ایک تو پنڈورا باکس کھلا ہوا ہے اور دوسرے حکومت کو سی پیک کی دوبارہ ضرورت پڑ گئی ہے اور کرنا خدا کا کہ وہ اس کے دفاع پر اتر آئی ہے۔ پہلے فیصلے کے جو انداز ہیں وہ بتاتے ہیں کہ حکومت اس پر کچھ نہیں کرنے والی۔ اوپر سے حکم خداوندی آ جائے تو الگ بات ہے۔
درمیان میں مگر ایک جملہ معترضہ آن پڑا ہے اور اسے میں کیا کہوں۔ نیب کے چیئرمین کو برقرار رکھنے کے لئے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ اس میں جو نکتہ سنجی فرمائی جا رہی ہے، وہ بہت دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف چونکہ خود نیب کے ملزم ہیں اس لئے ان سے مشاورت کرنا جو قانون کا تقاضا ہے، ممکن نہیں ہے۔ حکومت ایسا کرے گی تو گویا چور سے پوچھے گی کہ تمہاری تفتیش کس سے کرائیں۔ چنانچہ مشاورت ضروری ہے تو اپوزیشن اپنا لیڈر بدل لے۔ سبحان اللہ، کیا دلیل ہے۔ ایک مزید باتدبیر نے تو یہ تک کہا کہ خواجہ آصف کو بتا دے۔ اس پر جواب آیا خواجہ صاحب بھی نیب کو مطلوب ہیں پھر کیا کریں، یہاں تو نیب نے سب پر مقدمے بنا رکھے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ تو پھر کس کو بنائیں۔ کیا پیپلز پارٹی کو یہ عہدہ سونپ دیں۔ میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا تو خیال آیا کہ وہ بھی ایسا شخص دستیاب نہ ہو گا۔ نیب سے بچا ہوا ہو۔
زرداری اور بلاول کا بھی یہی حال ہے کل کلاں کو آپ کسی کے بارے میں سوچیں اور نیب جھٹ سے اس پر بھی مقدمہ بنا ڈالے تو کیا ہو گا۔ اپوزیشن پر مقدمہ بنانا تو نیب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ لیڈر آف اپوزیشن صرف وہ ہو گا جسے پیا چاہے گا۔ گویا حکومت کہتی ہے لیڈر آف اپوزیشن ہماری مرضی کا ہونا چاہیے۔ پھر ہم مشاورت کر لیں گے۔ برطانیہ میں اپوزیشن کو ہز(ہر) مجسٹیز لا ئل اپوزیشن کہتے ہیں یعنی بادشاہ سلامت(یا ملکہ معظمہ) کی وفادار حزب اختلاف معاف کیجیے گا۔ ہم اس کا مفہوم اپنے انداز میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایک ایک لفظ اہم ہے، ہزمجیسٹٹیز لائل اپوزیشن۔ کسی نے عمدہ بات کی ہے کہ یہ بات جو لیڈر آف اپوزیشن کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے، وہ خود چیئرمین نیب کے خلاف استعمال ہونا چاہیے۔ قطع نظر اس بات کے کہ قانون کیا کہتا ہے، سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین نیب خاص طور پر اس لئے متنازع بن گئے ہیں کہ انہوں نے اپوزیشن کے تقریباً ہر لیڈر کے خلاف مقدمہ بنا رکھا ہے اور جب یہ مقدمات اعلیٰ ترین عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو وہاں سے ایسے تبصرے آتے ہیں کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کا ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔
دوسری طرف حکومت کے کسی بھی منصوبے اور شخص کے خلاف ان کی مقدمہ بنانے کی جرأت نہیں ہوتی حالانکہ بعض اوقات وہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ مقدمات تیار ہین۔ اگر شروع کر دوں تو حکومت نہ چل پائے۔ اس پوری بحث میں جسے میں نے جملہ معترضہ کہہ کر نقل کرنا چاہا وہ یہ ہے کہ ہم سے پوچھ کر لیڈر آف اپوزیشن بنائو تو بات ہو گی۔ جوابی طور پر کئی دلائل دیے جا سکتے ہیں کہ اپناوزیر اعظم بدلو تو بات ہو گی۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے، خوامخواہ کی چگی بازی ہو جائے گی۔
رہ گئے دوسرے معاملات تو آج صبح اسد عمر کی پریس کانفرنس سن کر اندازہ ہوا کہ حکومت کو سی پیک کی ضرورت پڑ رہی ہے جن سی پیک کے منصوبوں کے خلاف وہ صف آرا ہو کر پاکستان کا کباڑا کر چکے ہیں، آج ان کا دفاع کرتے نظر آئے۔ آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ مہنگی بجلی بنا ڈالی ہے۔ اب کہتے ہیں نہیں ایسا نہیں ہے، ویسی ہی شرائط ہیں جیسی ہونا چاہیے تھیں، یہ جن کے پاس بھی گئے کہ بجلی کے نرخ کم کر دیجیے اور وہاں سے قائل ہو کر آئےآئندہ سے اس پر بات نہیں ہو گی۔ مغرب نے اودھم مچا رکھا تھا کہ چین سے مہنگے قرضے لئے گئے۔ معلوم ہوا یہ جھوٹ ہے، مغرب کے قرضے زیادہ مہنگے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ چین نے ہمیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ چین کا قرضہ ہمارے کل قرضوں کا 10فیصد ہے اور اگر بیرونی قرضوں کا حساب کیا جائے تو صرف 26فیصد ہے۔
باقی سب قرضے مغربی بلاک سے گاہے گاہے حاصل ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت سی پیک کے سارے منصوبے ٹھپ پڑے ہیں۔ صرف اتنا بتا دیجیے کہ پشاور سے کراچی تک ریل لائن کا منصوبہ کیوں شروع نہیں ہو رہا جب کہ چینی بنکوں نے اس کے لئے قرض بھی منظور کر رکھا ہے۔ یا تو چین ہچکچا رہا ہے یا پھر یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف رکاوٹ ہے۔ جو یہ کہہ رہا ہے کہ آپ اتنا بڑا قرض نہیں لے سکتے۔ خبردار جو اس پر غور کیا۔ شیخ رشید اب تو ریلوے کے وزیر نہیں رہے، مگر وہ کیسے اکڑا کرتے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ منصوبہ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے طے ہو چکا ہے، موجودہ حکومت نے محض اس میں تاخیر کا سبب بنی ہے۔ شیخ صاحب ہی فرماتے تھے کہ اگر یہ منصوبہ نہ چلا تو ریلوے کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔ چین بھی نادان نہیں کہ وہ بلا سوچے سمجھے قرض دیتا جا رہا ہے۔ یہ ایک کمائو منصوبہ ہے جو ملک کے لئے آمدنی کا باعث ہو گا۔
میں کوئی سی پیک کی وکالت نہیں کر رہا۔ لگتا ہے خطے کے جو حالات بدل رہے ہیں اس میں ہمیں پھر سے چین یاد آ رہا ہے۔ امریکہ ہماری چیخیں نکلوا رہا ہے۔ جتنی جلدی ہم سمجھ جائیں اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ہم خواہ مخواہ کرپشن، احتساب کے نعرے لگا کر دنیا کو اور پاکستان کے پیارے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ہم لیڈر آف اپوزیشن اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔ امریکہ ہم سے کہتا ہے کہ بس میری غلام کرو وہ ہمیں ایران سے گیس پائپ لائن نہیں بچھانے دے رہا اور وسط ایشیا سے ایک خیالی منصوبے کی جگالی کر رہا ہے۔ ہم عوام کی نظروں سے یہ سب چھپانے کے لئے احتساب احتساب کا نعرہ لگا رہے ہیں اور سب دوستوں کو بھی ناراض کرتے جا رہے ہیں۔ نیب کے چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔