یہ ایک انتہائی خطرناک مغالطہ ہے جو پیدا کیا جا رہاہے۔ ہمارا دانشور کہتا ہے کہ بھارت اگر ہندو ریاست ہے تو اس میں خرابی کیا ہے۔ ہم بھی تو آخر ایک مسلم ریاست ہونے کے دعویدار ہیں۔ اگر وہ فاشٹ ہیں تو پھر ہمیں بھی خودکو فاشٹ ڈکلیئر کر دینا چاہیے۔ یہ بات کئی مغاطوںکا ملغوبہ ہے اور اس ملک میں ایک خاص ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ بات کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ جناح نے تو 11اگست کو جس نظام کا اعلان کیا تھا وہ ان کے مطابق ایک سیکولر ریاست تھی جبکہ ان کی وفات کے فوراً بعد اس بات کی کوششیں شروع ہو گئیں کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنا دیا جائے۔ قرار داد مقاصد اسی کوشش کا نتیجہ ہے۔
آج تو خیر میں ایک دوسرے دانش ور کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ پہلی بار میں نے یہ بات اے ٹی نقوی کے ہاں پڑھی جو بائیں بازو کی طرف کھلم کھلا جھکائو رکھتے تھے۔ مگر تھے انتہائی سنجیدہ اور باوقار صحافی۔ انہوں نے لکھا قائد اعظم کے خیالات سے پہلا انحراف یہ قرارداد مقاصد تھی۔ اگلے ہی روز وہ ملک کے ممتاز فلسفی ڈاکٹر منظوراحمد کے ہاں اس محفل میں موجود تھے، جہاں کراچی کے 20، 30چوٹی کے اہل علم ہر ماہ شریک ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ قائد اعظم کا مطلب وہی تھی جو آپ لوگ بیان کرتے ہیں تو آیا ایک شخص واحد کی رائے جو چاہے قائد اعظم میں کیوں نہ ہو اہم ہے یا اس کے مقابلے میں منتخب دستور ساز اسمبلی کی متفقہ رائے۔ ظاہر ہے ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ عرض کیا حضور پہلے تو آپ حضرت جناح کو غلط سمجھے اور ان سے سیکولرازم کا تصور منسوب کر دیا جبکہ انہوںنے زندگی بھر اس لفظ کو استعمال تک نہیں کیا۔ پھر تفصیل کے ساتھ اپنا موقف دہرایا جو میں اس 11اگست کی تقریر کے حوالے سے رکھتا تھا کہ یہ میثاق مدینہ کا ہو بہو عکس ثانی ہے۔ ایک ایک سطر اس سے مطابقت اور مشابہت رکھتی ہے۔ یہ بحث تو میں کئی بار کر چکا ہوں، مگر وہی، زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اقبال نے تو خیر خطبہ الہ آباد میں واضح کر دیا تھا کہ اسلام انسان کی وحدت کو کسی نہ قابل ملاپ دوئی یا ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا۔ ایسی دوئی جو مادہ اور روح، ریاست اور کلیسا میں پیدا کر دی گئی ہے۔ اس طرح گویا ریاست اور مذہب کے الگ الگ ہونے سے خیال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا تھا۔
ہمارے یہ دانش ور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہم نے سیکولرازم کا اردو میں غلط ترجمہ کر رکھا ہے۔ ہم اسے لادینیت کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اچھا تو آپ بتا دیجیے، پھر اس کا مطلب کیا ہے، اس کا پس منظر معلوم ہے؟ یہ یورپ میں کلیسا کی بالادستی کے خلاف بغاوت تھی۔ اس لفظ نے مختلف مواقع پر مختلف شکلیں اختیارکیں، تاہم اس کی فلسفیانہ تعبیر سب سے پہلے لندن میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اس وقت کی جب مارکس 1848ء میں کمیونسٹ مینیفسٹورکھ رہا تھا۔ اس سے دو سال پہلے 1846ء میں جارج جے ہولیاک نامی ایک شخص اسی شہر میں بیٹھا سیکولرازم کو باضابطہ مضبوط کر رہا تھا۔ اس نے اسے کلیسا کے مقابلے ایک نظام اور ایک سوچ کے طور پر مراتب کیا۔ چلئے فلسفے کو چھوڑیے۔ اس وقت دنیا میں اس کے چھ ماڈل ہیں جن سے سیکولرازم کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر ممتاز احمد نے مذہب اور ریاست کے تعلق پر بعدمیں چار مزید اضافے کئے مگر میں خود کو چھ تک ہی محدود رکھتا ہوں۔ 1۔ پہلا ماڈل امریکہ کا ہے جس کے سیکولرازم کے دو اصول ہیں۔ ایک یہ کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور دوسرا یہ کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ 2۔ دوسرا ماڈل برطانیہ کا ہے جس میں ریاست کا مذہب ہے، اس کا اپنا کلیسا ہے اور برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ اس کے سربراہ ہیں۔ البتہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ 3۔ تیسرا ماڈل فرانس کا ہے جو انقلاب فرانس میں کلیسا سے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس میں کلیسا یا مذہب کی مخاصمت واضح ہے۔ یہ گویا اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ 4۔ ترکی کا ماڈل اسی فرانسیسی ماڈل سے متاثر ہیں مگر بہت آگے بڑھ گیا۔ وہاں مسلمان اپنے مذہب کے مطابق شادی کر سکتے ہیں نہ عبادت، مگر یہودی ہر معاملے میں آزاد ہیں۔ ترکی میں عربی میں اذان تک دینے پر پابندی تھی۔ غیر مسلموں کو بڑی چھوٹ تھی۔ یہ جو مرا دانشور پوچھتا ہے کہ لبرل کو سیکولر سے ملا دیا جائے تو دین دور طبقہ اور چڑتا ہے۔ اس لئے کہ پھر اس کی یہی شکل بنتی ہے جو ترکی میں رہی ہے اور جس سے ترکی اب نجات حاصل کر رہا ہے۔ 5۔ اس کی پانچویں شکل روس میں پائی جاتی ہے جس کے مطابق مذہب افیون ہے۔ مزید تبصرے کی ضرورت نہیں۔ 6۔ اور آخری شکل بھارت کی ہے جس کے بارے میں اول روز سے کہا جاتا تھا کہ یہ منافقت کے لبادے میں اپنی جنونیت کو چھپانے کا دوسرا نام ہے۔ حالات نے ثابت کر دیا کہ اب پردہ چاک ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے اس جھانسے میں نہیں آئے۔ وہ اس لفظ سے بھاگتے رہے۔ ان کی نظر میں ان کا اپنا نظام حیات زیادہ طاقتور اور جاندار تھا جس میں ریاست کا اپنا مذہب ہے(برطانیہ کی طرح) ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں آپ کو مادر پدر آزادی نہیں، آپ کا ایک ضابطہ حیات ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں۔ مرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں کہ وہاں اس کا اسلوب حیات بیان کروں جو یہ لبرل سیکولر طبقہ ان لفظوں کی آڑ میں اپنانا چاہتا ہے۔
تاہم یہ ایک بڑی حماقت ہو گی اگر اس بات پر اصرار کیا جائے کہ اسلامیہ جمہوریہ اورہندو توا کے ایک ہی معنی ہیں۔ آپ کو ہندوتواکا متبادل ڈھونڈنا ہے تو پھر داعش کا ماڈل دیکھیے۔ وہ تو وہ، پاکستان میں تو طالبان کا ماڈل بھی قبول نہیں کیا گیا جس نے افغانستان سے نہ صرف پوست کی کاشت ختم کر دی تھی بلکہ اس ہتھیار بند معاشرے سے ہتھیار بھی ختم کر دیے تھے۔ مولانا فضل الرحمن ہمارے ہاں کے کٹر مولوی ہیں۔ ان تک سے جب انتخاب کے بعد پوچھا گیا آیا آپ طالبان کا ماڈل لائیں گے، تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہا، ان کا اپنا آئین ہے۔ ہمارا اپنا آئین۔ ہندوستان میں غالباً کیرالا یا مغربی بنگال کی کمیونسٹ پارٹی کے کسی فرد نے کیا خوب کہا تھا یا جب فرانس میں بائیں بازو والوں کو برتری حاصل ہو گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا ہم آئین فرانس کے مطابق کام کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ کا ماڈل صاف بتاتا ہے کہ یہ پہلی ریپبلک ہے جو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلنا چاہتی ہے۔ یہاں ریپبلک کا لفظ اہم ہے۔ پاکستان ان معنوں میںمذہبی ریاست نہیں جن معنوںمیں اسرائیل ہے اور بھارت ان معنوں میں مذہبی نہیں ہو سکتا جن معنوں میں اسرائیل ہے۔ اس لئے کہ یہاں ہندوئوں کے علاوہ ایک بہت بڑی اکثریت آباد ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت صاف بتا دیا گیا تھا یہ شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے یا بنگال کے مسلمانوں کے لئے ایک تجویز ہے۔ باقی جو لوگ ہندوستان میں رہ جائیں گے، ان میں آبادی کی تقسیم ویسی بھی نہ ہو گی جیسی مسیحی یورپ میں تھی۔ آبادی کے اس مجموعے میں اگر آپ ان اصولوں پر نہیں چلتے جن کی بنیاد پر ملک بنا تھااور اس کا آئین ترتیب دیا گیا تھا تو پھر تاریخ اس خطے کے بارے میں ایک بار پھر نئے فیصلے کرے گی۔ شاید ان فیصلوں کا وقت ان ہندوتا والوں نے خود ہی قریب کر دیا ہے۔ ایک ہندو ریاست کے یہ معنی کیسے ہو گئے کہ آپ اپنے اندر موجود ایک مسلم آبادی کے خطے پر فسطائیت نافذ کریں جیسا وہ کشمیر پر کر رہا ہے۔ جو لوگ ہندو ریاست سے ڈر کر ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اسلام کا نام لینا چھوڑ دیں۔ وہ سمجھ لیں کہ ہم نے ہر بات میں احتیاط برتی ہے۔ جمہوریہ کا لفظ ہم نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھااس بحث میں نہ پڑھیے۔ ہم کبھی تھیو کریسی کے قائل نہیں رہے۔ ہم نے اپنے نظام کو اور کوئی نام بھی نہیں دیا۔ رہی رام راج کی بات تو اس پر قائد اعظم کی تنقید یہ سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے کہ ہم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ ہم نے تو ان کو پذیرائی نہیں بخشی جو حکومت الہیہ یا غلبہ اسلام کا نعرہ لگاتے تھے۔ برصغیر میں مسلم فکر کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیجیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ دیس کیسا دیس ہے۔ رہا، آپ کے نازو نوش اور عیش وعشرت کا معاملہ تو اس کے لئے ہم ملک کا نظام نہیں بدل سکتے، بلکہ اپنا دین نہیں چھوڑ سکتے۔