وہ ایک خوبصورت شام تھی بلکہ ایک خوبصورت دن تھا، اس لیے کہ پہلے تو دوپہر کے کھانے پر دعوتِ اسلامی کے زعما سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے اس جماعت کو بنتے اور پھلتے پھولتے دیکھا ہے۔ ایک سادہ سا آدمی جو میمن برادری کے علاقے میں چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا، ایک دن اچانک ایک تحریک لے کراٹھا۔ وہ لوگوں کے گھروں میں جاتا اور کہتا مجھے چھ ماہ کے لیے اپنا بچہ دے دیجئے اسے انسان کا بچہ بنا کر واپس کروں گا۔ بچہ جب گھر آتا تو اب اسے وہ سب دعائیں یاد ہوتیں جو اٹھتے بیٹھتے ہمیں پڑھنا چاہیے۔ گھر سے نکلنے کی دعا، واپس آنے کی دعا۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں تو بیت الخلا جانے کی دعا تک ہے۔
یہ سب دراصل ہمارے زندگی کے آداب میں جو ہم بھول چکے ہیں اس طرح اس تحریک نے لوگوں کی زندگیوں کو بدلنا شروع کر دیا۔ ہمارے ایک دوست واحد پرنس خود ایک میمن تھے اور اس جماعت کی کارکردگی سے واقف تھے۔ وہ اکثر مجھے ان محافل میں لے جاتے جہاں نہوں نے درود و سلام کی مجلسیں سجا رکھی ہوتی تھیں۔ اب معلوم ہوا کہ یہ جماعت دنیا کے کئی ممالک میں قائم ہو چکی ہے اور بے شمار اصلاح و خدمت کے کام کر رہی ہے۔ اب یہ سبز پگڑی والے نہیں، سفید پگڑی باندھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ راستہ بدلنا نہیں، موڑ کاٹنا ہے۔ و ہمیں نصیحت کر رہے تھے کہ کیا اچھا ہوا اگر آپ لوگ جو استطاعت رکھتے ہیں، ایک دو خاندانوں کی کفالت اپنے ذمے لے لیں۔
کفالت نہ کہیے، یوں کہہ لیجئے کہ انہیں ایک ماہ کا راشن باقاعدہ بنیادوں پر پہنچائیں کا بندوبست کریں۔ ہم تنظیم کے طور پر یہ کرتے ہیں، آپ انفرادی طور پر بھی یہ کریں تو کتنا اچھا ہو۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے علمی کام بھی بہت کر رکھا ہے۔ سچی بات ہے مجھے اس کی خبر نہ تھی۔ اس سب کا تذکرہ پھر کروں گا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک چینل کے ذریعے اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ حضرت امام احمد رضا خان قادری بریلوی کے ماننے والے ہیں۔ اب اس طبقے اور مسلک کے لوگوں نے بہت سے کام شروع کئے ہیں۔ گزشتہ دنوں المصطفی ٹرسٹ والوں کے میڈیکل شعبے میں کام دیکھنے کا موقع ملا۔ تحریک لبیک اس کی دوسری شکل ہے۔
بہرحال یوں لگتا ہے مختلف سمت سے آگے بڑھتے ہوئے منزل کی تلاش میں ہے۔ یاد آیا کہ گزشتہ دنوں پیر صاحب مانکی شریف والے تحریک پاکستان میں اپنے اجداد کے کارناموں کا پرچم لے کر میدان میں اترے۔ انہوں نے افغانستان کی بدلتی صورت حال پر سیمینار کیا۔ اس میں ایسی ایسی باتیں ہوئیں جو پہلے کبھی سنی نہ دیکھیں۔ ان لوگوں کے اندر کی صلاحیتیں مختلف راستوں کی تلاش میں ہیں۔ کبھی اس پر الگ سے لکھوں گا۔ اس وقت اتنا ہی کافی ہے۔
یہ تو دوپہر کی بات تھی جس میں گم ہوگیا۔ معاملہ ہے ایسا دل کش ہے۔ تذکرہ تو میں اس شام کا کرنا چاہتا تھا جو اس کے بعد برپا ہوئی۔ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ ہمارے شہر کا ایک فعال ادارہ ہے۔ ہمارے محترم خالد مقبول صاحب اس کے صدر ہیں۔ پہلے ہمارے پیارے دوست رئوف طاہر اس کے سیکرٹری تھے۔ آج کل غالباً تاثیر مصطفی یہ ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس شام یہاں تحسین فراقی کے اعزاز میں ایک تقریب برپا تھا۔ تحسین فراقی کو اقبال پر ان کی خدمات پر کوئی صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا فراقی سے میرا رشتہ دوچار سال یا نصف صدی کا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے۔ شاید روز ازل حق تعالیٰ نے ہمیں ایک کردیا تھا۔
ٹی ہائوس میں اس نوجوان کو گاہے دیکھاتھا مگر جب کراچی میں مجھے یہ خبر ملی کہ سراج منیر کے ساتھ دوچار لوگ جن میں تحسین فراقی بھی ہیں باقاعدہ محفلیں کر کے سوچ بچار کام کرتے ہیں تو اندازہ ہوا کہ اس کا علمی سلسلہ وہی ہے جو میرا ہے۔ یہ میرے قبیلے ہی کا فرد ہے۔ مشفق خواجہ ہمارے مہربان تھے۔ دنیا جہاں ان کی تحقیقی صلاحیتوں سے باخبر ہے۔ وہاں ان کی تخلیقی اپچ اور شگفتگی بھی ا پنی مثال آپ ہے۔ تحسین فراقی گویا ان کا بھی ویسا ہی مداح تھا جیسا یہ خاکسار۔ رشتوں کے ساتھ رشتے قائم ہوتے رہے حتیٰ کہ جب لاہور واپس آیا تو یوں لگا اپنے گھر کے کسی بچھڑے فرد سے ملا ہوں۔
مجلس ترقی ادب کو اس نے برصغیر کے عظیم المرتبت تہذیبی ورثے کا مرکز بنا دیا تھا۔ تحسین فراقی کی شہرت برصغیر تک نہیں ہے بلکہ وہ ایران تک میں بھی اپنے شاگرد رکھتے ہیں۔ اپنی اقبال شناسی، ادب، دوستی اور درست فکر کے ساتھ وہ ایک بے مثل شخصیت ہیں۔ وہ اس مسند پر تھے جہاں ان سے پہلے صرف چار افراد ہوئے۔ چاروں ایک سے ایک بڑھ کر۔ امتیاز علی تاج، حمید احمد خاں، احمد ندیم قاسمی اور شہزاد احمد پھر ہمارے یہ تحسین فراقی۔ بڑا ظلم ہوا، فراقی کے ساتھ نہیں، ادھر ادب کے ساتھ کہ انہیں اچانک اس ادارے سے فارغ کردیا گیا۔ میں اس وقت اس تنازع کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا کہ وہ دھیرے دھیرے عدالت میں چل رہا ہے۔ تاریخ اس گناہ کو کبھی معاف نہ کرے گی۔
میں نے ذکر کیا کہ تحسین فراقی کا تذکرہ ایران میں بھی ایک اقبال شناس اور فارسی کے استاد کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ تہران یونیورسٹی میں بھی رہے ہیں۔ ان دنوں اوریا مقبول جان بھی ایک ذمہ داری پر وہاں تھے۔ وہاں دونوں نے مل کر جو کام کیا، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اوریا وہاں سے جلدی واپس کیوں آئے، یہ الگ کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔ تاہم اس شام یہ ہوا کہ دونوں کی فارسی نے اقبال کا وہ پہلو روشن کردیا جو بدقسمتی سے ہم پاکستانیوں کی گرفت سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ ایرانی نہ صرف اقبال کی فارسی کے مداح ہیں بلکہ اس کی فکر سے بھی عاشق ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی کو تو چھوڑیئے، ایرانی انقلاب کے موجودہ نگران آیت اللہ خامنہ ای کا اقبال پر مضمون اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ دونوں نے اپنی تقریروں میں اقبال کے فارسی اشعار سے ایسا نقشہ کھینچا کہ میرا جیسا اقبال کا عاشق بھی بس سردھنتا رہ گیا۔
آخر میں مجیب شامی بھی آئے اور ایک مزے دار بات کہہ گئے۔ وہ یہ کہ اس ملک کی تاریخ میں چوری کے تین مقدمے بڑے دلچسپ ہیں۔ ایک چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا، دوسرا اصغر خان کے ساتھ ہم پر گاڑی کا پانا چوری کرنے کا اور تیسرا تحسین فراقی پر مخلوطہ چرانے کا۔ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ فی الحال میں رکا ہوا ہوں کہ بھائی اوریا نے روکا ہوا ہے۔ وقت آنے پر اور ضرورت پڑنے پر اپنا فرض ضرور ادا کروں گا۔