ویسے تو ہم نے ہر دور کو کم از کم پاکستان کے حوالے سے نازک دور کہا ہے، مگر موجودہ ایام جو ہم پر بیت رہے ہیں، بلاشبہ نازک ترین ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ صدی دو عظیم جنگوں کی صدی تھی، سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا، اقتصادی کسادبازاری کا دور تھا، اور اب معلوم ہوا ہے کہ اس میں ایک زمانہ وہ بھی آیا تھا کہ لوگ جنگِ عظیم کو بھی بھول گئے تھے۔ یہ ایک عالمگیر وبا کے دن تھے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سے نکلنے کے لئے امریکا جیسے ملک کو ایک قیادت کا انتظار کرنا پڑا۔ صدر کی صورت میں جب روز ویلٹ اقتدار میں آئے تو انہوں نے جس طرح امریکا کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ واحد صدر بنے، جنہیں امریکیوں نے بار بار منتخب کرنے کا اعزاز بخشا۔
اس صدی کی جو وبا آئی ہے، اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کسی قیادت سے محروم ہے۔ امریکا، برطانیہ دونوں کے قائدین پیدل ہیں، اپنی تو بات بھی نہ کیجیے۔ ہم ایک طویل عرصے سے قیادت کے بحران کا شکار ہیں۔ بد قسمتی سے اس وقت بھی قوم کو اپنی قیادت پر اعتماد و اعتبار نہیں ہے۔ اس قیادت پر قوم یکسو نہیں ہے۔ اس کے فیصلے تذبذب اور گومگو کا شکار ہیں۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ جب بھی ملک میں جمہوریت کی بساط الٹنے کی کوشش کی گئی، قوم کی جمہوری امنگیں سامنے آ گئیں۔ اس کے جمہوری ادارے لاکھ کمزور سہی، مگر قوم کا جذبۂ جمہوریت کبھی کمزور نہیں رہا۔ اس وقت بالکل الٹ صورت حال ہے۔ سچ کہتا ہوں، بالکل الٹ صورتحال ہے۔ قوم اپنی جمہوری اور سیاسی قیادت سے مایوس ہے تو اسے، اس بات پر اعتماد ہے کہ اس کی اجتماعی بصیرت نے کسی نہ کسی طرح ایکا کر لیا ہے۔ اب یہ بحث نہیں کہ اس ایکے کے پیچھے ڈیپ سٹیٹ ہے، اسٹیبلشمنٹ ہے، بیوروکریسی ہے، خاکی یا سول یا اسے کچھ بھی نام دے دیجیے، اس کج فہمی، کج بحثی کے دنوں میں یوں لگتا ہے قوم کی باطنی قوتیں سامنے آ گئی ہیں۔ اگر کوئی اور زمانہ ہوتا تو ہم اس پر چیخم دھاڑکرتے تو غیر جمہوری عناصر نے زمانہ اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے، اب اطمینان ظاہر کر رہے ہیں کہ اس الل ٹپ میں کوئی تو ہے جو ملک کے معاملات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ وگرنہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ حکومت کنفیوژ ہے، قیادت گر مگر میں ہے۔ اپوزیشن بھی یک سو نہیں کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اور یہ دن کئی لحاظ سے چیلنج ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج معاشی ہے۔ اس لحاظ سے نہیں کہ اس وبا نے ملکی معیشت کو بے حال کر دیا ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ہم جس رخ پر جا رہے تھے، اس نے ملک کے مالی و مالیاتی معاملات کا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ وبا تو اب ایک حیلہ بن گئی ہے، جس کی آڑ میں ہم اپنی کوتاہیوں کو چھپا رہے ہیں۔ چلئے، پہلے تم یا پہلے میں کی بحث کو چھوڑ ئیے۔ اس وقت ملک کی ستر بہتر سال کی تاریخ میں یہ پہلا موقع آیا ہے کہ ہماری معیشت سکڑ رہی ہے۔ مطلب یہ کہ ترقی کرنا تو ایک طرف، یہ ترقی معکوس کر رہی ہے۔ پیچھے کی طرف جا رہی ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ملک کی معیشت 2 فیصد سے ذرا سی زیادہ ترقی کر پائے گی۔ ایسے بھی اندازے تھے کہ دو فیصد سے بھی قدرے کم رہے گی۔ ہم اگرچہ یہ کہہ کر تسلی دیتے تھے کہ انشاء اللہ تین فیصد تک چلی جائے گی۔ اب کہہ رہے ہیں 1 1/2فیصد سکڑ جائے گی۔ یہ وہ سال تھا جس میں ہمارے پرانے اندازوں اور پرانے معاشی تصورات کے۔
ہمیں 7 فیصد ترقی کرنا تھا۔ ہم نے معیشت کو اس رخ پر رکھا ہوتا اور درمیان میں روڑے نہ اٹکائے ہوتے۔ یہ روڑے سیاسی ہوں، انتظامی ہوں یا عالمی تو اس وقت جب اس وبا نے ہمیں آن پکڑا ہے، ہم خاصی رفتارس ے آگے جا رہے ہوتے۔ آئی ایم ایف نے شرط لگا دی تھی خبردار جو 2۔ 4 فیصد سے زیادہ ترقی کی منصوبہ بندی کی۔ ہمارے اپنے معیشت دان اگرچہ 4 فیصد کی نوید سنا رہے تھے۔ ہم مجبور ہیں کہ پوچھے بغیر ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کر سکتے۔ ہم مجبور ہیں کہ سی پیک کو آگے نہیں چلا سکتے۔ بھاشا ڈیم ہمارے لئے ناگزیر ہے، ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دشمنی نے پہلے کالاباغ ڈیم بننے نہ دیا، اب بھاشا پر اڑنگے لگائے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے یہ گلگت بلتستان تک جاتا ہے اور یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ اسے ہم اپنے وسائل سے تعمیر نہیں کر سکتے۔ عالمی اداروں نے وسائل فراہم کرنے سے جھنڈی ہلا کر انکار کر دیا۔ صرف چین ایک ملک ہے جو مدد کر سکتا ہے۔ شہباز شریف نے اپنے انداز میں کہہ دیا تھا کہ وہ چین سے اس کے لیے فنڈز لا سکتے ہیں۔ اب بعد از خرابی بسیار ہم نے ایک چینی کمپنی سے معاہدہ کیا ہے، جو پاک فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کے تعاون سے اس ڈیم کے ایک بڑے حصے کی تعمیر 2028ء تک کر پائیں گے۔ ہم نے اس میں بھی دو سال کی تاخیر کر دی۔ گزشتہ حکومت نے کوئی سوا سو ارب کی رقم اس ڈیم کی زمین خریدنے پر خرچ کر رکھی تھی۔ دو سال ہم نے ثاقب نثار کی خوش دلیوں میں گزار دیے۔ پیسہ کہاں سے آیا، سب سے پہلے ہمارے فوجیوں نے اپنی تنخواہوں سے کٹوتی کرائی، پھر پورے ملک کے سرکاری اورنجی اداروں سے کٹوتی ہوئی، جناب چیف جسٹس غیر ملکی دورے پر گئے۔ سب مل ملا کر کوئی دس ارب اکٹھے کئے۔ اس سے کیا بنتا ہے۔ چین کی مدد سے بننے والا دوسرا منصوبہ پشاور سے کراچی تک ریل لائن کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑا چلا آ رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ پر پیش رفت کا کام بھی رکا پڑا ہے۔ قدرت کی ستم ظرفی دیکھئے کہ اب جنرل عاصم سلیم باجوہ اس کام کے ذمہ دار قرار پائے ہیں، تو لگتا ہے شاید کچھ نہ کچھ ہو جائے۔ یہ منصوبہ جو بقول مشرف کے 2016ء تک مکمل ہونات ھا۔ یہی کالا باغ سمیت پانچ ڈیموں کا منصوبہ سب اکٹھے بننا تھے، سب کے سب دھرے رہ گئے ہیں۔ اس میں تو وبا کا کوئی دخل نہیں ہے۔
بات پھیلتی جا رہی ہے۔ ایک طرف کورونا ہے، دوسری طرف بجٹ۔ اور بجٹ کے سر پر آئی ایم ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس بات سے قدرے اطمینان ہوا کہ شرح سود مزید کم کر دی گئی ہے۔ مگر ہم ہاتھ پاؤں چھوڑے بیٹھے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ملک کیسے چلے گا۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے اور شرح سود کم کرنے سے ہمیں جو ریلیف ملا ہے اس سے ہماری معاشی قیادت اس کا کوئی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف 5100 بلین ٹیکسوں کی حدمقرر کرنا چاہتا ہے، جس کا مطلب بتایا جا رہا ہے کہ 80 ارب مزید ٹیکس لگانا پڑیں گے جو ہماری معیشت برداشت نہ کر سکے گی۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم نے ٹیکسوں کی جو حد مقرر کر رکھی تھی، اس سے کہیں کم ٹیکس اکھٹا کر پائے ہیں۔ ہم خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے امپورٹ میں کمی کر دی ہے۔ معلوم ہے اس کا مطلب کیا ہے۔ صاف مطلب یہ ہے کہ ہم انہیں صنعتی ترقی کے لئے جو تیل اور خام مال اور مشینری در آمد کر رہے تھے، اس سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ برآمدات ہماری بڑھ نہیں رہیں۔ عالمی منڈیوں کی بدلتی صورت حال میں ہمارے لئے یہ اور بھی نا ممکن ہو جائے گا۔ غیر ملکوں میں ہمارے شہری بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ترسیلات زر میں کمی ہونا یقینی ہے۔ بہت بڑا چیلنج در پیش ہے۔ ملک کے اندر بھی روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ جائیں تو کہاں جائیں۔ ہماری جو قیادت وائرس سے نبرد آزما ہے، وہ لاکھ جنگ جوانہ انداز رکھتی ہو، معیشت کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ہمیں چین کی طرف دیکھنا ہوگا، مگر کیسے۔ آئی ایم ایف سر پر کھڑا ہے۔ یہ نہیں کہ ملک میں معیشت دانوں کی کمی ہے۔ مگر ہم ان کا استعمال بھی توجانتے ہوں۔
وبا کے پھیلاؤ کا اندیشہ، معیشت کو لاحق خطرات، آئی ایم ایف کی لٹکتی تلوار اور ہماری سیاسی قیادت کا بے اثر ہونا، یہ سب ایسے چیلنج ہیں جو بہت ہی مہلک ہیں۔ کیا سڑک کے دوسرے طرف روشنی ہے۔ صرف یہ خیال کہ اس قوم کا اجتماعی جذبہ کار جاگ اٹھے تو اللہ مدد فرما دیتا ہے۔ حکومت کا کمال ہے کہ کبھی سب کے خلاف جنگ نہیں چھیڑتی۔ ایک زمانے میں لگتا تھا زرداری نہیں بچیں گے، ان کے جراثیم ہی ایسے ہیں۔ اب لگتا ہے شہباز نہیں بچ پائیں گے، ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ درمیان میں احساس ہو رہا تھا کہ اپنے بھی کیفر کردار کو پہنچیں گے۔ جہانگیر ترین بھی دھر لیے جائیں گے۔ مگر کیا ہو رہا ہے، سب سے بڑا ڈر تو یہ ہے کہ ہم گندم کی خریداری بھی پوری نہیں کر پا رہے۔ ہماری سب سے بڑی محافظ تو ہماری زراعت تھی۔ ہم خوراک میں خود کفیل تھے۔ بھوکے مرنے کا کوئی ڈر نہ تھا۔ اب کیا ہوگا۔ ہم بے بس ہیں۔ اسے ہی تو قومی بحران کہتے ہیں۔ خدا ہم پر اپنا کرم کرے۔ قومی یکجہتی کی ضرورت ہے یا پھر کسی نئے ڈنڈا بردار کا انتظار ہے۔ خدانہ کرے، مگر ڈر لگتا ہے۔