فتح محمد ملک کا میں بہت احترام کرتا ہوں جس کی کچھ وجوہ بھی ہیں۔ میں انہیں ان لوگوں میں شمار کرتا ہوں جنہیں پیٹریاٹک لیفٹ کا نام دیتا رہا ہوں جیسے مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی۔ یہ بھی خیر پرانی بحث ہے، لیفٹ نے ہم پاکستانیوں کو بہت تنگ کیا۔ بالآخر انہیں بھٹو ازم میں پناہ مل گئی۔ فتح محمد ملک کا مجھے علم نہیں کہ ان کی پیپلز پارٹی میں کیا حیثیت تھی۔ اتنا جانتا ہوں وہ حنیف رامے کی وزارت اعلیٰ میں ان کے مشیر یا معاون خصوصی تھے اور وہی کام کرتے رہے ہیں جو ان سیاسی عہدہ کا تقاضا ہوتا ہے۔ سیاست سے ان کی وابستگی ہمیشہ قائم رہی حتیٰ کہ پارٹی کے موجودہ دور میں اسی کارن وہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر بنا دیے گئے۔ چانسلر، کوئی حرج نہیں، مگر یہ تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ ان کے ادبی تحریروں میں بھی گاہے گاہے ان کی اس سیاست بازی کے اثرات دانشورانہ انداز میں نظر آتے ہیں۔
آج یہ تحریر لکھنے کی وجہ ان کا ایک مضمون بنا ہے جو انہوں نے ممتاز ادبی جریدے الحمرا میں لکھا ہے۔ اس مضمون کا نام ہے۔ محمد حسن عسکری اور سلیم احمد یگانگت سے بیگانگی تک۔ اس مضمون کی ابتدا اور انتہا دونوں انہوں نے اس بات سے کی ہے کہ حسن عسکری آخری دور میں سلیم احمد کی شکل دیکھنے کے بعد روادار نہ تھے۔ یہ یقینی طور پر ایک گمراہ کن بات ہے۔ میں 73ء میں کراچی گیا تھا۔ میں نے دانستہ عسکری صاحب کے مزاج کی وجہ سے ان سے براہ راست ملاقات سے اجتناب کیا، تاہم انہیں جب بھی دیکھا سلیم احمد کے گھر پر دیکھا جہاں وہ رات گئے ان سے ملنے آتے تھے۔ اس سے زیادہ میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
فتح محمد ملک نے دوچار جگہ اور مغالطے کھائے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عسکری صاحب پیپلز پارٹی کے حامی ہو گئے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے جو دلیل کم از کم سلیم احمد کو دی تھی وہ کسی طور نہ صرف یہ کہ قابل قبول نہ تھی بلکہ عسکری کے شایان شان بھی نہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے نوجوان بھٹو کے حامی ہیں اس لئے یہ ملک کا مستقبل ہے۔ سلیم احمد نے عسکری صاحب کی ناراضی کے ابتدائی دنوں ہی میں انہیں پیام بھیجا کہ عسکری صاحب سے کہو کہ یا وہ مجھے حکم دیں کہ میں یہ سب لکھنا بند کر دوں یا پھر مجھے قائل کریں کہ میں غلط ہوں۔ عسکری صاحب نے ان دونوں باتوں کا جواب نہ دیا۔
فتح محمد ملک نے میرٹھ کا بھی جو نقشہ کھینچا ہے وہ درست نہیں ہے۔ کرار حسین یقینا خاکسار تحریک میں سرگرم تھے۔ تاہم میرٹھ ہی میں خاکساروں کا وہ دبستاں پیدا ہوا جس نے علامہ مشرقی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ ایک رسالہ "الامین "کے نام سے اور ایک انگریزی جریدہ جاری کیا۔ کرار حسین اس کے مدیر تھے۔ اس میں دوسرے اہم شخص اختر حمید خاں تھے۔ جنہیں ہمارے ہاں دیہی ترقی کا امام کہا جاتا ہے ان کی شخصیت پر تو پھر کبھی لکھوں گا کہ ان کے کورنگی پراجیکٹ یا مشرقی پاکستان میں کومیلا کے منصوبے کی حیثیت کیا تھی۔ عسکری صاحب کرار حسین کا ایسے ہی احترام کرتے تھے جیسے سلیم احمد عسکری صاحب کا کرتے تھے۔ وہ عسکری صاحب کے استاد تھے۔ میرٹھ اس وقت علمی وادبی مباحث کا گڑھ تھا۔ عسکری صاحب نے پاکستان آنے کے بعد بھی جس طرح پاکستانیت اور اسلامیت کے مسائل چھیڑے وہ ہماری تاریخ میں غیر معمولی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ جب لاہور میں تھے تو منٹو کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اور تاثیر سے ان کا ٹکڑائو ہو گیا تھا۔ ادبی دنیا کے مباحث کو دو جمع دو کر کے کسی سیاسی فارمولے میں بیان کر دینا ایک غلط رویہ ہے۔
دل تو چاہتا ہے کہ فتح محمد ملک نے جو نکات اٹھائے ہیں ان میں ایک ایک پر بات کروں، مگر کالم کی اس تنگنائے میں یہ ممکن نہ ہو گا۔ عسکری صاحب نے مولانا اشرف علی تھانوی کے جو ترجمے کئے وہ کرار حسین سے مل کر کئے۔ تاہم جب انہوں نے مفتی شفیع کے کہنے پر ایک طرح سے دینی مدارس میں جدیدیت کے۔۔۔۔۔۔ کا ایک خاکہ مرتب کیا تو وہ اپنی محدودات یا تحفظات کی وجہ سے نافذ نہ ہو سکا۔ ہمارے جدیدیے اسی کتاب کو لے کر بیٹھ گئے جو باقاعدہ کتاب نہیں ہے۔ عسکری صاحب اس پر بھی ناخوش تھے۔ انہوں نے اس پر ریمارکس دے دیے ہوں گے۔ ہمارے آج کے ایک جید دانشور جو اس وقت کم سن تھے۔ مفتی شفیع کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ عسکری صاحب ان کے خلاف یہ کہتے ہیں، ایک موقع آیا کہ مفتی صاحب جیسی متین شخصیت بھی طیش میں آ گئی۔ کہنے لگے ڈاکٹر حمیداللہ ہی سے پوچھ لیں جن کی عسکری بہت قدر کرتے ہیں۔ وہ مجھے استاذی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ پھر اس سے بھی سخت بات کی جو میں لکھنے سے اجتناب کروں گا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ عسکری صاحب کی تدفین مفتی شفیع صاحب کے دارالعلوم ہی میں ہوئی۔ مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ جماعت اسلامی سے ان کی ذاتی مخاصمت کب اور کیسے پیدا ہوئی تاہم میں اسے اس لئے بیان نہیں کروں گا کہ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مدد نہیں ملے گی۔ فتح محمد ملک کی سید مودودی سے مخاصمت خالص سیاسی ہے جو 70ء میں اور شدید ہوئی ہو گی جب سید مودودی اشتراکیت کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔ انہوں نے مولانا کے مسئلہ ملکیت زمین والے کتابچے کے بارے میں یہ رائے دی کہ یہ گویا پاکستان بننے کے بعد وڈیرہ شاہی نے ان سے لکھوائی ہے۔ یہ 1935ء کے زمانے کی بحثیں ہیں جو اس زمانے کے تناظر میں ایک شرعی اور فقہی مسئلے پر تھی۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مولانا تو جاگیرداری کے اتنے خلاف تھے کہ انگریز کی دی جاگیروں کو ضبط کرنے کے حق میں تھے۔ اس بحث کو اور بعض اپنی دوسری تحریروں کو مولانا نے اس وقت جب 48ء میں وہ قید ہوئے تو وقت کو غنیمت جان کر مرتب کیا۔ انہوں نے اس دوران جو دوسری چیزیں مرتب کیں ان میں تفہیمات، رسائل و مسائل (حصہ اول و دوم) اور تفہیم القرآن اول و دوم بھی شامل ہیں۔ یہ بھی پاکستان کے وڈیروں کے ایما پر کی تھیں؟ اس زمانے کی سیاست پر بات کرنا ہو تو الگ سے کیجیے۔ بہت لوگوں کے پول کھل جائیں گے۔ مگربحث کو سیاست سے گڈمڈ نہ کیجیے۔
رہی رینے گنوں کی بحث تو پہلی بات تو یہ سمجھ لینے کی ہے کہ ان کی حیثیت ایک مستشرق کی نہ تھی۔ جیسا کہ ملک صاحب نے لکھا ہے نو مسلم کی تو کہہ سکتے ہیں ان کی کتابیں پڑھ کر آندرے ژید نے کہا تھا میں اب ستر برس کا ہو گیا ہوں۔ بہت دیر ہو گئی۔ میں اب خود کو بدل نہیں سکتا۔ یہ ایک خالص علمی بحث ہے جسے ہمارے ہاں بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ سلیم احمد کی زندگی ہی میں میں نے اس پر چند نکات تحریری طور پر اٹھائے تھے۔ اور اس پر سلیم احمد سے بحث بھی کی تھی۔ میں کہتا تھا کہ مرا اگر کوئی اختلاف ہے تو ایسا جیسا کسی چشتی کا نقشبندی سے یا حنفی کا حنبلی سے ہو سکتا ہے۔ میں خود کو اس دبستان روایت کا پروردہ سمجھتا ہوں۔ بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ اس کی جو تشریح فتح محمد ملک کے ذہن میں آئی ہو گی، اس کی وہ تشریح ہے ہی نہیں۔ یہ بہت لمبی بحث ہے۔ یہPerennial( قدیمی مذہب) کا تصور ہے اور اسے عصر حاضر میں اسلام کی اس تشریح سے ہم آہنگ کرنا جو ہیت اجتماعیہ کی پیداوار ہے، ایک بہت مشکل کام ہے۔ سلیم احمد کو سمجھنا ہے تو یہ بحث سمجھنا پڑے گی۔ جماعت اسلامی پرپھبتی کس کر آپ اپنے سر پرانقلاب کی کلغی نہیں سجا سکتے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ کام صرف سلیم احمد نے کیا تو غلط نہ ہو گا۔ البتہ عسکری وہیں ٹھنک گئے جہاں اسلام کی Perennial(قدیمی مذہب) تشریح انہیں لے کر گئی۔ وہاں انہوں نے بہت منزلیں طے کیں۔ کمال حاصل کیا مگر اس کا اس اسلام سے رابطہ قائم کرنا جو جمال الدین افغانی سے شروع ہو کر اقبالؒ اور سید مودودی تک پہنچا۔ ان کا مطمح نظر نہ تھا۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ اس سے بالکل کٹے ہوئے تھے۔ بس آج اتنا ہی کافی۔