کچھ یاد نہیں ہے کہ ہم سال میں کتنی بار کشمیر ڈے مناتے ہیں۔ کبھی اس نام سے کہ آج کشمیر کا پاکستان سے الحاق کا اعلان ہوا تھا۔ کبھی اس نام سے کہ آج اقوام متحدہ نے قرار داد پاس کی تھی۔ کبھی اس کی مذمت کے لئے کہ آج بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا۔ اب ایک نیا دن ہمارے احتجاج اور غصے کا اظہار کرتا ہے کہ اس دن بھارت نے اپنے آئین کی شق 370کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ جولائی کے مہینے میں مجھے یاد ہے کہ ہم نے تین بار کشمیر کو یاد کیا تھا۔ غالباً 6جولائی کو کہ برہان وانی کی شہادت کا دن ہے۔ 13جولائی کو کہ اس دن 1931ء میں کشمیر کی جدوجہد آزادی کا آغاز یا شاید احیا ہوا تھا جب ظالم ڈوگرہ حکومت میں سرینگر میں گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تھی اور پھر 19جولائی کو جب کشمیر کا پاکستان سے الحاق کا اعلان ہوا تھا۔ اب تو یاد بھی نہیں رہتا کہ کون سا دن کیوں منایا جاتا ہے۔ یہی 5فروری کو لے لیجیے اسے ہم پاکستانی کشمیر سے یک جہتی کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ اکثر اوقات لوگ پوچھتے ہیں کہ اس دن کیا ہوا تھا جب اس کے عشرے کے آخر میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے لٹ پٹ کر لوگوں کے قافلے آزاد کشمیر آنے لگے اور یہاں مہاجر کیمپ بنانا پڑے تو اس وقت ان کی میزبانی کرنے والوں میں جماعت اسلامی اول اول تھی انہی دنوں قاضی حسین احمد نے یکجہتی کے دن کا اعلان کیا۔ پہلے شاید یہ جنوری کا دن تھا جسے بعد میں 5فروری کر دیا گیا۔ پنجاب میں ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی انہوں نے اس دن حکومت پنجاب کی طرف سے بھی یہ دن منانے کا اعلان کر دیا۔ سیاست کے اپنے کھیل ہوتے ہیں اس پر وزیر اعظم بے نظیر بھی حرکت میں آئیں اور بالآخر 5فروری متفقہ طور پر کشمیریوں سے یکجہتی کا دن قرار پایا اور اس دن سے آج تک منایا جاتا ہے۔ ہمارا کیا جاتا ہے، ہم نے تو دن ہی منانا ہوتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ کیا دن منا لینے سے کشمیر آزاد ہو گا۔ ایسے بھی ہیں جو پوچھتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی سے ہمیں کیا ملے گا۔ ہو سکتا ہے ہم اسے بھول گئے ہوتے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے مگر کشمیری ہمیں بھولنے نہیں دیتے جن کے شہیدوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفنایا جاتا ہے اور اسے وہ اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔ وہ اس پرچم کو مصلّے یا جائے نماز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جن دنوں اس دن کا آغاز ہوا تھا ان دنوں ہی کشمیری لوگوں نے اپنی گھڑیوں کی سوئیاں پاکستانی وقت کے مطابق کر لی تھیں۔
ادھر بوڑ ھے مجاہد سید علی گیلانی کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہماری جو اسمبلی کشمیر پر قرار داد پاس کرتی ہے، اس کے اجلاس مارکٹائی، شور و غوغا اور دھینگا مشتی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کیا سبق دیتے ہیں ہم دنیا کو۔ ہمارا وزیر اعظم اس دن کوٹلی میں جلسے سے خطاب کرنے جا رہا ہے۔ وہاں کا کوتوال شہر حکم جاری کرتا ہے کہ ان کی سکیورٹی کے مناسب انتظام کئے جائیں۔ یہ ضروری ہوتا ہے مگر ساتھ ہی وہ مطلع کرتا ہے کہ ضلع کی تحریک انصاف کا صدر کہتاہے کہ اگلی تین صفوں میں صرف تحریک انصاف کے لوگ ہوں اور وہ بھی سب جانے پہچانے۔ کوئی غیر آنے نہ پائے۔ جن افراد کا تعلق دوسری پارٹیوں سے ہو، انہیں ہرگز ہرگز قریب نہ آنے دیا جائے۔ کیا ہمارے وزیر اعظم کو کشمیریوں سے خطرہ ہے۔ ایک زمانے میں اچھی بات تھی کہ آزاد کشمیر میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا وجود ہی روا نہ رکھا گیا تھا۔ اب تو خیر گلگت و بلتستان میں بھی ہم اپنے جھگڑے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ آخر یہ خطہ بھی تو کشمیر تھا اور ہے۔ ہم اسے اپنا صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کو الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ ادھر بھارت نے وادی کو باقی کشمیر سے کاٹ دیا ہے۔ لداخ کے علاقے کو براہ راست بھارتی تسلط سے لے لیا ہے۔ یہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کشمیر کے حریت پسند آج بھی بھارتی جیلوں میں ہیں۔ دس دس بیس بیس سال سے۔ ہم کہتے ہیں دیکھو ہم نے اقوام متحدہ میں کیا خوب تقریر کی ہے۔ ادھر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ایوان میں بتاتے ہیں کہ سری نگر کی عورتیں جب صبح اٹھتی ہیں تو گھر کے دریچوں سے باہر جھانک کر دیکھتی ہیں کہ کیا پاکستانی فوج ہمارے گلیوں محلوں میں آ چکی ہے یا ہمیں مزید انتظار کرنا پڑے گا۔
تو کیا ہمیں فوج کشی کرنا پڑے گی۔ نہیں، بالکل نہیں۔ ویسے ہم نے یہ بھی کر کے دیکھ لیا۔ دوسری طرف ہم نے راہ فرار اختیار کر کے بھی دیکھ لیا۔ مشرف کی طرح آئوٹ آف باکس حل تلاش کرنے بھی نکلے تھے۔ مگر معلوم ہوا کہ ہمارے لئے بھی راہ مفر نہیں ہے، ہمیں کشمیر کے لئے ڈٹ جانا پڑے گا۔ آج پاکستان کی حزب اختلاف بھی مظفر آباد جا رہی ہے۔ خوب جلسہ جمے گا۔ جانے کیا گل کھلائے جائیں۔ لگتا ہے یہ جنگ بھی عوام نے لڑنا ہے۔ حکومت کام آئے گی نہ کوئی اور سیاسی گروہ، صرف عوام کی طاقت ہی ہمیں بروئے کار لاسکتی ہے۔ شہر کو پاکستانی سیاست کا ایجنڈہ بنا کر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے، جیتی جاگتی حقیقت۔ کشمیر کو آزاد ہونا ہے، آپ اس میں اپنا حصہ ڈال دیں تو ٹھیک ہے، وگرنہ مشیت ایزدی کوئی دوسرا راستہ نکال لے گی۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ علامہ اقبال جہاں تصور پاکستان کے خالق تھے وہاں دو مسئلے ایسے ہیں جو ان کی زندگی میں ان کی توجہ کا مرکز بنے اور یہ آج بھی زندہ جاوید حقیقت ہیں۔ ایک فلسطین کا مسئلہ اور دوسرا کشمیر کا مسئلہ۔ انہی دنوں 13جولائی 1931ء کا سانحہ ہوا تھا۔ اقبال نے کشمیر کمیٹی کی صدارت بھی قبول کی اور ہمیشہ اس مسئلے کی حقیقت کو تازہ کرتے رہے۔ امیر کبیر علی ہمدانی کے بارے میں ان کے تصورات ایسے ہی ہیں جیسے سید علی ہجویری داتا گنج بخش کے حوالے سے۔ ایک نے خطہ لاہور کو مسکن بنایا جس سے یہ خطہ پورے برصغیر میں اسلام کو پھیلانے سبب بنا اور دوسرے نے کشمیر کو کفر کی وادیوں سے نکال کر مشرف بہ اسلام کیا۔ ابھی کل ہی میں سلمان غنی کے ساتھ سیالکوٹ یونیورسٹی میں گیا تھا جہاں یہ دن منانے کی روایت پڑ چکی ہے۔ یہاں کی انتظامیہ جس ذوق و شوق سے یہ دن مناتی ہے ارادہ تھا کہ اس پر الگ سے کالم لکھوں گا مگر اس وقت صرف تذکرہ کر رہا ہوں۔ یہ دن تو لاہور کے تعلیمی اداروں میں بھی منایا جا رہاہے۔ مگر سوال دن منانے کا نہیں کچھ کر گزرنے کا۔ سیالکوٹ میں جا کر مجھے ہمیشہ احساس ہوتا ہے کہ میں بین الاقوامی سرحد پر نہیں ہوں بلکہ ورکنگ بائونڈری پر ہوں۔ چند ہی میل کے فاصلے پر ہندوستان نہیں جموں و کشمیر کی سرحدیں بھی ہیں جہاں شہر جموں کی روشنیاں جگمگاتی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی خاندان ہیں جن کے عزیز و اقارب آج بھی جموں میں ہیں۔ یہ شہر بتاتا ہے کہ ہم مصنوعی دیواریں دلوں کو تقسیم نہیں کر سکتیں۔ یہ لوگ آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کر کے رو پڑتے ہیں۔ یہ داستان پھر سہی، اس وقت تو یہ چند سطریں یہ یاد دلانے کے لئے لکھ رہا ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ صرف دن منانے کا نہیں کچھ کر گزرنے کا ہے۔ اور یہ کہ ہم نہیں کریں گے تو مشیت ایزدی ضرور کچھ کر گزرے گی۔ کشمیر ضرور آزاد ہو گا۔