آئی جی کراچی کے قضیے کا عسکری فیصلہ آ گیا جس سے بہت سے سوال پیدا ہوئے۔ بلاول نے گلگت و بلتستان ہی سے اسے قبول کیا جب کہ نواز شریف نے لندن سے اس کو مسترد کیا۔ نواز شریف نے اپنی ٹویٹ میں جو الفاظ استعمال کئے اس کا آخری لفظ بہت اہم اور تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ انہوں نے لکھا Rejectedیہی وہ الفاظ تھے جو ڈان لیکس پر حکومتی کارروائی کے جواب میں فوج کے ترجمان نے استعمال کئے تھے جس پر بہت لے دے ہوئی تھی۔ بالآخر یہ الفاظ واپس لئے گئے مگر آرمی چیف نے وضاحت کی کہ یہ ٹویٹ مرے کہنے پر کی گئی تھی۔ اس سے پوری صورت حال کا نہ صرف نفسیاتی تجزیہ کیا جا سکتا بلکہ اس داستان کو رقم کیا جا سکتا ہے جو ہمارے ملک کی تاریخ ہے۔ آپ یہ بھی طے کر سکتے ہیں کہ جسے ہم ریڈ لائن کہتے ہیں۔ وہ کیسی ہوتی ہے اور کیا ہوتی ہے کیا کبھی ہم اس صورت حال سے نکل سکیں گے۔ ویسے کیا اس صورت حال سے نکلنا ضروری بھی ہے یا ایسے ہی کام چلنے دیا جائے۔
یہ بات درست ہے کہ آئی جی کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہ یقینا حد سے بڑھا ہوا تھا۔ آرمی چیف نے بروقت کارروائی کی۔ ہمارے نوخیز اینکر اور تجزیہ کار کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں پہلی بار ہوا۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ ماضی قریب کے دو واقعات تو ہمیں یاد ہونا چاہئیں۔ پہلا واقعہ تو کراچی میں ساحل سمندر کا تھا جس میں رینجرز نے ایک نوجوان کو گولی مار دی تھی وہ ہاتھ جوڑتا رہا، منتیں کرتا رہا مگر اسے تاک کر نشانہ بنایا گیا۔ اسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا اور میڈیا نے اس کی تشہیر کر دی۔ ایک قیامت برپا ہو گئی۔ طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ تاہم جب فوج نے اس پر کارروائی کی تو ایک طرح سے اطمینان کا سانس لیا گیا۔
اس سے بھی پہلے کا ایک واقعہ اس سے زیادہ اہم اور سبق آموز ہے۔ اندرون سندھ ٹنڈو بہاول میں ایک واقعہ ہو گیا۔ ایک نوجوان فوجی افسر نے ایک گائوں کے کئی افراد کو دہشت گرد قرار دے کر گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس نوجوان کیپٹن ارشد کا ان لوگوں سے کوئی ذاتی معاملہ تھا۔ وہ فوجی جوان لے کر گیا اور کارروائی کر دی۔ ان دنوں میں بھی ایک سندھی روزنامہ الوحید، نکالا کرتا تھا۔ رات گئے جب یہ خبر ملی تو میں نے یقین نہ کیا۔ ادھر ادھر سے تصدیق چاہی کوئی معتبر رائے دستیاب نہ ہوئی۔ میں فیصلہ نہ کر سکا کہ یہ خبر چھپنی چاہیے یا نہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مری پیشہ وارانہ مہارت اس رات جواب دے گئی اور "حب الوطنی" کے جذبے نے مرے ہاتھ روک دیے۔ اگلے روز سارے سندھی پریس میں اس کا چرچا تھا۔ پھر ہم بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔
مجھے یاد ہے، ہمارے دوست میجر چشتی (بعد میں کرنل) اس کی ذاتی سطح پر بھی تردید کرتے رہے۔ پھر یہ ہوا کہ اگلے ہی روز اردو اور انگریزی کے دو بڑے اخبارات میں نمایاں طور پر یہ خبر شائع ہوئی کہ چیف آف سٹاف جنرل آصف نواز نے حیدر آباد کے جی سی او کو بھی بدل دیا اور وہاں کی ساری کمان کا تبادلہ کر دیا ہے اور مجوزہ کیپٹن کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ خبر درست ہے۔ بعد میں ہمارے دوست بریگیڈیئر صولت (ان دنوں کرنل) نے بتایا کہ یہ خفیہ اطلاع انہوں نے جنرل آصف نواز ہی کے کہنے پر ان دو اخبارات کو فراہم کی تھی۔ شاید ردعمل کا جائزہ لینا مقصود تھا۔ اگلے ہی روز باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یہ خبر جاری کر دی گئی۔ پھر اس شخص کو پھانسی ہوئی، باقی لوگوں کو بھی سزائیں ملیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سندھ میں فوجی آپریشن ہو رہا تھا۔ یہ فوج کی کریڈیبلیٹی کا سوال تھا۔ ہمارے فوجی دوست اس کے بعد ہمیشہ پوچھا کرتے تھے کہ فوج نے تو اپنے لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا مگر جو سویلین اس میں ملوث تھے ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔
غداری، جاسوسی پر سزا دینا تو دوسری بات ہے مگر پبلک سروس میں کوتاہی یا زیادتی کرنے پر داد رسی کی یہ واضح مثالیں ہیں اگر میں کیڑے نکالنا چاہوں تو بہت سی ایسی مثالیں دے سکتا ہوں، مگر اس وقت یہ مرا موضوع نہیں ہے۔
اب اس واقعے کی طرف آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کا نظام مصنوعی طور پر چلایا جاتا ہے۔ رینجرز ربع صدی سے یہاں متعین ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ جنرل عبدالقادر بلوچ بھی کراچی میں اس کے سربراہ رہے ہیں۔ یہ بندوبست اس لئے کرنا پڑا کہ پولیس اکیلے کراچی کو سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ رینجرز کے پاس وہ اختیار نہیں ہوتے جو مقدمات قائم کرنے یا قانونی کارروائی کے لئے پولیس کے پاس ہیں۔ ہر تین ماہ بعد رینجرز کو سندھ حکومت یہ اختیارات دیتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ حکومت نے یہ اختیارات دینے میں لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا۔ تاہم ذرا تاخیر ہی سے سہی یہ اختیارات دے دیے جاتے۔ سندھ میں ایک APEXکمیٹی بنائی گئی جس میں سویلین کے علاوہ فوج اور رینجرز بھی شامل ہوتے ہیں۔ کراچی کی سویلین حکومت نے اس صورت حال کو قبول کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کور کمانڈر کی بڑی اہمیت ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کی وجہ سے جو حالات تھے اس میں شہری بھی اس بندوبست کو ناگزیر سمجھ رہے تھے۔ بھتہ خوری، بوری بند لاشیں، لوگ سوچتے تھے کہ کراچی میں کیا کبھی معمول کی زندگی ہو بھی سکتی ہے۔ ان کے لئے یہ بندوبست قابل قبول نہیں۔ رینجرز کو چونکہ یہ کام پولیس کے ساتھ مل کر کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ پولیس فورس کے ساتھ تعاون کا رشتہ ہو۔ دوسری طرف سندھ کی حکومت کے، ہر سیاسی حکومت کی طرح اپنے مفادات ہیں۔ وہ اپنے کام میں آزادی چاہتے ہیں۔ اس لئے یہاں آئی جی کی تقرری یا پولیس افسروں کی تعیناتی پر ہنگامہ کھڑا ہوتا رہتا ہے اگر سندھ پولیس کا چیف اور عسکری ادارے آپس میں متصادم ہوں تو امن و امان ہو نہیں سکتا چنانچہ یہ ایپکس کمیٹی، یہ رینجرز، یہ فوج سب کے درمیان ایک ان کہی مفاہمت ضروری ہے۔
اس واقعے میں اس مفاہمت سے تجاوز کیا گیا۔ پولیس ہر لحاظ سے تعاون کرتی ہے۔ یہاں ایک قومی سطح کا سیاسی معاملہ تھا جس کی وجہ سے ظاہر ہے پولیس اپنے انداز کی احتیاط برت رہی تھی۔ مگر جب یہ سانحہ رپورٹ ہو گیا تو اس سے اشتعال پھیلنا ناگزیر تھا۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ آئی جی کے گھر کا گھیرائو اس لئے کیا گیا ہے کہ اس وقت عوام میں اشتعال تھا تو یہ بات لطیفہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ دو نوجوان بھائی علیم عادل شیخ اور حلیم عادل شیخ کراچی کی درمیانے درجے کی قیادت کے پرانے کھلاڑی رہے ہیں۔ مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ کراچی کو اب اس کرب سے نکالنے کی کوشش کرنا چاہیے جو 5 3 بر پہلے اس پر مسلط کیا گیا تھا۔ میں نے کراچی کو بہت خوبصورت حالت میں دیکھا۔ پھر اس کے تہذیبی اعضا کے گلنے سڑنے کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ کراچی منی پاکستان کہلاتا تھا۔ میں اسے منی برصغیر کہتا تھا۔ یہاں برصغیر کے ہر کونے سے آئے لوگ آباد تھے۔ یہ مختلف ثقافتوں کا کولاژ تھا کیا خوبصورت تصویر تھی جس کا ہر رنگ مزہ دیتا تھا۔ ویسے تو پورے سندھ میں بھی مختلف جگہوں سے نئے لوگ آباد تھے۔ جو تقسیم سے بہت پہلے آئے تھے وہ یہاں کا حصہ بن گئے تھے۔ میں نے اوپر کولاژ کا لفظ استعمال کیا۔ یہ کینیڈا والے اپنے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ امریکی خود کو مختلف ثقافتوں کی کٹھالی Melting potکہتے تھے۔ پتا نہیں کون سی بات بہتر ہے اور سچ ہے۔ کراچی کو بہرحال اس کی عظمتیں واپس کرو۔ میں یہ بات اس لئے بھی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزارا ہے کسی اور شہر میں اتنا وقت نہیں گزرا۔ کراچی کو میں اپنا شہر کہتا ہوں۔