طالبان کون ہیں، کون تھے؟ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے بارے میں ہمارا رویّہ کیا رہا ہے اور ان کی اصل حقیقت کیا ہے، ان کے بارے میں بھی ہمارے تجزیے بدلتے رہے ہیں حتیٰ کہ داعش کو ایک زمانے میں ہمارے ہاں رومانوی اور افسانوی انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ فرانس میں فرانسیسی لڑکیاں ان کے سحر میں مبتلا ہو کر مسلمان ہوئیں اور مشرق وسطیٰ جہاد کے لئے روانہ ہو گئیں۔ ہم آج بھی حقیقت کی تلاش میں ہیں۔ یہ ہمارے سامنے ایک زندہ سوال ہے۔ چند ماہ پہلے، جبکہ دو چار سال پہلے ہم نے کیا شروع کیا تھا کہ ہمیں اپنا ہائوس ان آڈر کرنا چاہیے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ یہ پالیسی موجودہ حکومت نے آغاز نہیں کی تھی بلکہ خواجہ آصف نے وزیر دفاع یا شاید وزیر خارجہ کی حیثیت سے یہ بیان دینا شروع کی تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ بیانیہ اب ہماری مقتدر قوتوں کا ہے۔ ہم خود کو طالبان سے دور کرتے جا رہے ہیں۔
جب طالبان آئے تھے تو ہمارے چہیتے نہ تھے۔ اس لئے کہ جن کے خلاف انہوں نے علم بغاوت اٹھایا تھا وہ مجاہدین تھے۔ وہ مجاہدین جنہوں نے روسیوں کو اپنے دیس سے چلتا کیا تھا۔ ہم نے ان مجاہدین کا ساتھ دیا تھا۔ پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے تاہم یہ مجاہدین اپنے میں اتحاد نہ رکھ سکے۔ چنانچہ جب طالبان کی تحریک اٹھی تو پہلے تو ہم نے حیرانی سے دیکھا، پھر سکھ کا سانس لیا کہ چلو افغانستان میں ایک مستحکم اسلامی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ کیا ہوا کہ مجاہدین جم کر حکومت نہ کر سکے۔ یہ بھی تو آخر پکے مسلمان ہیں۔
یہاں سے ہمارے لئے مسائل پیدا ہونے لگے۔ ہم پھر بھی مطمئن رہے کہ مسلمان لوگ ہیں سمجھ جائیں گے۔ انہوں نے افیون کی کاشت بند کر دی ہے۔ افغانستان جیسے ہتھیار بند معاشرے میں ہتھیار رکھوا دیے ہیں۔ وہ کام جو امریکہ اپنے معاشرے میں نہ کروا سکا۔ امریکہ کی تاریخ دیکھیں تو یہاں انسانوں نے جیسے بسناسیکھا وہ ایک بقا کی جنگ لڑتے لڑتے آیا، اس لئے اس دور میں اسلحہ ایک ضرورت تھا۔ اب ایک مہذب اور جمہوری معاشرے میں بھی وہ اسے ختم نہ کر سکے۔ ہمیں جنرل حمید گل بتاتے تھے کہ عورتوں کے بارے میں بھی ان کا رویّہ بدل رہا تھا۔ اس کے باوجود بھی مسائل تھے، جنرل معین الدین حیدر جب وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے بتایا تھا کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے بھگوڑے افغانستان میں چھپے بیٹھے ہیں۔ وہ ان کی واپسی کے لئے افغانستان گئے ہیں مگر طالبان کی حکومت اس بارے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ ہم پریشان ہوئے۔ پہلی بار ہمیں احساس ہوا کہ معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ پھر اسامہ بن لادن کا معاملہ آیا جو مغرب کا بھی ایک زمانے میں لاڈلا تھا۔ امریکہ خوش تھا کہ وہ روسیوں کو ناکوں چنے چبانے میں مددگار ہے۔ پھر کیا ہوا کہ سب اس کی جان کے دشمن ہو گئے۔
پھر ہم طالبان اور القاعدہ میں فرق کرنے لگےجب داعش کا چرچا ہوا تو ہم نے پہلے تو ان کے گرد رومانوی ہیولے بنے، پھر ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ کوئی اور کھیل ہے جو مغرب کھیل رہا ہے۔ شام و عراق میں دوسرے ناموں سے القاعدہ کے جوانوں کو داعش کے خلاف منظم کیا گیا۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ ہمارے ساتھ عجیب کھیل کھیلا گیا۔ اب کچھ عرصے سے داعش خراسان اور داعش برصغیر کا نام آ رہا ہے، انسان کی یہ جبلت ہے کہ جب وہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے تواس کے اندر ایک عجیب اضطراب پیدا ہوتاہے۔ انقلابی روح پھر نچلی نہیں بیٹھتی۔ اگر ان کی تربیت اور رہنمائی کا نظام نہ ہو تو عجیب باغیانہ انداز اختیار کر لیتی ہے جو بعض اوقات منفی ہوتا ہے۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ منفی انداز بہت سوں کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ وہ ہر دم کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، چاہے یہ ان کے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
دشمن اس کا فائدہ اٹھاتا ہے پاکستان میں بہت سی دہشت گرد تنظیمیں اسی جذبے سے پیدا ہوئیں۔ لشکر جھنگوی دیکھ لیجیے۔ پھر یہ طالبان پاکستان۔ پاکستان میں اس کے کئی رنگ ابھرے۔ بلوچستان کراچی اور پرانے فاٹا میں اس کے کئی مظاہر ے سامنے آئے۔ ہمارے پاس ان سے نپٹنے کی حکمت عملی نہ تھی۔ سچ پوچھیے تو یہ ایک الگ بصیرت کا تقاضا کرتی ہے۔ صرف طاقت سے اس کا حل نہیں ڈھونڈا جا سکتا اور صرف مفاہمت سے بھی نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ادارہ یا شخص ایسا صاحب بصیرت ہے جو اس چیلنج کا اکیلا سامنا کر سکے۔ ہر کوئی اپنا سنا رہا ہے۔ ہمارے کل کے دوست ہمارے دشمن بنے اور اب ہم پھر انہیں دوست بنانا چاہ رہے ہیں۔ اس سب کے لئے تدبر کی ضرورت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی طبقوں میں مجموعی طور یہ تدبر رہا۔ ایک بار غالباً 96ء کے انتخابات کے موقع پر مولانا فضل الرحمن سے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان میں طالبان کی حکومت بنائیں گے۔ انہوں نے ترت جواب دیا کہ ان کا اپنا آئین ہے۔ ہم آئین پاکستان کے پابند ہیں یہ وہی جواب ہے جو ہندوستان کے بعض صوبوں میں کمیونسٹ الیکشن جیت کر دیتے رہے ہیں کہ وہ آئین ہند کے پابند ہیں یا فرانس میں لیفٹ والوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے دیا تھا کہ وہ آئین فرانس کے پابند ہیں۔ ہم ہر مسئلے کو بلیک اینڈ وائٹ میں لیتے ہیں۔
کل تک ہم خائف تھے کہ کابل میں طالبان کی حکومت نہ آ جائے ہم امریکہ سے بھی توقع کر رہے تھے کہ وہ ذرا رک جائے۔ معاملات طے کر کے جائے۔ طالبان کو مشورہ دے رہے تھے کہ جمہوریت کو تسلیم کر لیں۔ آج ہم دنیا کو سمجھا رہے ہیں کہ طالبان کو تسلیم کر لو، ان کا اپنا طرز حکومت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان ہمارے دہشت گردوں کی پناہ گاہ رہا ہے۔ نجیب دور کے دہشت گرد اور تھے، پہلے والے طالبان کے عہد کے دوسرے تھے اور یہ اشرف غنی اور کرزئی کے دور کے ہیں۔ اب ہم کیا چاہتے ہیں۔ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب ہم خود کر رہے ہیں یا حالات کا دھارا ہمیں دھکیلے لئے جا رہا ہے۔ خدا کے لئے غور کیجیے خواہ مخواہ بولے نہ جائیے۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنا مفاد عزیز ہونا چاہیے۔