گزشتہ روز میں لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی میں مہمان تھا۔ یوم دفاع پاکستان کی تقریب تھی۔ اس بار اس میں ایک جہت کا اور اضافہ تھااور وہ یہ کہ آج کا دن یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جا رہا تھا۔ پھر کسی نے خوب کہا کہ یہ وہ دن بھی ہے جب ہم شہید ائے کربلا کو یاد کرتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ اس دن کی کتنی اہمیت کتنی جہتوں سے ہو جاتی ہے۔ مجھے اچانک خیال آیا ہم اپنی تاریخ بھولتے جاتے ہیں۔ سامنے یونیورسٹی کی طالبات تھیں، مگر مجھے یقین تھا کہ ان میں اکثر ایسی ہوں گی جن کے والدین بھی اس وقت پیدا نہیں ہوئے ہوں گے، جب ہم نے بھارت سے 65ء کی جنگ لڑی تھی۔ یہ گویا اب تاریخ بنتا جاتا ہے۔ ہم اپنے بچپن میں ان لوگوں کو تلاش کیا کرتے تھے جنہوںنے پاکستان بنتے دیکھا ہو۔ میں نے دیکھا نہیں مگر مرے لاشعور نے اسے ضرور دیکھا ہو گا۔ مری ماں بتاتی ہے کہ جب وہ ایک بائیس دن کے بچے کو سینے سے لگا کر سرحد پار کر رہی تھی تو چاروں طرف گولیوں کی سنسناہٹ تھی۔ ان چلتی گولیوں میں ماں کے سینے سے لگا سرحد عبور کرنے والا یہ بچہ میں تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مرے لاشعور نے اس کا اثر نہ لیا ہو۔ ادھر ہم سرحد پار کر رہے تھے، ادھر راوی، چناب اورستلج تینوں سرخ ہو رہے تھے۔ سال ختم ہونے سے پہلے ان کا کوئی ادھر نہیں رہا تھااور ہمارا کوئی ادھر نہ رہا تھا۔ یہ ایسی ہجرت تھی۔ صرف ایک لکیر ہی تو پار کی تھی۔ سرحد لاہور کے نواح ہی میں تو ہے۔ اور مرا شہر سرحد کے اس پار ذرا ہی سا دور ہے۔ میں امرتسر کا کشمیری ہوںاور ہجرت مری گھٹی میں ہے۔ اکثر گنگناتا ہوں، یہ ترک وطن سنت محبوب الٰہی۔ زندگی بھر کئی بار شہر بدلے ساہیوال، لاہور، کراچی سبھی تو مرے ہیں اور مجھے ان شہروں سے محبت ہے۔ 65ء کی جنگ بھی مجھے ایسے یاد ہے جیسے دشمن نے لاہور پر حملہ کر دیا تھا۔ رات کے اندھیرے میں وہ چڑھ دوڑاتھا۔ کسی نے خوب کہا وہ سمجھا ہم سو رہے تھے۔ ہم سو رہے تھے، مگر غافل نہ تھے۔ اسی محاذ پر میجرعزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ ڈٹ گئے۔ 65ء کی جنگ کا واحد نشان میجر عزیز بھٹی تھا۔ شفقت بلوچ کو اس لئے یہ اعزاز نہیں مل سکا کہ وہ غازی رہا۔ شہید نہ ہوا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس شفقت بلوچ سے 71ء میں کیا ہوا۔ اسے بزدل کہہ کر فوج سے اس لئے فارغ کرنا پڑا کہ اس نے مشرقی پنجاب میں حکم عدولی کی تھی۔ شاید اپنے شہریوں پر گولی چلانے سے انکارکر دیا تھا۔ دشمن سپہ سالار نے کہا کہ وہ شام کو لاہور جمخانہ میں شراب پئے گا۔ اسے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ بی بی سی نے لاہور پرقبضے کی خبریں نشر کر دی۔ لاہور کے غیور شہری چھڑیاں لے کرسرحد کی طرف دوڑے کہ دشمن کا راستہ روک سکے۔ تاہم ہماری بہادر فوج کے دشمن کو بی آر بی کینال کے اس طرف ہی روک دیا۔
لاہور کے محاذ پر کمانڈر میجر جنرل سرفراز خاں نے ایک بہت عمدہ کہانی بیان کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگیں عقل و دانش سے بھی جیتی جاتی ہیں پاک فوج کی ایک کمپنی نے ذرا فاصلے پر نہر کو عبور کیا اوردھول اڑاتے دشمن کی طرف جھپٹے۔ دشمن سمجھا بڑا جوابی حملہ ہو گیا۔ وہ ہتھیار چھوڑ کربھاگے۔ مالی غنیمت میں اس علاقے کے بھارتی جی او سی جرنل کی جیپ بھی ملی۔ ہم نے اس جیپ پر قبضہ کر لیا۔ دشمن کے حوصلے ٹوٹ گئے۔
انہوں نے سیالکوٹ کے محاذ پر بکتر بند فوج سے ایک بڑاحملہ کر دیا۔ جواب میں ہمارے جوان یوں ڈٹ گئے کہ تاریخ اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جنرل رومیل اورجنرل منٹگمری کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد یہ ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی یہ جنگ چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی۔
ادھر ہمارے نغمہ نگار اور پل پل میں نغمات تیار کر رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان لاہور خاص طور پر ہمارے تخلیق کاروں کا مرکز تھا۔ کیا کیا لکھنے والوں نے کیا کیا نغمات لکھے۔ انہیں اسی وقت بلیک آئوٹ کے اندھیرے میں کمپوز کیا جاتا اورنشر کر دیا جاتا۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے تو اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ بعد کے دنوں میں فوج میں ایک مزاحیہ فقرہ مشہور ہو گیا تھا کہ جب کوئی افسر اپنے ماتحت کو ڈانٹتا تو یوں مخاطب ہوتا اوئے نورجہاں کی بھرتی یعنی یہ نورجہاں کے نغموں کا کمال تھا کہ فوج میں سرفروشوں کی بھرتی میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔ عجیب دن تھے۔ عجیب راتیں تھیں ہمارے ادیب جب ریڈیو پربھارتی ادیبوں کو للکارتے تھے تو پورے بھارت میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ تخلیقی محاذ پر ہم یہ جنگ جیت چکے تھے اور جو جنگ تخلیقی محاذ پر جیت لی جائے وہ کبھی ہاری نہیں جاتی۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں۔ ہماری ایئر فورس نے دشمن کو ہلواڑہ کر دیا تھا۔ جب ریڈیو پاکستان سے شکیل احمد خبریں پڑھتااور ایک خاص لہجے میں کرک کر کہتا کہ ہمارے طیاروں نے پٹھانکوٹ، آدم پور اور پلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے تو یوں لگتاتھا بھارتی فضائیہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ جنگ کے اگلے روز 7ستمبرکو پاک فضائیہ نے واضح برتری حاصل کر لی۔ سرگودھا کی فضائوں میں ہمارے شہرہ آفاق پائلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ طیارے مارگرائے اور یہ آج تک فضائی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ دشمن کو اندازہ ہو گیا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یاد رہے کہ یہ صدر ایوب خاں کی تقریر کا ایک ٹکڑا تھا جس میں کلمہ طیبہ پڑھ کرکہا گیا تھا کہ اس کلمے کی چھائوں میں آگے بڑھ کر دشمن کو نیست و نابود کر دو۔ میں نے ایم ایم عالم کے ساتھ دوچار بار تقریر کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ میں کوئی ایسا منکسرالمزاج شخص نہیں ہوں۔ مگر جب ایم ایم عالم کے ساتھ سٹیج کی طرف بڑھتا تو دانستہ اس بات کی کوشش کرتا کہ ان سے دو تین قدم پیچھے رہوں۔ پاکستان ٹوٹ گیا، مگر بنگال کے اس سپوت نے بنگلہ دیش جانے کے بجائے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔ وہ کراچی میں فضائیہ کے ایک میس میں رہتے رہے۔ لوگ ان سے ملنے جاتے تو اندازہ ہوتا کہ وہ کیسے مجاہد ہیں۔ سمندروں میں بھی ہم نے اپنی برتری قائم کر دی۔ پہلے ہی ہلے میں کراچی کے قریب ایک بھارتی بحری اڈے کو تہس نہس کر دیا۔ آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جو اس آپریشن میں موجود تھے۔ ہماری واحد آبدوز غازی بمبئی کے سمندر میں پانیوں میں گھات لگا کر جا بیٹھی اور بھارتی بحریہ کو ہمت نہ ہوئی کہ باہر نکلیں۔ پوری جنگ میںوہ اپنی بندرگاہ میں دبکی بیٹھی رہی۔
اس وقت قوم کیسے متحد تھی۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ساری حزب اختلاف جو ابھی ایوب خاں کے خلاف صدارتی انتخاب لڑ چکی تھی۔ ایوان صدر میں انہیں یہ یقین دلانے گئے کہ ہم اس جنگ میں آپ کے ساتھ ہیں۔ قومی جنگیں یوں لڑا کرتی ہیں۔ ہر جنگ کے زمانے میں ہمارے اہل سیاست نے ایسے ہی اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔ اگر اب متحد دکھائی نہیں دیتی تو بھی مجھے یقین ہے کہ طبل جنگ بجتے ہی سب ایک ہو جائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قوم کو اپنی تاریخ سے مکمل طور پر آگاہ رکھیں۔ اگر سانحہ مشرقی پاکستان میں ہم نے ہزیمت اٹھائی تو نئی نسل سے اسے چھپانے کی ضرورت نہیں۔ قومیں اپنے ماضی سے سیکھتی ہیںاور مستقبل کی حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ ہم اپنے ماضی کو جانیں گے تو آنے والے معرکے کی تیاری کر سکیں گے۔ کشمیر میں بھارت جو کچھ کر رہا ہے، ہم اگر ماضی سے واقف ہوں تو جان جائیں گے کہ وہ آئندہ بھی کیا کر سکتا ہے اور ہم نے اس کا کیسے جواب دینا ہے۔ یہ چند سطریں میں تیزی سے لکھ رہا ہوں بس یوں سمجھیے بچوں سے باتیں کر رہا ہوں۔ یاد رکھیے اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو بچوں سے باتیں کرنا سیکھا ہو گا۔ یہی ہماری آئندہ فتح کی علامت ہو گی۔
اصل میں یہ موقع مجھے میری بھانجی فضہ نے دلایا جس نے اپنی میڈیم صوبیہ کو بتایا کہ میں اس کا ماموں ہوں۔ میں نے اس محفل کو بہت انجوائے کیا۔ یہ کوئی دانشوری کا محل نہ تھا۔ نئی نسل کے ساتھ چند لمحے گزارنے کا موقع تھا۔ یقینا یہ بہت قیمتی گھڑیاں تھیں۔