ہیں ہم 65کی جنگ میں ایک ہوتے ہیں۔ ہم آگرے جاتے ہیں تو ایک ہوتے ہیں اور بھول جاتے کہ ملک کے اندر ہمیں مشرف ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ جمہوریت آمریت سب بھول جاتے ہیں۔ شاید اسے ہی ابن خلدون نے وہ عصبیت قرار دیا تھا جو قوموں کے وجود کے لئے ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بصیرت کے ساتھ عصبیت قوم کی اصل طاقت ہے اور بصیرت کے بغیر بڑی جہالت ہے۔ ہمیں تاریخ کے اس لمحے یہی چیلنج درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت آپ کو وہ شخص گویا چراغ لے کر تلاش کرنا پڑے گا جو کشمیر کاز کا مخالف ہو۔ اس میں عقلی دلائل اپنی جگہ۔ مگر صورت حال ایسی ہے کہ ہر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ مودی کے اقدام نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ خود بھارت کے اندر ان کی پوری انتہا پسندانہ قوم پرستی کے باوجود ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل ہے کہ کشمیر میں زیادتی ہو رہی ہے۔ یہ بات تو ان کی سمجھ دار اکثریت مانتی ہے کہ کشمیر کے لوگ بھارت سے خوش نہیں ہیں۔ قوموں کی حب الوطنی ایسے میں تنگ نظری میں بدل جایا کرتی ہے۔ سامراجی عہد میں یہی ہوا کرتا تھا۔ قومیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ پھر بھی بھارت میں کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کم نہ ہوں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اندر یہ خواہش بھی موجود ہو کہ کسی طرح کشمیری ان کے ساتھ رہ جائیں تو اچھا ہے"بھلے مانس سامراجی" زیادہ سے زیادہ اتنا ہی سوچ سکتے ہیں۔ ہم سامراجی ظلم و ستم سے گزرے ہیں ہم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ سامراجی آسانی سے جان نہیں چھوڑا کرتے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں بحث چھڑی تھی کہ امریکہ ریپبلک یا جمہوریہ ہے یا ایمپائر ایک سلطنت ایک ایمپریل ازم۔ بھارت بھی اس وقت لاکھ دعویٰ کرے وہ جمہوریہ ہے، وہ اب ایک سامراج میں بدل چکا ہے۔ اس نے کئی علاقوں پر اپنی طاقت کے زور پر قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ کشمیر تو اس کی واضح مثال ہے۔ بھارت کے لوگ اپنے باطن میں جھانکیں تو ان کو خبر ہو جاتی ہے کہ کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اب صرف طاقت کا راستہ ہے اور وہ بھی ایسا راستہ جو ماضی کے کسی سامراج نے دیکھا تک نہیں۔ یہ عہد حاضر کی دین ہے۔ خاص کر دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کی بنیاد پڑی اور نائن الیون کے بعد یہ پولیٹیکل سائنس کے طالب علموں کے لئے ایک جیتا جاگتا سوال بن گیا۔ امریکہ کا رویہ دوسری زمینوں پر قبضے کا نہ سہی صاف طور پر یہ ہے کہ ساری دنیا پر ان کا تسلط ہو۔ انگریزی میں کئی طرح کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ بھارت بھی اس ذہنی کیفیت میں گرفتار ہے کہ وہ علاقائی بالادستی چاہتا ہے۔ یہ بالادستی کیوں کر حاصل ہو جب ملک کے اندر ہی آپ کا حق حکمرانی معرض خطر میں ہو۔ نائن الیون کے بعد خاص طور پر دنیا کی فکر میں جو تبدیلی آئی تھی اس میں ٹرمپ، نیتن یاہو۔ مودی کی آمد سے بڑی شدت آ گئی ہے۔ اس بات نے خود امریکیوں کو پریشان کر دیا ہے۔ جمہوریت کے طور پر ان کا امیج خطرے میں ہے۔ اگر امریکہ ان اقدار کا علمبردار نہ رہے جس نے اسے امریکہ بنایا تو پھر دنیا میں اس کی قدر کیا رہے گی۔ ہر چیز خطرے میں ہے یہ سامراجی رویہ جب فسطائیت کے رنگ ڈھنگ بھی اپنا لے تو پھر خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔
ہمارا مسئلہ مگر یہ ہے کہ جب ہم دنیا کو اس گھنٹی کی آواز کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو دنیا اس لئے بہری ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ہاں بھی یہ آوازیں سن رہی ہے، یہ جمہوریت کش رویہ۔ انٹی ریپبلکن ازم رجحان پوری دنیا میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو چار برس میں تو یورپ بھی اس خطرے سے دوچار تھا۔ تاہم بھارت میں تو یہ کمینگی کی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ ہمیں اس کے لئے حکمت عملی طے کرنا ہے۔ میں عمران خاں کے بارے میں بھی حسن ظن رکھتا آ رہا ہوں۔ مگر ان کی ٹیم کے انتخاب نے مجھے بہت مایوس کیا تھا۔ تاہم عارف علوی نے اس دن بتایا کہ پاکستان کی وزیر اعظم سے کسی نہ کسی مسئلے پر روز مشاورت رہتی ہے۔ انہوں نے وہ تفصیل بھی بیان کی کہ جب عمران خاں امریکہ میں اپنی تقریر تیار کرنے میں مصروف تھے تو ان سے مسلسل رابطے کے نتیجے میں کیا کیا نوٹس ایکسچینج ہوئے۔ مرے لئے یہ حوصلے یک بات ہے۔ وزیر اعظم کے کان میں اچھی بات بھی ڈالی جا سکتی ہے جسے ان کا دل قبول بھی کر لیتا ہے۔ یہ امید کی ایسی کرن ہے جس پر اعتبار کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ عمران کو اچھے مشوروں کی ضرورت ہے۔ ہم تاریخ کے بہت نازک موڑ پر ہیں۔ ایسے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اعلیٰ کو الگ تھلگ نہیں ہو جانا چاہیے۔ اس کے اوربہت سے پہلو ہیں۔ پھر مگر وہاں سے سیاست شروع ہو جاتی ہے اگر میں یہ کہوں کہ انہیں حزب اختلاف سے بھی رابطے رکھنا چاہیں۔ چلیے نہ سہی۔ ایسے اچھے لوگوں سے ضرور رابطہ رکھیں اور ہاں آپ کو اچھے برے کی تمیز ہونا چاہیے۔ اصل خرابی اس نمبر کے مٹ جانے سے ہوا کرتی ہے۔