اس وقت اصل صورت حال یہ ہے کہ شاید ملک میں کوئی ذی شعور سیاسی یا غیر سیاسی لیڈر اقتدار سنبھالنے کو تیار نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی ممکنہ تجاویز مسترد ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں ہیں انہیں اندیشہ ہے کہ وہ آ بھی گئے تو معاملات سنبھال نہ سکیں گے اور بھی وجوہات ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ اقتدار کی بندر بانٹ کی جو تجاویز زیر غور لائی جا رہی ہیں وہ بہت سے طبقوں کو پسند نہیں ہیں۔ اس وقت ہم صرف اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ملک اس مقام پر پہنچ گیا ہے جب اس پر حکومت کرنا آسان نہیں رہا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں دیگر وجوہ کے علاوہ مارشل لاء لگنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کون یہ بوجھ اٹھانے آئے۔
تو بنیادی بات تو بھی ہے کہ اس وقت کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ راستہ پھر ہی نکلے گا جب بنیادی تبدیلی کسی طور ممکن ہو۔ کہنے والے اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ ملک آئین کے مطابق چلایا جائے۔ اس کا سب سے بنیادی مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ادارہ چاہے وہ فوج ہی کیوں نہ ہو، آئین سے ہٹ کر معاملات ریاست میں دخل اندازی نہ کرے۔ یہ تو خیر سوچنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ تاہم جو یہ بیانیہ اختیار کئے ہوئے ہیں ان کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہو گی۔ ان کا بیانیہ درست ہے مگر شاید ابھی ممکن نہیں۔ پھر کیا کیا جائے۔
اس کے لئے ایک دوسری بنیادی سوال کا جواب ضروری ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ اب ہماری سٹریٹجک پارٹنر کون ہے۔ ایک ہی زمانے تک ہم امریکہ کو نیا سٹریٹجک پارٹنر بلکہ یوں کہہ لیجیے دفاعی حلیف سمجھتے تھے۔ اب ہم چاہیں بھی تو ایسا نہیں سمجھ سکتے۔ امریکہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ بھارت ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ افغانستان کو خیر باد کہتے وقت بھی اس نے صاف کہا تھا کہ اس کی اصل جنگ اب چین کے خلاف ہے۔ ایسے میں بھارت اسے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان اب ہمارا نان نیٹو حلیف بھی نہیں، کیونکہ یہ سب افغانستان کے حوالے سے تھا۔
تو کیا امریکہ کے لئے افغانستان کا مسئلہ ختم ہو گیا۔ نہیں۔ ایسا بھی نہیں مگر اس کے لئے اسے پاکستان کو نان نیٹو حلیف کہنے کی ضرورت نہیں۔ دھمکی سے مر جانے والوں کے لئے اب ان تکلفات کی ضرورت نہیں رہی۔ پھر ہم افغانستان میں کیا کر رہے ہیں۔ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ کیا یہ سب انسانی ہمدردی کی خاطر ہے یا ہماری مجبوری ہے۔ یہ مجبوری علاقائی ہے یا بین الاقوامی۔ افغانستان کے ترجمان کہنا ہے پاکستان بھی دوسرے ملکوں کی طرح ایک ملک ہے۔ اس کی حکومت ویسی ہے جیسی ہم سے پہلے افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت تھی۔ وہ تحریک طالبان پاکستان پر دبائو ڈالنے کو تیار نہیں شاید وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹولہ پاکستان میں اسلامی نظام لانا چاہتا ہے۔ آخر ہم چاہتے کیا ہیں۔ اس کو چھوڑیے افغان طالبان کیا چاہتے ہیں۔ ہم پھر کس کی پراکسی بنے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہم سب کچھ وہ سوچ رہے ہیں جو خطے کی وہ طاقتیں کرنا چاہتی ہیں جنہیں امریکہ اپنا حریف سمجھتا ہے۔ چین، روس، ایران ان سب ممالک کے مفادات اس خطے میں الگ ہیں۔ ہم اندر سے جانتے ہیں کہ ہمارا ممکنہ اتحاد ان قوتوں کے ساتھ ہے۔ اس لئے نہیں کہ یہ مقامی و علاقائی طور پر حقیقت ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ ان میں ہمارا دوست چین بھی شامل ہے۔ ہم اندر سے سمجھ چکے ہیں کہ ہمارا سٹریٹجک پارٹنر اب صرف چین ہو سکتا ہے۔ مغرب یا امریکہ نے ہمیں جھٹک دیا ہے۔ مگر ہم خوفزدہ ہیں، ہم ڈرے ہوئے ہیں ہم امریکہ کے مخالف دھرے میں کھڑے ہونا نہیں چاہتے۔ توہ اگر ہم امریکہ کے اتحادی نہیں تو کیا طفیلی بن کر گزر کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری سوچ اس طرف جاتی نہیں۔
ہماری ساری تربیت امریکی ہے۔ میں انقلابی ہوتا تو یہ کہتا سامراجی ہے۔ یہ نہیں کہنا چاہتا۔ یہ تربیت صرف فوج کی نہیں بلکہ ہر لحاظ سے ہمارے سارے مفادات، کاروباری مفادات سمیت امریکہ اور مغرب سے وابستہ ہیں۔ دفاعی اور عسکری طور پر تو سوائے ایف 16کے اب ہمارے پاس کچھ بھی امریکی نہیں۔ ہم نے جو جہاز، ٹینک یا جنگی سامان بنایا وہ چین کی مدد سے بنایا مگر ہم ذہنی طور پر امریکی ہیں۔ یہ سوچ بھی ہمارے لئے گویا سوہان روح ہے کہ اب ہم امریکی نہیں رہیں گے۔ درمیان میں ہم نے سی پیک کے ذریعے خود کو آزاد کرنا چاہا، مگر ہمیں روک دیا گیا میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں امریکہ سے دشمنی مول لے لینا چاہیے۔
جب ہم امریکی عسکری معاہدوں کا حصہ تھا تو ہم نے چین سے نہ صرف یہ کہ دشمنی مول نہیں لی تھی بلکہ چین کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ پھر ایسا وقت آیا کہ ہم چین اور امریکہ میں رابطے کا سبب بنے۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی میں اب اتنی بھی جان نہیں ہے کہ اب یہ ایسی حکمت عملی طے نہ کر سکے جو ہمیں اپنی حقیقی سٹریٹجک پارٹنر کے قریب لے جائے(بغیر کوئی نقصان کئے)سب سے بڑا مسئلہ اس وقت یہی ہے۔
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔ ہم نے ساڑھے تین سال سی پیک سے دور رہ کر بہت نقصان اٹھایا ہے۔ یہ ہمیں آئی ایم ایف کی جھولی میں یونہی نہیں ڈالا گیا۔ جب تک ہم عملی طور پر یہ طے نہیں کر لیتے کہ اگر ہم نے بھارت کے ساتھ اپنا تضاد Contradictionجاری رکھنا ہے تو لازمی ہے کہ ہم چین کو اپنا سٹریٹجک پارٹنر سمجھیں۔ بلکہ سمجھیں ہی نہ، اس پر عمل بھی کریں۔ ہمیں مغرب یا امریکہ سے کچھ نہیں مل رہا اور ہم نے اس کی محبت میں وہ بھی چھوڑ دیا ہے جو چین سے مل سکتا ہے۔ یہ گوادر میں کیا ہو رہا ہے۔
ہم کہاں کہاں لڑتے پھریں گے اور کس لئے لڑتے پھریں۔ اتنی بڑی تبدیلی آ رہی ہے کہ سب کچھ بدل سکتا ہے ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ میں زیادہ کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا مگر ایک بات صاف لفظوں میں کہے دیتا ہوں کہ اب ہمیں دو ٹوک انداز میں طے کر لینا چاہیے اور اس طرف عملی طور پر پیش قدمی کرنا چاہیے کہ چین اب ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق ریاست اب یہ سمجھ چکی ہے مگر ابھی تک ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔