آج مجھے کراچی بہت یاد آ رہا ہے۔ جب سے بارش کی تباہ کاریوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ مجھے اس کے گلی، کوچے، سڑکیں، بازار، مقامات، ندی نالے سب کی یاد ستا رہی ہے۔ ایک عجیب تقابل مرے ذہن میں ابھرا ہے۔ جب غالب منزلوں سے منزلیں مارتے دلی سے کلکتے پہنچے تھے تو واپسی پر ان کا جانے کیا حال ہو گا جو وہ پکار اٹھے:کلکتہ کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں / اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
جب ہم اپنے عہد کے کلکتہ کا ذکر سنتے ہیں جہاں لاکھوں انسان فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور جہاں زندگی کرناایک امتحان ہے تو خیال آتا ہے۔ جانے غالب کے زمانے میں کلکتہ کیا ہوتا ہو گا کہ غالب اسے دل دے بیٹھے۔ بالکل ایسے جب میں کراچی میں اترا تو لاہور تک کو بھول گیا۔ شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد، سچ مچ کراچی کا کوئی جواب نہ تھا۔ صحیح معنوں میں پاکستان کا واحد کاسمو پولیٹن شہر اس کا خیال آتا ہے تو دل میں یقینا ایک تیر سا لگتا ہے۔ ان دنوں وہاں ایک سپورٹس کمپلکس بن رہا تھا، کشمیر روڈ تعمیرات ہو رہی تھیں۔ میں تو ان پر اٹھنے والے اخراجات سن کر حیران رہ گیا تھا کہ یہ اخراجات وہاں کی بلدیہ اپنی گرہ سے کر رہی تھی۔ کسی نے کہا یہ پاکستان کا واحد بلدیاتی ادارہ ہے جو اتنی رقم اپنے کسی منصوبے پر خرچ کر سکتا ہے۔ ان دنوں غالباً یہ رقم 4ارب تھی۔ ٹریفک کی روانی اور شہر میں صفائی، ستھرائی اوربلند و بالا عمارتیں، کسی شے میں اس کا جواب نہ تھا۔ ویسے بھی یہ پاکستان کا صنعتی دارالحکومت تھا، چلئے صنعتی دارالخلافہ کہہ لیجیے۔
عام طور پر یہ تاثر تھا کہ یہاں بارش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ جب ہوتی تو میں نے طارق روڈ جیسے کمرشل علاقے میں پانی کو یوں بہتے دیکھا جیسے کوئی دریا روانی اورتیزی سے بہہ رہا ہو۔ بارشیں ختم ہوئیں تو نئی برسات آنے سے پہلے یہاں آب رسانی کا ذرا جدید بندوبست تعمیر ہونے لگا۔ وسائل تھے، منصوبہ بندی بھی ہو گی۔ مجھے یاد ہے یہ شدید بارش30جون (غالباً 76ء )کو ہوئی تھیں۔ 30جون کے نام پر ایک ڈرامہ ٹی وی پر لکھ دیا گیا۔ غالباً بختیار احمد نے لکھا تھا اور پروڈیوس بھی کیا تھا۔ ریڈیو پر ایک بہت اچھا فیچر سا چلا۔ جہاز کا کپتان پوچھ رہا ہے، ہم اس وقت کہاں ہیں، کیا منوڑہ گزر گیا۔ جواب آتا ہے کہ نہیں ہم حبیب بنک پلازہ کے پاس ہیں۔ تخلیقی اور عوامی ذہن اس طرح فعال ہوتا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے کام ہونے بھی لگتا تھا۔ ہر پھیلتے شہر کی طرح کراچی کی آبادی بہت تیزی سے پھیلی تھی۔ ڈیفنس کا ایک فیز زیر آب آ گیا۔ سمندری طوفان کا خوف بھی پیدا ہوا تو یہ علاقہ خالی ہو گیا۔ کسی نے پھبتی کسی ڈیفنس کا، چاکیواڑہ، ملیر ندی جہاں بہتی ہے۔ اس کے گرد کوئی بند نہ تھا۔ یہ برساتی نالہ ہو گا، مگر نقشوںمیں اس کا نام دریائے ملیر ہی بتایا جاتا ہے۔ غالباً ورلڈ بنک کی مدد سے اس کے گرد اس تیزی سے بند باندھے گئے کہ اردگرد کی آبادیاں محفوظ ہو گئیں۔ یہ وہ کراچی ہے جو آج کے کراچی سے آدھا بھی نہ تھا۔ ایسے پھیلا کہ ندی نالوں کا بھی کسی نے خیال نہ کیا۔ جہاں جگہ ملی، تعمیر کر ڈالی جو شکل نظر آئی، تصویر بنا ڈالی۔ کوئی بات نہیں، عرض کیا، ایسا ہوتا آیا ہے۔ مگر جلد بندوبست کر لیا جاتا ہے۔ منصوبہ بندی کا رواج تھا۔ پاپوش نگر ایک ایسا علاقہ ہے جو ناظم آباد کا حصہ ہے۔ نارتھ ناظم آباد اس کے بعد آتا ہے۔ اردو کے نامور افسانہ نویس ابوالفضل صدیقی بتایا کرتے تھے یہاں چشمے تھے، اونٹ بندھا کرتے تھے۔ بلوچستان جانے والے قافلے یہاں رکا کرتے تھے۔ لسبیلہ کا پل تو اب وسط شہر ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ جانے وہ کیسی دکان ہو گی کہ ٹین پٹی مشہور ہو گئی۔ لیاقت آباد کا نام ہی لالو کھیت تھا۔ یہاں بھی لاہور کے اچھرے کی طرح کھیت ہوتے ہوں گے۔ پورا شہر دیکھتے دیکھتے بنتا گیا۔ پاکستان بنا تو کوئی تین لاکھ افراد کی بستی تھی۔ جب قائد اعظم کے مزار کے لئے یہ جگہ منتخب کی گئی تو کسی قلمکار نے زور قلم دکھایا کہ ایک بیورو کریٹ نے بابائے قوم کو شہر کے باہر ایک ویران ٹیلے پر دفن کر دیا۔ اب یہ ٹیلہ، شہر کا مرکز ہے۔ شہر تیزی سے پھیلتا گیا اورساتھ ساتھ سنورتا بھی گیا۔ وسائل کی کمی نہ تھی۔ پھر صنعتی اور تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بھی اپنے شہر کو سنوارنے کا شوق تھا۔ جب یہاں حبیب بنک کی عمارت بنی تو دنیا دور دور سے اس پلازہ کو دیکھنے آتی تھی۔ سنگا پور، ملائشیا، کوریا تک کے لوگ آتے اور اسے رشک سے دیکھتے تھے۔
پھر کیا ہوا، شہر کو کس کی نظر لگ گئی۔ تعمیرات ایسے ہوئیںکہ ریل کی پٹڑی تک نہ چھوڑی، ندی، نالے نشیب و فرازکا کوئی خیال نہ رکھا گیا۔ میں طارق روڈ پر دریا بہنے کا تذکرہ کررہا تھا۔ اب کئی دریا نئی بستیوں میں بہہ رہے ہیں۔ جن گوٹھوں اورعلاقوں کا نام خبروں میں آ رہا ہے، میں چشم تصور سے وہاں تعمیرات کے بے ہنگم پھیلائو کو دیکھ رہا ہوں۔ یہی حال حیدر آباد کا ہو رہا ہے۔ لطیف آباد وہاں بڑے چائو سے بسایا گیا تھا۔ اب دریائے سندھ کے کنارے پر آباد یہ شہر بھی پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ میں ان دو "مہاجر" شہروں کی بربادی کا تذکرہ کر کے سارا الزام، ایم کیو ایم کو دے ڈالوں۔ چار چھ سال سے بدین اور سندھ کے بعض شہروں کا تذکرہ آ رہا ہے جہاں لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنا پڑے۔ پانی کی نکاسی کا کوئی بندوبست سجھائی نہیں پڑتا۔ پانی نکالیں تو نکالیں کیسے اور نکال لیں تو اسے ڈالیں کہاں! برسہا برس سے اندرون سندھ سے پانی کو نکال کرسمندر کی راہ دکھانے کے بڑے منصوبوں پرکام ہو رہا تھا۔ مگر یہ بدانتظامی کی بدترین مثالیں ہیں۔ شہروں میں بارشیں ہو جائیں تو اس پانی کوسورج ہی اڑا پائے تو یہ ختم ہو سکتا ہے وگرنہ اورکوئی طریقہ نہیں ہے۔ بے شمار لوگ امدادی کیمپوں میں رہنے پر مجبورہو جاتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بارشیں اورطوفان تباہی نہیں مچاتے۔ مگر ہم نے تو لگتا ہے کہ تباہی کا خاص بندوبست کیا ہوتا ہے۔ کراچی ہی کے علاقے میں چاہے مضافات کیوں نہ ہو، فوج کو کشتیاں چلانا پڑی ہیں۔ اندرون سندھ کی ابھی خبریں نہیں ہیں۔ سیلاب کا تو ابھی خطرہ نہیں مگر اب وہاں تو بارشوں کا پانی بھی شہروں کی راہ لے لے تو پھر نکلنے کا راستہ نہیں پاتا۔ خدا کے لئے یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں۔ پل، فلائی اوور، بند یہ سب انسانوں کی ضرورت ہے۔ زندگی کا حصہ ہے، عیاشی نہیں۔ یہ نعرہ سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم افرادی قوت کی تعمیرکریں گے، بجائے کنکریٹ کا انفراسٹرکچر بنانے کے، مگر دراصل یہ ایک فضول اور لغو بات ہے۔ کراچی شہر میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ نہ بن سکا۔ صرف سیاست ہوتی رہی۔ ایک گرین لائن جو غالباً سابق وفاقی حکومت نے بنائی تھی۔ اس وقت سب کا منہ چڑا رہی ہے۔ پورے ملک میں بہت کام باقی ہے۔ شیخ رشید نے ذرا شور مچایا تو پتا چلا ہے کہ ابھی ریلوے کو درست ٹریک پر لانے کے لئے بہت کام کی ضرورت ہے۔ لاہور کی اوورنج لائن اب ایسا ہی ایک نیا مذاق ہے۔ سیاست ہو رہی ہے، سیاست۔ کراچی میں بلدیہ، صوبہ اور وفاق ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ آپ کی سیاست رہی، کسی کی دنیا ہی لٹ گئی۔ کراچی میں عبدالستار افغانی، نعمت اللہ خاں، فاروق ستار، مصطفی کمال نے بلدیاتی اداروں کے ذریعے خاصا کام کیا ہے۔ میں تفریق نہیں کر رہا۔ ایک ادارہ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) نام کا بھی تھا۔ جس کا بڑا چرچا تھا۔ دل تو چاہتا ہے اس کے ایک سربراہ کا احوال لکھوں جس کے دربار میں بڑے بڑے لوگ حاضر ہوتے تھے۔ کیا ٹھاٹھ تھی۔ خیر وہ دن ہی ایسے تھے۔ ابتدا میں تو کراچی کے بعض کمشنر یا شاید چیف کمشنر بھی بڑے ٹھسے کے لوگ ہوتے تھے۔ اس وقت کسی ایک کی داستان لکھنا بھی کراچی کی موجودہ فضا میں ایک تنگ نظر لسانیت کو دعوت دینا ہے۔ اس لئے رہنے دیجیے۔ کراچی کو سب نے لوٹا ہے۔ یہ سب سطریں اس لئے قلم برداشتہ لکھ ڈالی ہیں کہ جوں جوں کراچی کا احوال پڑھتا ہوں یا ٹیلیویژن پر دیکھتا ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ ع
اک تیر مرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے