5فروری پر میں نہیں لکھوں گا تو اور کون لکھے گا۔ میں پاکستانی ہوں، کشمیری النسل ہوں۔ برس ہا برس سے اس کی آزادی کے لئے لڑ رہا ہوں اور اس برس تو میں نے عہد کر رکھا ہے کہ میں دنیا بھرمیں کشمیر کا سفیر بن کر اس کا مقدمہ لڑوں گا۔ یہ بات مجھ سے حالات نے کہلوائی ہے۔ بھارت نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہ کوئی 184دن پہلے کی بات ہے، دیکھا نا ہمیں دن تک یاد ہے کہ بھارت نے کشمیر کو غصب کر لینے کا اعلان کیا تھا۔ پوری وادی پر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ اس کا اندازہ بھارت سرکار کو تھا کہ کشمیر کی وادی اس اعلان کو ٹھنڈے دل سے برداشت نہیں کرے گی۔ میں نے بھارت سے اپنے سفارتی تعلقات کا درجہ کم تر کر دیا۔ ان کے سفیر کو واپس جانے کے لئے کہا۔ ہمارا سفیر وہاں گیا ہوا نہ تھا اس کو بھجوانے سے انکار کر دیا۔ پروازوں پر پابندی لگا دی۔ تجارت بند کر دی بہت اچھلے کودے۔ بہت تیاریوں کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہمارے وزیر اعظم نے زور دار تقریرکی۔ اقوام متحدہ میں ہمارے نمائندوں نے بہت زور دار تقریریں کی۔ سلامتی کونسل میں بھی اور جنرل اسمبلی میں بھی۔ کشمیر پر بعض تقریروں کا تو دنیا میں بہت چرچا تھا۔ اس بار ہم نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کشمیر پر جو تقریر ہو گی اس کا جواب نہ ہو گا۔ بہت یاد دلایا گیا کہ تقریر تو بھٹو کی بھی خوب تھی، مگر اس سے ملک ٹوٹ گیا۔ سر ظفر اللہ کئی دن پاکستان کا مقدمہ لڑتے رہے۔ اللہ کو جان دینا ہے یہ مقدمہ انہوں نے خوب لڑا تھا ہمیں وہ سب تقریریں یاد آئیں جو ہمارے مندوب یا وزرائے خارجہ عالمی پلیٹ فارم پر کرتے رہے ہیں۔ کشمیر ہی پر نہیں دوسرے عالمی معاملات پر بھی جن کو یاد کر کے ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ اب کی بار تو ہم نے طے کر رکھا تھا کہ دنیا کو چکرا کر رکھ دیں گے۔ بھارت نے وادی کشمیر کو جیل خانہ بنا ڈالا تھا۔ اس کی فوجیں ہماری سرحدوں اور لائن آف کنٹرول پر بار بار چھیڑ چھاڑ کر رہی تھیں۔ اس کے طیارے ہماری سرحدوں پر منڈلا رہے تھے۔ انہوں نے کہیں سے سرجیکل سٹرائیک کا لفظ سن رکھا ہے۔ وہ ہماری سرزمین پر سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کرتا ہے یعنی اندر آ کر حملہ کرنا۔ اس بار بھی اس نے اس کی کوشش کی۔ ہم نے سبق سکھا دیا۔ ایک طیارہ مار گرایا۔ دوسرا بھی گرا ڈالا مگر وہ سرحد کے اس پار گرا۔ جی ہاں لائن آف کنٹرول کہہ لیجیے۔
پھر دوستوں نے کہنا شروع کیا۔ کشمیر ہمارے ہاتھ سے گیا۔ بھارت نے قبضہ مکمل کر لیا ہے۔ ایک رسمی کارروائی تھی جو پوری کر لی۔ دنیا خاموش ہے۔ وہ اسے بھارت کا اندرونی معاملہ کہہ رہی ہے۔ البتہ انہیں صرف اتنا انتظار ہے کہ بھارت وادی سے کرفیو اٹھا لے تو تسلی ہو۔ بھارت کی ہمت نہیں پڑ رہی۔ دنیا اب صورت حال سمجھ رہی ہے۔ پاکستانی عوام نہیں مان رہے کہتے ہیں ہمیں کشمیر کے لئے جو کرنا ہے وہ ہماری حکومت نہیں کر رہی۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا یہ فقرہ خوب چلا کہ سری نگر میں ہماری مائیں بہنیں، بیٹیاں اور اپنے ادوار کھلے دریچے کھول کر منتظر نظروں سے جھانکتی ہیں کہ شاید پاکستانی فوج باہر کھڑی۔
بھارت نے ایک اور حرکت کی جس نے ہمیں کچھ تقویت دی ایک طرف تو کشمیر کا مسئلہ تھا۔ دوسری طرف اس نے بھارت میں شہریت کا ایک متنازعہ قانون پاس کیا۔ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے وہ لوگ جو بھارت میں رہتے ہیں انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ وہ بھارت میں پیدا ہوئے ہیں، تب وہ بھارتی شہری ہوں گے مگر وہ مسلمان ہوئے تو انہیں اس کا استحقاق نہیں ہو گا۔ جمہوریت اور سیکولرازم کا نام لینے والے بھارت کے کج کلاہوں کو اس سے بڑی توپیں محسوس ہوئی یہاں تک کہا گیا کہ جناح ٹھیک کہتا تھا کہ مسلمان اور ہندو برصغیر میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ پاکستان کا الزام درست ہے کہ بھارت میں سیکولرازم صرف ایک ڈھونگ ہے یہ چل نہیں سکتا اور یہ کہ مودی ایک فاشٹ ہے جو شدید نسلی اور مذہبی امتیاز کا متشدد پرچارک ہے۔ اسے ہٹلر کہا گیا۔ اس لئے اس سال تو مجھے یہ دن ضرور منانا ہے سو میں نے سرکاری سطح پر اس کا اعلان کیا۔ بھارت میں رہنے والے شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کی اس طرح کی پکار پر لبیک کہا ہے یہ 5فروری بھی تو ایک ایسی ہی پکار ہے۔ کئی برس سے یہ دن منایا جاتا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہوتا ہے ایک بار بھٹو نے برسر اقتدار آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی اپیل کر دی۔ ہم نئے نئے مشرقی پاکستان چھنوا کر بیٹھے تھے۔ سوچا کون جواب دے گا۔ کشمیر میں ایسی ہڑتال کاکہ دنیا کو معلوم ہو گیا ہے کشمیری کس طرح سوچتے ہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں پھر اس کا مرحلہ آیا تو انہوں نے اپنی گھڑیوں کا وقت پاکستان کے وقت کے مطابق کر لیا۔ پاکستانی پرچم کشمیر کی فضائوں میں لہرانے لگے۔ ہم اتنی بار کشمیر سے یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں کہ کئی بار تو یاد نہیں رہتا کہ آج کیوں منا رہے ہیں۔ صرف جولائی میں تین بار مناتے ہیں۔ 8جولائی کو برہان وانی کی شہادت کا دن، 13جولائی کو 1931ءکے شہیدوں کا دن جب اصلی تحریک آزادی کشمیر شروع ہوئی تھی۔ یہ دن وہ تھے جب علامہ اقبال بھی کشمیر کی آزادی کا حصہ تھے اور تیسرا 19جولائی جب کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا اعلان ہوا۔ یہ صرف تین دن نہیں ہم سال میں کئی بار کشمیر سے یکجہتی کا اظہار کرتے۔ یہ 5فروری بھی کشمیر پر پاکستانی قوم کے اتحاد کا دن ہے۔ قاضی حسین احمد نے اعلان کیا کہ اس دن کشمیر سے یکجہتی کا اعلان کیا جائے۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے سرکاری طور پر ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ بے نظیر وزیر اعظم پاکستان تھیں۔ انہوں نے بھی یہ راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ گویا پوری پاکستانی قوم کی یکجہتی کا اعلان تھا۔ کشمیر کے مسئلے پر سبھی ایک تھے۔
دن تو ہم بہت مناتے ہیں۔ اس بار بھی دال دلیہ کر لیں گے۔ کشمیر میں ہمارے بھائی ہماری لاج رکھ لیں گے۔ پہلے بھی وہ ہماری پکار پر بولتے رہے ہیں۔ ہیں نا عجیب بات۔ دکھانا تو ہم نے یکجہتی ہے اور انتظار ہم کرتے ہیں کہ وہ اس آواز پر کس قدر لبیک کہتے ہیں۔ کشمیر کی جنگ آزادی بہت طویل ہو گئی ہے جب یہ واقعہ ہوا کہ بھارت نے پہلی بار کشمیر میں فوجیں اتاریں تو اس وقت شیخ عبداللہ، چودھری غلام عباس سب کشمیر کی تاریخ کے کردار تھے۔ جب 1931ء میں شروع ہوئی تو علامہ اقبال اس کا حصہ تھے۔ علامہ اقبال کی زندگی میں فلسطین اور کشمیر دو ایسے مسئلے تھے جن سے اقبال جذباتی طور پر وابستہ تھے اور آج بھی یہ مسئلے ہماری غیرت کو پکار رہے ہیں۔ برہان وانی سے لے کرسید علی گیلانی تک ایک طویل فہرست ہے، ان مجاہدوں کی جو کشمیر کے لئے لڑے۔ صرف مجاہدین ہی نہیں، دانشور بھی جو ایک طویل عرصے سے انسانی ضمیر کو پکار رہے ہیں:
یہ دن بھی کتنے مقدس ہیں بے بہا ہیں کہ آجہمارا حصہ بھی ہے طالع شہیداں میں علامہ اقبال، برہان وانی، سید علی گیلانی، مقبول بٹ سے لے کر حزب المجاہدین، لشکر طیبہ کے شہدا اور بے شمار اپنی جان پر کھیل جانے والے اور رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں پہروں سوچ کی جوت جلائے رکھنے والوں کی صفوں میں ایک صدی کی جدوجہد شامل ہے۔ منٹو بھی مری طرح کشمیری تھا۔ بلکہ میں کہا کرتا ہوں، امرتسر کا کشمیر ی تھا۔ جنگ چھڑی تو اس نے لکھا تمہیں قسم ہے شلجم اور بھات کی، کیا تم ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال سکتے ہو۔ یہاں میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمہیں قسم ہے شلجم اور بھات کی، کیا تم کشمیر کی مقدس سرزمین سے دست بردار ہو سکتے ہو کشمیر مٹی کے ٹکڑے کا نام نہیں۔ ایک آگ کے اجالے کا نام ہے:
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار