میں نے عرض کیا تھا کہ پی ڈی ایم ختم نہیں ہوئی، پی ڈی ایم کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب کسی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے لانگ مارچ، دھرنا، استعفے یہ سب ہتھ کنڈے کارگر ہوتے ہیں۔ کارگر نہ ہوں تو بامعنی ہوتے ہیں۔ زرداری کی صدارت کے زمانے میں لگتاہے کہ حکومت آج رخصت ہوئی کہ کل۔ زرداری ملک سے باہر گئے تو کہا گیا واپس نہیں آئیں گے۔ میمو گیٹ نے تو گویا چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ پھر کہا گیا کہ اسے پانچ سال پورے کر لینے دو۔ یہی بہتر ہے وگرنہ خوامخواہ ہیرو بنے گا۔ گستاخی معاف، ایسے ہی کہا گیا اور ایسے ہی سوچا گیا۔ اس حکومت کے اول نصف میں یہ حکمت عملی معقول معلوم ہوتی تھی کہ نالائق حکومت کو رخصت کیا جائے جو انرجی کا مسئلہ بھی حل نہ کر سکی اور رینٹل پاور جیسے سکینڈل پیدا کر کے بیٹھی ہوئی ہے۔ یاد ہے اس کے بعد سیاست کے انداز بدلے گئے۔
اس وقت بھی نقشہ یہ ہے کہ الیکشن کی تیاریاں ہیں۔ حکمران جماعت نے دو تین معرکوں کے بعد اب اطمینان سے اپنے ووٹرز کی طرف رخ کیا ہے۔ اب اس شور و غوغا میں کمی آئی ہے کہ ہم صرف پرانوں کا گند صاف کر رہے تھے، اس لئے کچھ نہ کر سکے تھے۔ اب وہ کہتے ہیں ہم نے گند صاف کیا اور قبلہ درست کیا۔ دیوالیہ ہوتے ہوئے ملک کو پائوں پر لاکھڑا کیا۔ شوکت ترین نئے اقتصادی مسیحا بن کر آئے تو انہوں نے درست اعلان کیا کہ حکومت نے ڈالر کی قیمت بڑھا کر اور شرح سود میں اضافہ نہ کر کے معیشت کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ جب معاملات ان کے ہاتھ میں آئے تو نئی حکمت عملی تیار ہوئی۔ پہلے اعلان کرایا گیا کہ ہماری شرح نمو4فیصد کے قریب ہے اور آئندہ سال 5فیصد ہو جائے گی یعنی دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ اس بات کو ذرا اونچی سروں میں گایا گیا کہ کون کہتا ہے ہم نے تین سال ضائع کر دیے۔ یہ ان تین برسوں کا ثمر ہے کہ ہمارے ہاں ریکارڈ ترقی ہوئی ہے اور اب دنیا بھر کے ثمرات ہماری جھولی میں آ رہے ہیں۔ ایک اچھا سیاسی بیانیہ تھا۔ بجٹ بھی اس شان سے پیش کیا گیا کہ معیشت کے سارے عیب چھپا لئے گئے۔ بتایا ہی نہ گیا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے۔ یوں لگتا تھا کہ ہم طاغوت سے ٹکرا جائیں گے۔ آئی ایم ایف کون ہوتا ہے ہمیں حکم دینے والا کہ ہم بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ امپورٹ ایکسپورٹ کا فرق ہم نے سب ٹھیک کر دیا، اب ہم ترقی کے راستے پر دستک دے رہے ہیں۔
اس پر مجھے گمان ہوا کہ کہیں ہم قبل از وقت انتخابات کی طرف تو نہیں جا رہے۔ مگر مہنگائی، بے روزگاری، غربت کا عفریت اس طرح منہ کھولے کھڑا تھا کہ لگتا تھا کہ فوری طور پر نہیں، بہرحال اب تیاری شروع ہے۔ ایسے میں حزب اختلاف کی جس جماعت نے اس سمت کو پہچانا وہ پیپلز پارٹی تھی۔ اس کے لئے اب لازمی تھا کہ وہ سڑکوں کی سیاست کو خیر باد کہے۔ حکومت پانچ سال رہتی ہے تو رہے مگر اسے الیکشن کے لئے تیار رہنا ہے۔ آج ہوں یا کل یا پانچ سال بعد اور اس کے مطابق حکمت عملی طے کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی شہباز شریف کی طرح یہ سوچتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تصادم مول لے کر وہ انتخاب نہیں جیت سکتی اس کو اسٹیبلشمنٹ سے مل کر رہنا ہو گابلکہ اس کی رضا اور رضا مندی درکار ہو گی۔ گلگت بلتستان کے بعد کشمیر تک وہ اسی انہماک سے لگی رہی ہے۔ کشمیر میں اسے ایسی صورتحال نظر آئی کہ لگا اس کی حکمت عملی درست ہے۔ پھر سیالکوٹ کے ایک حلقے نے آنکھیں کھول دیں۔ زرداری پنجاب کا دورہ کرنے لگے۔ یہ تک کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کو پنجاب سے ہرانے کے لئے زرداری ق لیگ اور پی ٹی آئی سے بھی اتحاد کر لیں گے یا پی ٹی آئی نہ سہی اس کے ایک دھڑے کی ہمدردیاں ان کی جھولی میں ڈال دی جائیں گی۔ مریم نواز اشارہ دے چکی تھیں کہ نیا وزیر اعظم سلیکٹ کر لیا گیا ہے۔ عین اس وقت کہا جب پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے علیحدہ ہو رہی تھی۔ پھر بلاول بھی سندھ میں ایسی تبدیلیاں کرنے لگے جو انتخابات کے لئے ضروری تھیں، بلکہ اس بات پر بھی غور ہونے لگا کہ وہ وزیر اعظم بنے تو کون کون کس کس پوزیشن میں ساتھ جائے گا اور یہ کہ سندھ کا بندوبست کیاہو گا۔ اتنے عرصے میں بلوچستان سے بھی دوبھلے مانس ان کے ساتھ آ گئے۔ تو کہا گیا کہ بلاول وزیر اعظم بننے کے لئے خود کو تیار کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے یہ نقشہ دیکھا تو وہ بھی ہڑ بڑا کے اٹھی۔ اس کی ساری شہرت عوام میں اس کے اثرورسوخ پر تھی۔ اسے وہ نواز شریف کے بیانیہ کا کرشمہ کہتے تھے۔ مریم مجمع کھینچ رہی تھیں۔ شہباز جیل سے رہا ہونے کے بعد آرام سے بیٹھے تھے اور صاف کہہ رہے تھے کہ الیکشن جیتنے کے لچھن دوسرے ہوتے ہیں۔ ن لیگ کی اصل طاقت ٹکٹ تھااور ٹکٹ وہ جو نواز شریف (یا مریم نواز) دیں، باقی سب بے کار ہے۔ مگر الیکشن کی جوڑ توڑ، ہر حلقے میں انتخابی بساط درست طور پربچھانا، یہ سب کچھ کشمیر سے لے کر سیالکوٹ تک ثابت ہو گیا کہ اس کے لئے کچھ اور بھی درکار ہے۔ وہ کون کرے گا اور کیسے کرے گا۔ پارٹی کی اکثریت نواز شریف سے ہٹنا نہیں چاہتی، اب وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف راستہ دکھائیں اور سمجھائیں کہ الیکشن کیسے لڑا جائے گا۔ دبائو بھی پڑنے والا ہے اس سے کیسے نپٹا جائے گا۔ مرے خیال میں ن لیگ کے لئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اسے صرف زور بازو سے یا زور گلو سے نہیں جیتا جا سکتا۔ آفرین ہے مسلم لیگیوں پر کہ وہ ڈٹے ہوئے ہیں، مگر تابہ کے کوئی بھی خودکشی نہیں کرنا چاہتا۔ ایسے میں راہ عمل تلاش کرنا ضروری ہے۔ ن لیگ کو آئندہ انتخاب ہر صورت جیتنا ہے، خاص طور پر وسطی پنجاب میں یعنی اپنے حلقہ اثر میں وگرنہ تاریخ کا پہیہ بہت دور نکل جائے گا۔ پھر واپسی کا سفر بھی دشوار ہو گا۔ شاید وہ مل کر اس نتیجے پر پہنچے بھی ہیں مگر ابھی انہیں بہت کچھ کرنا ہے۔ موجودہ مسلم لیگ ن اس ملک میں کئی طرح کے اثاثوں کی وارث ہے۔ ان اثاثوں کو ہر صورت باقی رہنا ہے۔ مجھے شک ہے کہ موجودہ صورت حال میں اس بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بہرحال وقت سب کچھ سکھا دیتا ہے، اب بھی راستہ نکال لے گا۔
یہ تین بڑی جماعتوں کا امتحان ہے۔ باقیوں کے امتحان بھی ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہاں یاد رہے کہ یہ سب کچھ بھی علاقائی، عالمی حالات سے منسلک ہے جن کی طرف اشارے میں کرتا رہاہوں۔ یہ نہیں کہ ہمارے فیصلے کابل میں ہوں گی۔ یہ بھی کہ واشنگٹن اور بیجنگ بیک وقت اہم ہو گئے ہیں۔ اس معاملے کو آسان نہ لیں۔ یہی سب سے بڑا امتحان ہے۔