یا تو ہم اعلان کر دیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی سب سے کھلی دلیل یہ ہے کہ ہمارے پیارے قدیمی دوست سعودی عرب میں جو ہر مشکل میں ہمارے کام آیا اور جس نے ہر خوشی کے موقع پر دل کھول کرہمیں داد دی، اس نے ہم سے اپنا قرض واپس مانگ لیا ہے۔ مانگا ہی نہیں وصول بھی کر لیا ہے۔ یہ قرض اتنا بھی نہ تھا کہ سعودی معیشت کے لئے بوجھ بنتا۔ ہمارے لئے البتہ یہ بہت ضروری اور ناگزیر تھا۔ ایک ارب ڈالر ہمارے لئے بہت اہم تھے۔ یہ ایسا قرض تھا جو ہم خرچ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ صرف ہمارے اکائونٹ میں پڑا ہوا تھا اور ہم اس کا سود بھی ادا کرتے تھے۔ ہم اب اس کی لیپا پوتی کر رہے ہیں۔
یا تو یہ بات ہے یا پھر ایک دوسری بات ہے کہ ہم نے کانٹا بدل لیا ہے اور اب گاڑی کو دوسری پٹڑی پر ڈال رہے ہیں۔ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ نئی پٹڑی ہی ہمیں منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ تجزیہ نگار اگر ایک طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایران سے تعلقات بنانے کے چکر میں سعودی عرب کو بھی کھو رہے ہیں تو دوسری بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ ایسا ناگزیر ہو گیا تھا۔ خطے کے بدلتے حالات میں چین نے جو پیش قدمی ہے اس نے ہمیں دوبارہ سی پیک کی طرف لوٹنے پر مجبور کیا ہے۔ ہم نے اس منصوبے کو موخر کر دیا تھا کہ اہل مغرب کی فرمائش یہی تھی۔ ہمارے مشیر تجارت دائود رزاق نے حلف اٹھاتے یہ یا شاید اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ ہمیں سی پیک کو ایک سال کے لئے موخر کر دینا چاہیے۔ ایک سال کیا ہم نے اسے کئی سال کے لئے موخر کر دیا۔ تاہم دوبارہ اس طرف رجوع کے لئے صاف نظر آتا ہے کہ ذہن کی اس تبدیلی میں ہمارے عسکری ادارے شامل ہیں۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین بننا اور آج کل کھل کھلا کر سی پیک پر بیان دینا یہ بتاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔
ادھر دوسری طرف چین نے ایران کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھ کر گویا خطے کی صورت حال بدل ڈالی ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ ایک طرح سے گوادر کے مقابلے میں تعمیر ہو رہی تھی۔ انڈیا نے اسے تعمیر کرنے اور اسے وسط ایشیا سے ملانے میں مدد دینے کا اعلان کیا تھا۔ ایسے لگتا تھا ایران بھارتی بھائی بھائی کے نعرے لگنے والے ہیں۔ اچانک اعلان ہوا کہ ایران نے انڈیا سے مایوس ہو کر چین سے رابطے کئے ہیں۔ چین نے نہ صرف اس بندرگاہ کی تعمیر کا اعلان کیا بلکہ ایران میں 40بلین کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کا اعلان بھی کر دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسے سی پیک کا حصہ قرار دیا۔ ہم لاکھ کہیں کہ ہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کا پرچم لے کر نکلے ہیں۔ مگر یہ بات اتنی آسان نہیں۔ یہ ہماری خوش فہمی ہے۔ یہ ایک طرف سے ہمارے لئے فیصلے کا لمحہ تھا کہ ہم نے گوادر اور سی پیک منصوبے پر جو محنت کی ہے۔ اسے اکارت کر دیں یا چین سے اپنے قدیم و مضبوط تعلقات کا فائدہ اٹھائیں۔ آنے والے دنوں میں چین کو بالخصوص اس خطے میں جو اہمیت ملنے والی ہے اس سے نہ مغرب بے خبر ہے نہ امریکہ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ امریکہ چین کے اس بڑھتے ہوئے رول سے ہراساں ہے۔ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ خوش قسمتی سے تاریخ کی درست سمت پر ہیں یعنی چین کے دوست ہیں۔ ہم نے اس دوستی کی قیمت پر گزشتہ دو سال میں بہت کچھ کیا ہے۔ درست ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے ہمیں امریکہ سے تعاون کرنا چاہیے۔ یہ کام تو چین بھی چاہتا ہے مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ چین اس خطے میں مستقبل کا لیڈر ہے اور اس کا اصل تصادم یہاں انڈیا سے ہے۔ ایک طرح سے امریکہ اور ایک اتحاد بنانا چاہتا ہے جس میں اس کے ساتھ انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان ہو۔ یہ سب آسان نہیں ہے۔ امریکی رویہ ایک طرح سے منفی ہے یعنی چین کو روکو۔ دنیا بھر میں بحث ہو رہی ہے کہ آیا چین عالمی قیادت کی جنگ جیت چکا ہے۔ اس حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر امریکہ اور یورپ چین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ دنیا کی بہتری چین سے دشمنی نہیں بلکہ چین کے ساتھ تعاون ہے۔ دنیا کا فائدہ اسی میں ہے کہ امریکہ خواہ مخواہ چین کو اسی طرح کی سپر پاور بننے پر مجبور نہ کرے۔ جیسی اس نے سرد جنگ میں روس کو بنا ڈالا تھا۔ یہ بہت خطرناک نقشہ ہو گا۔ اس وقت میں اس موضوع پر تفصیل سے نہیں آنا چاہتا۔ تاہم یہ بات اب کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ چین اس خطے ہی کی نہیں دنیا کی بھی ایک بڑی طاقت ہے۔
سعودیوں سے ہمارے تعلقات ایسے رہے ہیں کہ ہماری ہر خوشی غمی میں شریک رہے ہیں۔ شاہ عبداللہ واحد حکمران تھے جنہیں پاکستان نے اپنا کہوٹہ کا ایٹمی پلانٹ دکھایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ شاہ کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔ ایک بات تو کل ہی کسی دوست نے یاد دلائی کہ انہیں شاہ عبداللہ نے اپنے بھائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ تو مرے نصف (سوتیلے) بھائی ہیں اور یہ نواز شریف مرے مکمل (سگے) بھائی ہیں۔ دراصل شاہ عبدالعزیز کی اولاد ان کی مختلف بیویوں سے ہے۔ شاہ فہد سے شاہ سلمان تک ایک بیوی کی اولاد ہیں اور شاہ سلمان اپنی ماں کی اکلوتی اولاد تھے یہ دراصل بات کہنے کا ایک ڈھنگ تھا جو پاکستان سےمحبت ظاہر کرنے کا ایک انداز تھا۔ نئے حکمران خاص کر ولی عہد سعودی حکمت عملی وضع کرنے میں بڑا جارحانہ انداز رکھتے ہیں۔ وہ اسے نئے اور جدید عہد کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ نوجوان آدمی ہیں۔ ان کی طبیعت میں تیزی بھی ہے۔ میں تفصیل میں نہیں جاتا۔ تاہم ان کا اپنا انداز ہے جو کبھی کبھی مغربیوں کو بھی پریشان کرتا ہے۔ بعض باتوں پر اعتراض کے باوجود ٹرمپ نے صاف کہا محمد بن سلمان اور سعودی عرب ہمارے دوست ہیں۔ اس پوری صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم سعودی عرب کے بارے میں پھونک کر قدم رکھیں۔ خاص کر متحدہ عرب امارت کی موجود قیادت بھی اپنا انداز رکھتی ہے۔ یہاں کے ولی عہد مغرب کے شاید سعودی فرمانروا سے زیادہ قریب ہیں۔ اس لئے کہ ان کا انداز وہی روایتی ہے۔ چنانچہ ان دو ملکوں کی جو مشترکہ پالیسی ہے اس میں پاکستان کے لئے کچھ مسائل تھے۔ دوسری طرف ایران ہے جس کے اپنے تقاضے تھے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ تہران میں ایرانی دفتر خارجہ نے ہمیں بریفنگ دیتے ہوئے ہمیں سمجھایا کہ آپ جیسے سعودی عرب کے قریب ہو، ویسے یہ سمجھ لو کہ ہم بھارت کے قریب ہیں ان کی نظر میں بھارت اور سعودی عرب میں کوئی فرق نہ تھا۔
اس وقت ہو سکتا ہے کہ بھارت اپنی مخصوص بخیلی اور چالاکی کی وجہ سے ایران کوٹرخا رہا ہو یا امریکہ کا دبائو ہو۔ مگر اب انہوں نے دوسری طرف دیکھنا شروع کیا۔ ایران نے کئی بار کہا ہے۔ وہ ہم سے بہتر تعلقات چاہتا ہے۔ اب ایک مثبت بات یہ آ گئی ہے کہ ایران چین کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوا ہے اور ہمیں بھی یاد آ گیا ہے کہ چین ہمارا بہت قدیمی دوست ہے۔ ہماری دوستی سمندروں سے گہری، پہاڑوں سے بلند تر اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ اچھا ہوا ہمیں پھر یاد آ رہا ہے۔ اس میں خارجہ پالیسی کی کامیابی تو یہ ہے کہ خواہ مخواہ اپنے دوست ضائع نہ کریں۔ کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ اپنے ایک قدیم دوست سے دھمکی کے انداز میں بات کرنا ہمیں بھی زیب نہیں دیتا۔ ترکی یقینا ہمارا بہت قیمتی دوست ہے اور اب تو ملائشیا سے بھی تعلقات بھی اچھے ہیں، قطر وغیرہ سے بھی ہمارے ترجیحی تعلقات ہیں۔ خارجہ پالیسی کی کامیابی یہ ہو گی کہ ہم سب کو لے کر چلیں۔ یہ نہیں کہ دوست کا طیارہ لے کر امریکہ جائیں اور وہاں وہ خراب ہو جائے۔ بہرحال اس بدلتی صورت حال کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے اور اس بات کو سیکھنا چاہیے کہ خارجہ پالیسی ہمارے لئے کس طرح کامیابیاں لا سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ ایران کے صدر کو کلبھوشن کا طعنہ دے کر سعودی عرب میں جا کر نوکری کر لیں یا یہ کہ پرانے عسکری اتحاد کو یہ کہہ دیں کہ آپکے یمن سے جھگڑے میں ہم غیر جانبدار ہیں۔ آپ کو کوئی اچھا لفظ نہیں ملا تھا۔ خارجہ پالیسی اسی کا نام ہے۔ یہ لفظ قرار داد میں ڈالنے کا کریڈٹ لینے والے بھی آج کل خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں۔