Aye Kushta Sultani O Mullai O Peeri
Sajjad Mir136
فتح محمد ملک کا شمار ان دانشوروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کا میں نے ہمیشہ احترام کیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کمیونزم تو ایک گالی تھی ہی، ترقی پسندی کو بھی بعض لوگ ان حدوں تک لے جاتے تھے جن سے مفاہمت کرنا خاصا مشکل تھا تاہم اس بائیں بازو میں ایک گروہ ایسا تھا جنہیں ان دنوں پیٹراٹک لیفٹ یا محب وطن بایاں بازو کہا جاتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی، فتح محمد ملک کا شمار انہی لوگوں میں ہوتا تھا۔ ملک صاحب آج کل بھی بڑے تسلسل سے ایسے خیالات قلم بند کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ایک ایسی ہی تحریر میں نے اقبال کی ایک نظم کے حوالے سے ان دنوں دیکھی ہے۔ اس نظم کا آخری مصرعہ خاص طور پر ہمارے روشن خیال، آزاد فکر دانشوروں کو بہت مست کرتا ہے اور وہ اس کے نشے میں لہرانے لگتے ہیں۔ وہ مصرعہ ہے عاے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیریاس کا مفہوم یہ نکالا جاتا ہے کہ اقبال بادشاہوں، مذہبی پیشوائوں اور اہل طریقت کے سخت مخالف تھے۔ مجھے اس بات کو مان لینے میں کوئی تردد نہ ہوتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ اقبال ان اداروں ہی کے منکر تھے۔ درست کہ بادشاہت اسلامی مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی آڑ میں ساری مسلم تاریخ کو بادشاہوں کی تاریخ کہہ کر رد کر دیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں الطاف گوہر نے موجودہ اسلام پر تاریخی اسلام کی پھبتی کسی تھی۔ یعنی یہ اصلی اسلام نہیں ہے، بلکہ وہ اسلام ہے جو تاریخ کے گدلے پانیوں میں گزرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ بعض لوگ اسے بادشاہوں کی تاریخ کہہ کر بھی اس طرح مسترد کر دیتے ہیں اور یوں تاریخ سے کٹ کر معلق رہ جاتے ہیں۔ اسلام کی خودساختہ من مانی تعبیر کرنے کا اپنے لئے راستہ کھولتے ہیں۔ یہ تاریخ کی یک رخی تعبیر ہے۔ میں یہاں خلافت اور ملوکیت کا فرق سمجھانے بھی نہیں بیٹھا۔ نہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ اقبال ہی تھا جس نے لکھا تھا کہ عاپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیںاور اقبال ایسا بھولا بھی نہیںکہ اپنے شاہوں کو بھول جاتا۔ اقبال کے ہاں صرف وہ بحث پڑھ لیجیے جو اقبال نے اورنگزیب عالم گیر کے حوالے سے کی ہے۔ فی الحال ایک ہی شعر کی گنجائش ہے ؎درمیان کار زار کفر دویںترکش مار اخدنگ آخریںاللہ اللہ، کیا خوبصورت بات ہے کہ کفر و دین کے درمیان لڑائی میں یہ مرے ترکش کا آخری تیرتھا( جو میں نے چلا دیا) یہاں اقبال نے اکبر کے الحادی نظریات کے دوبارہ نمو دار ہونے کی جو بحث کی ہے وہ خاصی فیصلہ کن ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو دارا اور عالمگیر کا موازنہ اسی نکتہ نظر سے کرتے ہیں کہ یہ محض اقتدار کی جنگ تھی، ان کے لئے اقبال کا یہ تجزیہ خاصا دلچسپ ہو گا۔ اپنا تو یہ معاملہ ہے کہ اکثر تنازعات پر جو فیصلہ مرشد نے کر دیا اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں عافیت سمجھتا ہوں۔ اس لئے میرا ووٹ اورنگزیب کے ساتھ ہے کسی کے لئے وہ صرف ایک بادشاہ ہو گا اور اس نے بھائیوں سے جنگ تخت نشینی لڑی ہو گی، میری نظر میں اقبال کی دی گئی بصیرت کے مطابق یہ کفرو دین کے درمیان آخری معرکہ تھا جو سال ہا سال گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس عظیم القدر حکمران نے لڑا تھا۔ ایک نہیں میں بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں۔ جو یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اقبال مسلم حکمرانوں کو کس احترام کی نظر سے دیکھتا تھا اور تاریخ کا ایسا سطحی مطالعہ نہیں رکھتا تھا جو اس قسم کے مصرعوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ ہمارے بعض بقراط تو یہ کہہ کر حد کر دیتے ہیں کہ ہمارے مسلم ہیرو تو ماضی کے جرنیل تھے۔ وہ صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، محمود غزنوی پر اس طرح تبریٰ کر جاتے ہیں جیسے وہ ایوب خاں، ضیاء الحق، یحییٰ خان اور پرویز مشرف تھے۔ تاریخ کا یہ مطالعہ درست نہیں ہے۔ ٹیپو سلطان ہی سے اقبال کی عقیدت دیکھ لیجیے آپ کو جا بجا اس کے نشان ملتے ہیں۔ یہاں تک کہا کہ اگر 1799ء میں بحیرہ روم میں نپولین کے بیڑے کو شکست نہ ہوتی اور ٹیپو سلطان کو سرنگا پٹم کی ہزیمت نہ اٹھانا پڑتی تو آج دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی ایک جگہ تو ان سے منسوب یہ ثقہ روایت بھی ملتی ہے کہ ہندوستان میں اسلام کے احوال و افکار کی تاریخ ان چار شخصیتوں کے احوال و افکار اور سوانح آگاہ سے ترتیب دی جا سکتی ہے۔ 1۔ بادشاہوں میں۔ سلطان ٹیپو2۔ صوفیہ میں۔ مجدد الف ثانی3۔ علماء میں۔ شاہ ولی اللہ4۔ شاعروںمیں۔ مرزا عبدالقادر بیدلاس بات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو انسانی تہذیب کی گہرائیوں میں اترنے کی سکت رکھتا ہو۔ یہ درست ہے کہ اقبال شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے قائل نہ ہو سکے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ شیخ مجدد کو بھی نہیں مانتے تھے۔ نہیں ایسا نہیں۔ وہ ہندمیں نہ صرف اسلامی تہذیب کی تشکیل میں کارفرما قوتوں کو سمجھتے تھے، بلکہ پورے عالم میں انسانی تہذیب کی روح میں کارفرما اصل قوتوں کے شناسا بھی تھے۔ میری اس بات سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ میں کوئی وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بحث چھیڑ رہا ہوں۔ یہ بحث اس سے ماورا ہے۔ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے رومی کو اپنا مرشد مانا تھا۔ صوفیا کے مذہبی تجربے کو سمجھنے کے لئے اقبال نے جیسی باریک بینی دکھائی ہے، وہ کم ہی کسی کے حصے میں آئی ہو گی۔ عزت بخاری کے شعر کو اقبال نے کس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اس سے آپ کو اقبال کی ان شخصیات سے گرویدگی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ سبحان اللہ!ادب گاہسیت زیر آسماں ازعرش نازک ترنفس گم کردہ می آید جنید بایزید اینجاایک آدھ شعر اور سن لیں:شوکت سنجر و سلیم ترے جلال کی نمودفقر جنیدو بایزیدترا جمال بے نقابعجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیںشکوہ سنجر و فقرجنید و بایزیدبسطامییہ ان دو شخصیات کا حوالہ اسی لئے اہم ہے کہ یہ دونوں اسلامی تصوف کے دو بنیادی مزاجوں کے اولیں معمار تھے۔ یوں کہہ لیجیے کہ یہ دو شخصیات تھیں جن میں اسلامی تصوف اپنی منفزد مگر الگ حیثیت میں منضبط ہوا۔ ہمارے داتا گنج بخشؒ جنیدی فکر کے داعی گنے جاتے ہیں اور حضرت غوث اعظمؒ بھی۔ داتا صاحب پر ذرا اقبال کے فرمودات دیکھیے۔ ان سے عقیدت کے تو بہت سے واقعات ہیں مگر فکری طور پر وہ ان کو کس نظر سے دیکھتے تھے یہ بہت اہم نکتہ ہے:سید ہجویر مخدوم احممرقد او پیرسنجرر احرمعبقری اور جینئس تھے۔ تینوں لفظ ملا دیئےعہد فاروق ازجمالش تازہ شدحق ز حرف او بلند آوازہ شدباسبان عزت ام الکتاباز نگاہش خانہ باطل خرابخاک پنجاب ازدم او زندہ گشتصبح مااز مہراو تابندہ گشتتین باتیں اہم ہیں ایک تو یہ کہ داتا صاحب کے آنے سے عہد فاروقی اس دھرتی پر زندہ ہو گیا۔ دوسرا یہ کہ قرآن کے عزت کے وہ محافظ بن کر آئے تھے جس سے پنجاب کی سرزمین میں زندگی پیدا ہوئی اور ہمارے چہرے بھی روشن ہو گئے۔ میں کہا کرتا ہوں یہ صوفیا اپنے وقتوں کے نابغہ، عبقری اور جینئس تھے۔ تینوں لفظ لکھ دیجیے تاکہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ عہد فاروقی کس بات کا استعارہ ہے۔ یہ کوئی مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی کی علامت نہیں۔ یہ دین قیم کو نظام قرآن کے عین مطابق قائم کرنے کی علامت ہے۔ ایک نہیں بیسیوں صوفیاء اور سلاطین کے بارے میں اقبال نے کھل کر بات کی ہے۔ اقبال میری طرح کشمیری نژاد تھے۔ کشمیر کے لوگ پہلے پہل امیر علی ہمدانی کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تھے۔ اقبال نے ان کے بارے میں کیا خوبصورت باتیں کی ہیں جو یونہی نہیں تھیں۔ محض شاعری نہیں تھی۔ آوازہ غیب تھی:سید السادات سالار عجمدست اومعمار تقدیراممیہ لوگ مسلمانوں کی تہذیب و تقدیر کے معمار تھے۔ ایک نہیں بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں۔ (جاری ہے)