اسلام آبادمیں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ کوئی اطمینان و مسرت کی بات نہیں، اس سے یہ پتا چل رہا ہے کہ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ جو کہا جاتا تھا کہ لانگ مارچ یا دھرنے سے پہلے ہی بہت کچھ ہو سکتا ہے، عوام سیاسی جماعتوں سے آگے نکل سکتے ہیں تو وہ سب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سردست حالات سے نپٹنے کے لئے حکومت نے جو حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اس پر تبصرہ نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ انتخابات البتہ طے ہے کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ حکومتوں نے جب ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتی اس لئے جیسے سب کچھ اس کے ہاتھ میں۔ اللہ کے واسطے سمجھ جائو یہ حکومت کی ناکامی نہیں ریاست کی ناکامی بنتی جا رہی ہے اور وہ سب ادارے جو خود کو ریاست کا نگہبان سمجھتے ہیں اچھی طرح جان لیں کہ پاکستان کی ریاست کو خطرہ ہے۔
دیکھیے سرکاری ملازمین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے تو وہ میدان میں نکل آئے ہیں۔ تاہم اتنے کتنے طبقے ہیں جن کے حالات اس سے بھی دگرگوں ہیں۔ جب آتش فشاں پھٹ پڑے گا تو کچھ باقی نہیں بچے گا۔ مجھے بہت سے اداروں کی عزت عزیز ہے وگرنہ میں بہت کچھ کہہ جاتا۔ حقیقت کیا ہے جب حکومت سے پوچھو مہنگائی ہو گئی تو وہ کہتے یں ڈالر کی قیمت بڑھ گئی اور یہ پرانی حکومت کی وجہ سے بڑھی ہے۔ بھائی، اتنا تو بتا دو جب مہنگائی بڑھتی ہے تو کیا ملازمین، سرکاری ہوں یا غیر سرکاری ان کی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت نہیں ہوتی اب جس حد تک تنخواہیں بڑھانے کی بات کی جا رہی ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا مگر اس کا جواز موجود ہے اور وہ یہ کہ آپ بھی بتاتے ہیں کہ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کے اثرات کیا کیا ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے تھا کہ اس کے اثرات آپ کے معاشی اشاریوں پر ہی نہیں بڑھتے۔ عام آدمی سب سے پہلے اس کی چکی میں پستا ہے۔ بلا مبالغہ اس وقت زندگی دوبھر ہو گئی ہے ادھر اقتدار کی ضرب تقسیم کرنے والوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ان کی مچان پر بیٹھ کر آپ مہنگائی، غربت، بے روزگاری کے درندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں جو مقبول قسم کے پاپولسٹ مارکہ فیصلے کئے جا رہے ہیں وہ سب نادانستہ ہیں۔ دل سے حکومت کے بزرجمہریہی سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی نام نہاد معاشی حکمت عملی فرات میں بہہ جائے گی۔ یقینا ایسا ہی ہو گا۔ آج مرے ایک پرانے ساتھی نے بڑی تشویش سے کہا کہ یہ تو بالکل یحییٰ خان کا زمانہ آ گیا ہے۔ کار پردازوں کو کسی بات کی فکر نہیں ہے۔ تنخواہیں بڑھا بھی دیں تو اپنی چست معاشی جیکٹ میں آپ فراہم کہاں سے کریں گے۔ نتیجے کے طور پر ریاست پاکستان کا کیا بنے گا۔ کرپشن کرپشن کرپشن۔ بس کرو اب یہ راگ۔ دوسری طرف سے نالائقی، نااہلی کے طعنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ طعنے نہیں حالات بتاتے ہیں یہ حقیقت ہیں۔ میں قلم برداشتہ لکھتا جا رہا ہوں یہ نہیں کہ خیالات مرے قابو میں نہیں، بلکہ یہ کہ حالات کسی کے بس میں نہیں رہے۔ دل تو کرتا ہیکہ ہر قسم کے ہذیان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کروں، اگرچہ یہ ایک فعل لا حا صل دکھائی دیتاہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر بات کو وقت کے ترازو میں تولا جائے کسی کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔ کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ یہ نہیں کہ اپوزیشن کچھ کر سکتی ہے مگر یہ طے ہے کہ حکومت کے اکڑ بکڑ باپو کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہو سکتا ہے بعض لوگ خوش ہوں کہ حکومت کا باجا بج رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ میں نجانے کیا کیا کہے جا رہا ہوں، مگر صورت یہی ہے کہ ہر شخص کے اندر ایسا ہی لاوا ابل رہا ہے جن کے اندر سکون ہے وہ یا ابنارمل ہیں یا منافق، یہ بے حس اور ظالم۔ دل دہل جاتا ہے جب انفرادی دکھوں کی داستانیں سنتے ہیں۔
میں ملک میں اسٹیبلشمنٹ کو ضروری سمجھتا ہوں۔ مرے احباب مجھے اس کے لئےمعاف کریں اس لئے کہ وہ طوفانوں میں لنگر کا کام دیا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک ہی میں نہیں، پوری دنیا میں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ ادھر ٹرمپ اپنے آخری دنوں میں جب مکمل پٹڑی سے اتر گئے تو قومی سلامتی کے اداروں کیسے حرکت میں آئے اور عوامی نمائندگی کے اداروں نے کیسے اپنا کام کیا۔ 25ہزار نیشنل گارڈز کو متحرک کرنے کے لئے انہیں کسی صدارتی حکم کی ضرورت نہ تھی اور مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کے لئے انہیں کوئی ڈر نہ تھا۔ یہ ایک خود کار نظام ہوتا ہے جو ریاست کی حفاظت کرتا ہے۔ پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا یہ طوفانوں کا لنگر کہاں گیا۔ ڈر لگتا ہے کہ یہ کہیں جہاز سے ٹکڑا ٹکڑا کر اسے ڈبونے ہی کے درپے نہ ہو جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرح انتظامیہ بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتی ہے۔ اس کی نشانی افسر شاہی ہوتی ہے۔ ہمیں انگریز سے جو دو چار مضبوط ادارے ملے تھے ان میں جاندار بیورو کریسی بھی تھی۔ ایک تو ہم نے اس کے خلاف بہت پروپیگنڈے کیا، اب یہ صورتحال ہے کہ ریڑھ کی یہ ہڈی بھی ٹوٹ چکی ہے اور ہمیں اسے اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھ رہے ہیں۔ لے دے کر دو ادارے رہ جاتے ہیں جنہیں فوج اور عدلیہ کہتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہم نے اپنے آئین میں لکھ رکھا ہے کہ ان کا احترام کرو۔ سو ہم ان کا احترام کر رہے ہیں اور بس اتنے سے گزارا نہیں ہو گا۔ دل چاہتا ہے کہ ملک کے حالات پر ایک تفصیلی تجزیہ لکھوں، مگر یہ کام دل کا نہیں دماغ کے کرنے کا ہے اور دماغ مائوف ہوتا جا رہا کیا زمانہ آ گیا ہے کہ وزیر اعظم کارریاست پر توجہ کرنے کے لئے روز ترجمانوں کی فوج ظفر موج کو اس بات پر لیکچر دیتے ہیں کہ انہیں حکومت کے مخالفوں کو کیسے جواب دینا ہے اور پھر خود بھی اسی کام میں لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن پورے ملک میں ہائو ہو کار مچا کر بستی والوں کو یہ بتا رہی کہ کوئی درندہ حملہ آور ہونے والا ہے۔ میں نے یہ چند سطریں صرف غصہ نکالنے کے لئے لکھی ہیں۔ اردو کے ایک نقاد نے لکھا تھا کہ شاعری ہذیان کا نام ہے۔ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ۔ ہم بھی اسی طرح کی شاعری کر رہے ہیں کہ ہذیان پر قابو پانے کا کوئی علاج نہیں ہے۔