Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Davos Ka Kharcha

Davos Ka Kharcha

کئی بار ایک بات کے متضاد و متصادم معنی بھی ہوتے ہیں۔ آج کل اسے perceptionپرسپشن کہا جاتا ہے۔ معیشت کیا ہے یہ بات اپنی جگہ مگر اس معیشت سے آپ کیا سمجھتے ہیں یہ بات اہم ہو جاتی ہے۔ ان دنوں اس بات سے ہم روز دوچار ہو رہے ہیں۔ کئی بار یہ تاثر یہ تصور یہ پرسپشن بنایا جاتا ہے اسے خاص انداز میں ڈھالا جاتا ہے۔ ایک وزیر ابھی ابھی ٹی وی پر اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں کہ ڈیووس کے جو دورے نواز شریف، زرداری، یوسف رضا گیلانی نے کئے وہ کتنے کتنے میں پڑے۔ 2012ء میں یوسف رضا گیلانی نے ساڑھے چار لاکھ ڈالر خرچ کئے۔ نواز شریف ساڑھے سات لاکھ ڈالر سے زیادہ پھونک آئے۔ شاہد خاقان عباسی ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ خرچ کر آئے اور فقیر منش عمران خان صرف 68ہزار ڈالر میں یہ دورہ کر آئے۔ شاید حکومت پاکستان کو معلوم ہی نہ تھا کہ عمران خاں ڈیووس میں یہ بتا چکے ہیں کہ ان کا یہ دورہ ممکن نہ تھا۔ کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے کہاں۔ یہ تو ہمارے دوست اکرام سہگل نے ساڑھے چار لاکھ ڈالر ادا کئے۔ پتا ہے یہ رقم کتنی ہوتی ہے۔ 7کروڑ روپے پاکستان سے بھی زیادہ۔ اکرام سہگل ایک بڑے بزنس مین بھی ہیں۔ وہ ہر سال ڈیووس جاتے ہیں۔ بزنس میں یہ ایک بہت بڑی بزنس ایکسر سائز ہے۔ وہ ہمارے بھی دوست ہیں۔ دو چار سال پہلے انہوں نے اپنے اس فقیر دوست کو بھی دعوت دی تھی کہ میں ان کے ساتھ ڈیووس چلوں۔ مجھے کوئی اجتناب نہیں ہونا چاہیے تھا مرے تو ان سے کوئی بزنس انٹرسٹ نہ تھے۔ یہ بھی نہیں کہ وہ ایک صحافی کو ممنون احسان کرنا چاہتے ہوں۔ وہ خود لکھاری ہیں۔ کالم بھی لکھتے ہیں اور کتابیں بھی۔ پھر یہ ایک ایسی دعوت تھی جس میں خاصی کشش تھی۔ پھر میں کیوں نہیں گیا۔ سچ کہوں تو بس موڈ نہیں بنا۔

مگر عمران خاں کو یہ معاملہ نہیں ہے۔ ٹی وی پر میں ان دنوں ایک انٹرویو دیکھ رہا تھا۔ وہ لبنان کا صدر یاکوئی اہم شخص تھا یا کوئی اور تھا۔ یہ تو اندازہ ہے کہ تھا اہم۔ میں اس کی بات کی طرف اتنا متوجہ تھا کہ تفصیل نہ جان سکا۔ اس سے پوچھا گیا، کیسے آئے، ملک کے پیسے ضائع کئے ہیں۔ جواب آیا بھئی اپنے پیسوں سے کیوں آئے، کوئی وجہ ہو گی۔ کیا عمران خاں اور حکومت پاکستان کو یہ معلوم ہے کہ وزیر اعظم کسی دوسرے شہری کے پیسے پر اس طرح کا ٹور نہیں کر سکتے۔ خاص طور پر اگر کسی کی غرض مندیاں vested interst حکومت کے ساتھ ہوں۔ اکرام سہگل ملک کی سب سے بڑی سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ تھے۔ ایک ڈویژن فوج کے برابر ان کے پاس مسلح نفری ہے۔ غالباً امریکی سفارت خانے کی سکیورٹی بھی ان کے پاس ہے۔ ابھی دو چار ہفتے پہلے تو انہوں نے کے الیکٹرک کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیا ہے۔ ملک کا وزیر اعظم ایسے کسی شہری کے پیسے سے کیسے ایک ایسی کانفرنس میں جا سکتا ہے جہاں بے شمار اقتصادی فائدے مل سکتے ہوں۔

اب آپ غور کر لیجیے کون سا تاثر دینا ٹھیک ہے۔ ہم نے کم خرچ کیا یا ہم کسی کے پیسوں پر گئے۔ عمران خان اس بات کو برا نہیں سمجھتے کہ وہ دوستوں کے پیسے خرچ کرائیں۔ وہ سعودی شہزادے کے سہارے پر امریکہ جا سکتے ہیں پھر کئی خبروں کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک خودمختار ملک کے سربراہ کے طور پر ایسا کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں بھی پسند نہیں کیا گیا۔ میں اس وقت قانونی بحث نہیں چھیڑ رہا۔ میں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ جناب وزیر اعظم سے بھی پوچھا جا سکتا تھا کہ آپ کسی کے پیسے پر کیوں آئے انہیں یہ شوق بھی ہے کہ سفر پر کم خرچ کریں۔ وہ اگر آرمی کے طیارے میں جاتے ہیں تو مجھے نہیں معلوم اس کا خرچہ حکومت پاکستان کو کیا پڑتا ہے اور وہ کس مدمیں ظاہر کیا جاتا ہے۔ فوج کی طرف سے تحفہ ہوتا ہے یا کم خرچ پر یہ سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ پی آئی اے کا جہاز استعمال نہ کر کے ریاست کے کسی اور ادارے کا جہاز استعمال کرنا بچت نہیں ہے اور ادارے ہی نہیں افراد کی بھی مدد بھی نہیں لی جا سکتی۔ جہانگیر ترین کا، ملک ریاض کا، چودھری منیریا میاں منشا کا جہاز بھی یہ جو جہانگیر ترین نامی بزنس مین کے طیارے تحریک انصاف کے لئے چلتے ہیں تو کیا یہ مفت کے سیر سپاٹے کراتے ہیں۔ انگریزی والے تو اس موقع پر کہہ لیتے ہیں کہ کوئی کھانا مفت نہیں ہوتا۔ یہ اچھا ہے کہ آپ حکومت پاکستان کے خزانے سے خرچ کر لیں بجائے اس کے یہ تاثر پیدا کریں کہ ہم بڑی بچت کر رہے ہیں۔ یہ بچت غیر اخلاقی بھی ہے اور غیر قانونی بھی۔ دوست احباب سے مفتا لگانا اور بات ہے مگر سرکاری کاموں میں یہ طریقہ اپنانا درست نہیں ہوتا۔

بات میں قانون کی نہیں کر رہا بلکہ آغاز اس بات سے کیا تھا کہ ایک ہی بات سے مختلف تاثر پیدا ہو سکتے ہیں۔ آپ نے پیسے بچائے۔ یہ تاثر ملا کہ آپ کسی کے خرچ پر سیر کر رہے ہیں، ایک ہی بات سے ہم مختلف تاثرات پیدا کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب میثاق جمہوریت ہوا تو اسے 73ء کے بعد کی سب سے اہم دستاویز قرار دیا گیا۔ ہر ایک نے تعریف کی۔ بہت سی باتوں کے علاوہ اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ فوج سے سیاست دان رابطہ نہیں کریں گے۔ جمہوریت اسی جوڑ توڑ سے خراب ہوتی ہے جو فوج اور سیاست دانوں کے دمیان جنم لیتی ہے۔ ملک میں مارشل لاء اسی طرح لگے کہ سیاست دانوں کے ایک ٹولے نے فوج سے مل کر دوسرے کے خلاف سازش کی۔ یہ کہا جاتا تھا کہ اگر سیاست داں طے کر لیں، فوج کو دعوت نہ دیں تو ملک میں مارشل لاء نہیں لگ سکتا۔ چند ہی روز بعد بے نظیر نے مشرف سے این آر او کر لیا اور نواز شریف کو قائل کر لیا کہ یہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی کو ازسر نو رواں رکھنے کے لئے ضروری تھا وگرنہ یہاں ہمیں ملک میں آنے ہی نہ دیا جاتا اور ملک میں فوجی حکومت ہی رہتی۔ عمران خاں سمیت بہت سی پارٹیوں نے اس دلیل کو تسلیم نہ کیا۔ اب مگر وہ فخر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔

ان دنوں سیاسی جماعتوں نے یہ بھی طے کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کریں گی۔ بعدمیں اس کی تاویل یہ کی گئی کہ یہ مک مکا ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے گزشتہ صدی کے آخری عشرے کی انتقامی سیاست کو خیر باد کہہ کر جب آگے بڑھنا چاہا تو یہ کہا گیا کہ مل جل کر لوٹ رہے ہیں۔ اب کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔

اس بیانیے کو بھی دیکھ لیجیے کیسے نیب قوانین پر قانون سازی اس حکومت ہی نے شروع کر دی جو یہ کہتی تھی کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ جسے ہم یوٹرن کہتے ہیں۔ یہ کیا ہوتا ہے۔ ایک ہی بات سے دو مطلب نکلنے کا احتمال ہوتا ہے۔ ہم ایک مطلب اختیار کر لیتے ہیں، پھر اس سے بھاگتے ہیں۔ اس وقت ہم کس طرح سی پیک اور آئی ایم ایف کے درمیان الجھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے اور اس پر بھی قابض رہنا چاہتے ہیں۔ دونوں باتیں کئی بار درست لگتی ہیں مگر غور کریں تو ہر ایک کا مفہوم الگ الگ ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی کئی دلچسپ فیصلے کئے تھے۔ گورنر ہائوس کی دیواریں بلڈوز کر دیں گے، وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں بیچ کر بازار کا دودھ پئیں گے، سارے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں ڈی سی او ایس پی کے گھروں کو نیلام کر دیا جائے گا۔ سرکاری گیسٹ ہائوس نجی شعبے میں دے دیے جائیں گے۔ کسی نے کہا، اس کا فائدہ کیا۔ جواب آیا علامتی ہی سہی۔ لوگ جانیں گے کہ یہ حکومت کفایت شعار ہے۔ ان علامتوں کے چکر میں چلتے چلتے ہم کہاں آن پہنچے ہیں بیوقوفوں کی حد نہیں۔ وزیر اعظم ہائوس میں سب کام ہوتے ہیں۔ شاہی ضیافتیں حتیٰ کہ شادیاں، مگر ہم کہے جا رہے ہیں یہاں یونیورسٹی بنے گی اور وزیر اعظم انیکسی میں رہیں گے۔

اب وہ بنی گالہ رہ رہے ہیں مگر خرچہ خود اداکرتے ہیں۔ سکیورٹی کا خرچہ اور وہاں تک جانے والی سڑک کی تعمیر اپنی جیب سے کی ہے۔ اب یہاں کوئی لگ جائے حساب کرنے۔ سیکورٹی، سڑک، گھر داری اس سب کا جو خرچہ ہے کیا وہ وزیر اعظم کے انکم ٹیکس سے لگاکھاتا ہے۔ ایک بار کہا گیا سڑک پارٹی نے بنائی ہے۔ پارٹی کیا ہوتی ہے۔ جہانگیر ترین۔ کیوں خوامخواہ اپنی مرضی کے تاثر پیدا کرنے کے لئے سیدھے سادے تاثر کو بھی خراب کرتے ہیں۔